اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے؟ فیض احمد فیض

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟ 
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر ایک بات وہی 
آسمان بدلا ہے افسوس، نا بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری، اور مارچ میں پڑے گی سردی

اور اپریل ، مئی اور جون میں ہو گی گرمی
تیرا من دہر میں کچھ کھوئے گا، کچھ پائے گا
اپنی معیاد بسر کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی، شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب لوگ دیتے ہیں کیوں مبارک بادیں
غالبا بھول گئے وقت کی کڑوی باتیں
تیری آمد سے گھٹی ، عمر جہاں میں سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی



2 تبصرے:

  1. محسن نقوی کی ایک نظم
    نئے سال کی صبحِ اول کے سورج!
    میرے آنسوؤں کے شکستہ نگینے
    میرے زخم در زخم بٹتے ہوئے دل کے
    یاقوت ریزے
    تری نذر کرنے کے قابل نہیں ہیں
    مگر میں
    (ادھورے سفر کا مسافر)
    اجڑتی ہوئی آنکھ کی سب شعائیں
    فِگار انگلیاں
    اپنی بے مائیگی
    اپنے ہونٹوں کے نیلے اُفق پہ سجائے
    دُعا کر رہا ہوں
    کہ تُو مسکرائے!
    جہاں تک بھی تیری جواں روشنی کا
    اُبلتا ہوا شوخ سیماب جائے
    وہاں تک کوئی دل چٹخنے نہ پائے
    کوئی آنکھ میلی نہ ہو، نہ کسی ہاتھ میں
    حرفِ خیرات کا کوئی کشکول ہو!

    کوئی چہرہ کٹے ضربِ افلاس سے
    نہ مسافر کوئی
    بے جہت جگنوؤں کا طلبگار ہو
    کوئی اہلِ قلم
    مدحِ طَبل و عَلم میں نہ اہلِ حَکم کا گنہگار ہو
    کوئی دریُوزہ گر
    کیوں پِھرے در بدر؟

    صبحِ اول کے سورج!
    دُعا ہے کہ تری حرارت کا خَالق
    مرے گُنگ لفظوں
    مرے سرد جذبوں کی یخ بستگی کو
    کڑکتی ہوئی بجلیوں کا کوئی
    ذائقہ بخش دے!
    راہ گزاروں میں دم توڑتے ہوئے رہروؤں کو
    سفر کا نیا حوصلہ بخش دے!
    میری تاریک گلیوں کو جلتے چراغوں کا
    پھر سے کوئی سِلسلہ بخش دے،
    شہر والوں کو میری اَنا بخش دے
    دُخترِ دشت کو دُودھیا کُہر کی اک رِدا بخش دے
    .

    جواب دیںحذف کریں