اردو بلاگر ایسوسی ایشن کا پوراخواب -ادھوری تعبیر

پچھلے کافی دن اردو بلاگنگ ایسوسی ایشن کے نام برباد کئے، ایک چیٹ گروپ میں 3500 سے زائد پیغامات کا تبادلہ ہوااور بالاخر ہم نے اس گروپ کو چھوڑنے میں ہی عافیت جانی۔ ہر شخص اپنی زندگی کو اپنے حساب سے ترتیب دیتا ہے اور کچھ منزلوں کا تعین کرتا ہے، بلاگنگ کی حوالے سے میری منزل اچھا لکھنے والا بننا اور اپنے مافی الضمیر کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے۔ کچھ سالوں سے میں ہفتے میں ایک سے دو دن لکھنے اور اس سے متعلق کاموں میں صرف کرتا ہوں، جیسے وقت نکال کر مطالعہ کرنا اور بغیر کسی خواہش اور تحریک کے بھی لکھنا اسی مشق کا حصہ ہیں۔ بلاگنگ کے حوالے سے مجھے ایک دو خوشگوار تجربات ہوئے جیسے میری پہلی ہی بھیجی ہوئی تحریر ڈان بلاگ کو پسند آ گئی اور پچھلے آٹھ نو ماہ میں پندرہ سولہ تحاریر ڈان بلاگ پر چھپیں، پانچ سات نیو بلاگ پر اور تین عدد جنگ نوجوان کے صفحات پر۔۔۔۔مجھ ان تحاریر کے چھپنے سے کچھ تحریک ملی اور میں اب بھی اپنی ترتیب سے بلاگنگ پر کام کرنا چاہتا ہوں، بے لاگ-اردو بلاگرز کی تحاریر کا سلسلہ بھی الحمد للہ کامیاب رہا، اور ہم نے سوچا کہ اس کو آن لائن میگزین کی شکل دے دی جائے ۔
بے لاگ کی تیاری کے دوران مجھے شدت سے احساس ہوا کہ اچھا لکھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جیسے جعفر حسین کے جملوں کی کاٹ، عمر بنگش کی سلاست، علی حسان کی منظر کشی، فہد بھائی کے الفاظ کا چناو، ثروت بہن کی جزئیات نگاری، کوثر بیگ کی مکالمہ نگاری، سید یاسر کی بر جستگی، خاور کی شگفتگی، ریاض شاہد کا مطالعہ، ۔۔۔۔اگر میں چونتیس ناموں کی فہرست سامنے رکھوں تو مجھے لگتا ہے سب مجھ سے اچھا لکھنے والے، اور کچھ ایسے ہیں جو اچھا لکھنے والوں سے بھی اچھا لکھنے والے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جن کے الفاظ موتیوں میں تلنے لائق ہیں۔

مجھے لگا کہ ان کی بازار میں  کوئی قدروقیمت ہی نہیں، ، ان پھولوں پر نہ کوئی تتلی نہ کوئی بھنورہ، صحرا کی اذانیں اور ویرانوں کے پھول ، جس کو نہ کوئی سنے نہ کوئی سونگھے۔۔۔۔۔۔۔
بس وقت کے اس لمحے ایک خیال آیا کہ بلاگنگ کو ایک پراڈکٹ بنایا جانا چاہیے، تبھی اس کے خریدار آئیں گے، اب سوال یہ تھا لوگ کیونکر اکھٹے ہوں، اور آسان ترین حل تھا کہ پہلے لکھنے والے ہی اکھٹے کیوں نہ ہو جائیں سو ایسوسی ایشن کی بات کی۔۔احباب نے اپنی اپنی رائے دی۔۔۔۔۔۔اکثریت خاموش تھی اور بولنے والوں کو میری بات پسند نہیں آئی، لیجئے ہم بھی چھوڑے دیتے ہیں،
لیکن میرا ماننا یہی ہے کہ ایک دوسرے کا سہارا بننا ہو گا، ایک دوسرے کی آواز میں آواز ملانی ہو گی۔۔۔وگرنہ یہاں ہماری کچھ شنوائی نہ ہو گی۔۔۔
شاید جتنا دور میں دیکھ رہا ہوں، اتنی دور دیکھ کر لوگ اپنی آنکھیں نہیں تھکانا چاہتے، شاید میری اپنی ہی نظر کا دھوکا ہو۔۔۔ ایک ایسوسی ایشن بنا لینا ایک بہت چھوٹی سی خواہش ہے، دس بارہ ہم خیال لوگوں کو عہدوں کی چکاچوند میں گھیر گھار کا ایک تنظیم کا نام دے لینا بھی کچھ دشوار نہیں، لیکن اس تنظیم سے نظم کا رشتہ جوڑنا، احباب کو ساتھ ملا کر طے شدہ منزل تک پہنچانا یقینا دشوار ہے۔۔۔۔یہ  ناممکن ہرگز بھی نہیں، لیکن میری زندگی کے طے شدہ کاموں میں اتنی فرصت بالکل بھی نہیں کہ تنظیم کے فضائل سے محنت کا آغاز کروں۔۔۔یہ بلاگ مٹنے والا تو نہیں ۔۔۔۔میرا یقین ہے کہ تنظیم کے بغیر کبھی کوئی دور تک نہیں جا پایا۔۔۔۔وہ وقت دور نہیں جب لوگ ایک دوسرے کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر اکٹھا کریں گے۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں