خود کو بدلئے صاحب۔۔۔۔۔۔

صفائی جن کا نصف ایمان ہوا کرتی تھی، جو مال کے نقص بیچنے سے پہلے بتایا کرتے تھے، جو ناپ تول میں کمی نہ کرتے تھے، اپنے وعدے کے ایفا کے لئے تین تین دن ایک ہی جگہ پر انتظار کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔ایسے تھے میرے آبا۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی تصویر آئینے میں دیکھتا ہوں تو اپنا چہرہ دیکھ ہی نہیں پاتا۔۔۔۔۔میرے گھر کے آئینہ خانے میں کچھ اور نظر آتا ہے اور اپنی دکان کے فریم میں کسی اور طرح کا۔۔۔میں جس گھر میں جاتا ہوں میرا چہرہ بدل جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔پچھلے چند ہفتوں سے اپنے چہرے کی ایک غلاظت سے نظریں ہٹانے میں مصروف ہوں۔ مگر کیا کروں اس بدبو نے اب ناک میں دم کر دیا ہے۔۔۔۔وہ جو لاہور کے کھانا بیچنے والے کھانے کے نام پر بیچ رہے تھے اور میں کتنے شوق سے اپنی جیبیں خالی کر کے خریدنے جاتا تھا۔۔۔۔ان سب غلاظت فروشوں کی تصویروں سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی فیس بک کی دیوار بھری پڑی ہے۔۔۔۔وہ کون سا بڑا نام ہے جو ان ریستورانوں میں شامل نہیں۔۔۔آواری، کے ایف سی، این ایف سی، فیٹ برگر، ہرڈیس۔۔۔۔۔۔ایک لمبی فہرست جو زیادہ بہتر ہے آپ ان کی ویب سے ہی پڑھ لیں۔ Punjab Food Authority
کسی کے اچار پر پھپوندی جم چکی ہے اور وہ شہر کے بہترین اچار بنانے والے ہیں، کسی کے کچن اور باتھ روم میں فرق ہی کوئی نہیں، کوئی مردہ جانوروں کی ہڈیوں سے گھی نکال کر فروخت کئے جارہا ہے، کوئی دھڑلے سے کسی مشہور برانڈ کا کولا اپنی بنائی بوتلوں میں بھرے جا رہا ہے، کسی نے باسی گوشت سے فریج بھر رکھے ہیں، اور کہیں کوڑا ڈالنے والے ڈسٹ بن سے خوراک کوذخیرہ کرنے والے برتن کا کام لیا جا رہا ہے، کسی ہوٹل کے کام کرنے والوں کے باتھ روم میں صابن تک دستییاب نہیں۔۔۔اور کسی کے کام کرنے والوں کو ہائی جین کے متعلق کوئی آشانئی ہی نہیں۔ ۔۔۔۔
منافع کمانے کی دوڑ میں میرے پاکستانی بھائی جس دوڑ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اس میں حلال و حرام کی تمیز تو ناممکن ہے ہی مگر حفاظان صحت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے جس طرح کا کھانا لوگوں کو بیچا جا رہا ہے اس سے الامان۔۔۔۔کینسر سےمرنے والوں کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آئے روز کسی کا بھائی اور کسی کی بہن اس خاموش قاتل کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور وجہ نامعلوم۔۔۔۔بس جی کینسر ہو گیا ۔۔۔۔کینسر کیونکر ہو گیا؟ جب جس دودھ کو دوائی سمجھ کر پیا گیا ہو اور اسی داوئی میں زہر ملا ہوا ہو تو مریض کی صحت یاب ہونے کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ جس خوراک نے آپ کا جزو بدن بننا ہو اگر وہی کسی شریان میں جا کر لہو کا بہاو روکنے کا سبب بننے لگے تو ایسی خوش خوراک چہ معنی؟
فوڈٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے ہمارے سائنسدان دوستوں کا کہنا ہے کہ دودھ کے حصول کے لئے آکسیٹوسن کا استعمال مضر صحت ہے، اور اب تو سنا ہے کہ یوریا سے بھی دودھ بنایا جاتا ہے، مزید برآں جنیٹکل موڈیفائیڈ فوڈ، پیسٹی سائیڈ کے اثرات والی خوراک جب ناقص صفائی ستھرائی والی جگہوں پر پک کر تیار کی جاتی ہیں تو ان کے مضر اثرات دو آتشہ ہو جاتے ہیں۔
ان حالات میں صاف ستھری خوراک تک عام لوگوں کی رسائی ممکن بنانا کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے، بہت اچھا ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی خاتوں آہن عائشہ ممتاز اس مہم پر نکلی ہیں کہ شہر کے دکانداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ آپ کو صاف ستھرا کھانا فروخت کریں۔ ان کے ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی دیکھ کر روشن پاکستان کی منزل دور دکھائی نہیں دیتی، بہت ممکن تھا کہ ایسی آواز دبا دی جاتی۔۔۔لیکن پنجاب حکومت کے ان کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے ان کی پذیرائی ہی کی ہے۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا طریقہ کار بہت عام فہم ہے اور وہ متعلقہ جگہ سے تصاویر لیکر اپنے فیس بک کے صفحے پر ساتھ ساتھ لگاتے جاتے ہیں، تاکہ اس سے پیشتر کوئی کسے سے کہے کہلاوائے۔۔۔بات سوشل میڈیا پر نکل چکی ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مثبت رنگ کی یہ تصویر بہت سے اداروں کے لئے مشعل راہ ہے۔ پاکستان کے اور بہت سے ادارے پنجاب فوڈ اتھارٹی سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے ایک وزیر کا سفارشی رقعہ بھی سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا تھا۔۔۔ایسے بہت سے اقدام طالع آزماوں کو سوچنے پر مجبور کرسکتے ہیں کہ اب  آپ کی تحریر کی باز گشت ان کو سنائی دے گی اور وہ عوام کی عدالت میں جواب دہ ہوں گے۔
جہاں حکمرانوں پر فرض ہے کہ وہ عوام کے لئے زندگی کی بنیادی ترین ضرورت خوراک کی بہترین ترسیل کے لئے کوشش کریں وہیں ہم عوام پر بھی فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں سادگی کو لائیں؟ بازار سے گھٹیا برگر کیونکر؟ گھر کا پراٹھا رول کیوں نہیں؟ اگر ہر دوپہر دفتر کی میز پر گذرتی ہے تو تھوڑا سا کھانے کا اہتمام اپنے گھر سے کرنے میں کتنی محنت درکار ہے۔ اور ہاں اگر گھر کا کھانا ہی کھاتے ہیں تو اپنے حصے کا اگاتے کیوں نہیں؟ ایک گائے یا بھینس۔۔۔۔جس کو زیادہ دودھ کے لئے آکسٹوسن کے انجکشن نہ لگائے جاتے ہوں، دو چار مرغیاں، گھر کی سبزی۔۔۔۔جس گھر کے کونے پر آرائشی پودے سجا رکھے ہیں وہاں گھوبھی اور بنیگن کیوں نہیں؟ اپنے لئے گوشت پیدا کرنا شاید تھوڑا مشکل ہے مگر اپنی سبزی اگانا بہت آسان ہے۔ اگر بالکل بھی جگہ نہیں تو کم از کم اپنا سلاد تو اگایا ہی جاسکتا ہے۔ جس کے لئے دو چار خالی گملے اور تھوڑی سی قوت ارادی درکار ہے اور بس۔۔۔۔۔
بازار سے اپنی پسند کا ملک شیک پینے سے ذرا پہلے سوچ لیجئے کیا یہ ٹھنڈا اور میٹھا زہر تو نہیں؟ آپ کی آنکھیں کھولنے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی ویب پر سینکڑوں تصویریں پڑی ہیں، ان کے لئے جنہوں سے ہزار گنا منافع پر کاروبار چلایا ہے اپنی روش تبدیل کرتے کچھ وقت لگے گا، مگر آپ کو اپنی صحت کے لئے اپنی عادت تبدیل کرنے کے لئے کس تحریک کی ضرورت ہے؟ ذرا سوچئے۔۔
یہ آرٹیکل پہلے ڈان نیوز میں چھپ چکا ہے ۔ کیا آپ کو معلوم ہے آپ کیا کھا رہے ہیں؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں