ہمارے انٹرنیشنل ائیر پورٹس پر مسافروں کی درگت

میں ابھی علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے مسافر لاونچ میں نیٹھا اپنی فلائیٹ پی کے 752 کا انتظار کر رہا ہوں، میرے سامنے جدہ کو جانے والی فلائیٹ کے لئے گیٹ نمبر 22 پر آوازیں دی جا رہی ہیں، کچھ مسافر دوڑے دوڑے آ رہے ہیں، اورمتعلقہ عملے کے چہرے پر بھی پریشانی عیاں ہے، دائیں طرف جہاں سے مسافر لاونچ میں آیا جاتا ہے ، وہاں کچھ مسافر احرام باندھے احتجاج کر  رہے ہیں، ان کی شاہین ائیر لائن کی فلائیٹ تاخیر کا شکار ہے۔۔۔اس پرسکون منظر سے پہلے جو منظر تھا وہ بھی آپ کی نذر کرنا چا ہتا ہوں۔ صبح آٹھ بج کر دس منٹ پر میں ائیر پورٹ کے روانگی والے دروازے پر تھا، لیکن لوگوں کی ٹکٹ دیکھ کر اندر داخلے کی اجازت دینے والا صرف ایک آدمی تھا، اس لئے لوگوں کی ایک لمبی لائن لگ چکی تھی، بڑی مشکل سے اس سے گذرا تو آگے سیکورٹی سکینر سے سامان گذارنے کا مرحلہ تھا، اس کے بعد آپ کی تفصیلی تلاشی لی جاتی ہے اس کے بعد دو مختلف ڈیپارٹنمنٹس کے لوگوں آپ سے سوال و جواب کرتے ہیں، ایک کا مقصد آپ کا سامان منشیات کے  حوالے سے جانچنا اور دوسرا آپ سے روپے پیسے کی معلومات لیتا ہے کہ کتنے ساتھ لیکر جا رہے ہیں، اس کے بعد سامان جمع کروانے کا مرحلہ ہے، سامان جمع کروانے والی لائن میں جانے لگا تو ایک کاونٹر سا بنایا گیا تھا اس نے میرا پاسپورٹ دیکھا، ویزہ دیکھا اور پوچھا پاسپورٹ کی کاپی ہے، میں نے کہا نہیں، اس نے کچھ بھی نہ کہا اور میں سامان جمع کرووانے والی لائن میں لگ گیا، مجھے سے آگے صرف تین سے چار افراد لائن میں لگے ہوئے تھے لیکن کم از کم چالیس منٹ بعد میری باری آئی ، انہوں نے ٹکٹ ویزہ دیکھا اور پاسپورٹ کی کاپی مانگی، میں نے پوچھا وہ کس لئے ، بتایا گیا کوئی نیا قانون بنا ہے، کیا آپ کو سامان کی لائن میں لگنے سے پہلے بتایا نہ گیا تھا کاونٹر پر موجود شخص نے پوچھا، میں نے جی نہیں، اس نے کہا جائیے کاپی کروالائیے، فوٹو کاپی پر پہنچے وہاں بھی ایک لائن لگی ہوئی تھی، فوٹو کاپی کروائی گئی دو صفحات کے چالیس روپے لے لئے گئے، چالیس روپے کا یہ اضافی ٹیکس کس کی جیب میں جاتا ہے ، اس پر سوال ضائع کرنے کی بھی ضرورت نہیں، بہت پہلے ائیرپورٹ سے ردی کے سامان میں فوٹو کاپیاں بیجے جانے کی کہانی ابھی زیادہ پرانی نہیں۔ اس کاپی کو اس کاونٹر پر لایا، ان سے پوچھا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ کاپی درکار ہے، انہوں نے کہا ہم نے آپ سے پوچھا تو تھا کہ کاپی ہے کہ نہیں؟ باقی کام ہمارا نہیں کہ ہر مسافر کو بتائیں کہ فوٹو کاپی کرواو، میں نے کہا تمہارا انچارج کون ہے کہنے لگے ، یہیں کہیں ہو گا ڈھونڈھ لیں، ایک انچارچ قسم کی خاتون نظر آئیں، ان سے کہا ایکسیوزمی، کہنے لگی ، جی جی میں ایک منٹ میں آئی اور یہ جا اور وہ جا۔۔۔۔۔۔۔۔
سامان جمع کروانے کی کائن میں پھر آئے ، سامان جمع ہوا اور اس کام تک ڈیڑھ گھنٹہ لگ چکا تھا، وہاں سے پاسپورٹ کنرول تک آئیے اور وہاں بھی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی، اسی کاونٹر کے سامنے شکایات اور تجاویز کا بکس لگا ہوا تھا اور ساتھ ہی کاونٹر پر ایک صاحب کھڑے تھے ان سے پوچھا شکایات لکھنے کے لئے کاغذ کہاں ہے، پوچھنے لگے کس کی شکایت کریں گے، میں نے بتایا فوٹو کاپی کے نظام کی، انہوں نے کاغذ دیا جو میں جلدی جلدی پر کر کے واپس کیا، اس کاغذ پر بہت زیادہ ذاتی معلومات پوچھی گئی تھیں، جیسے پاسپورٹ کا نمبر، گھر کا مکمل پتہ وغیرہ ۔۔۔۔۔تاکہ لوگ اس فارم کو پر کر تے ہوئے یہ سوچ کر کریں کہ کوئی آپ کے گھر تک بھی پہنچ سکتا ہے، جبکہ عموما شکایات میں شکایت کنندہ کی شناخت کو چھپا کر اس کی شکایت پر توجہ دی جاتی ہے۔ پاسپورٹ کنٹرول پر ہماری تازہ تصویر لی گئی ، اس کے بعد پاسپورٹ کنٹرول کے نام سے ہی ایک اور کاونٹر ہے جس پر ایف ائی اے کے اہلکار آپ کی تصویر پاسپورٹ سے ملا کر دیکھتے ہیں، اس کے بعد پھر ایک سیکنر آتا ہے اور آپ لاونچ میں آتے ہیں جہاں مذکورہ تماشہ چل رہا تھا جس کا بیاں آغاز میں کیا گیا ہے۔اس ساری مشق میں دوگھنٹے سے زائد کا وقت لگا جو کہ دنیا کے کسی بھی ائیرپورٹ کے مقابلے بہت زیادہ دکھائی دیتا ہت۔

دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر تین سے چار کاونئٹر ان تمام کاموں کو نمٹاتے ہیں جو پاکستان میں آٹھ سے دس کاونٹر پر کی جاتی ہے، جیسے اگر کوپن ہیگن سے سوار ہوں تو سیدھا سامان جمع کروانے کے کاونٹر پر جاوں گا، بکنگ کا سامان جمع کر لیا جائے اور میرے ہاتھ میں صرف ہینڈ کیری سامان رہ جایے گا ، جس کو لے کر میں سیکورٹی گیٹ کی طرف چلا جاوں گا ، وہاں میرا سامان اچھی طرح چیک کیا جائے گا اور میری تلاشی لی جائے گی۔ اور بس اس کے ملک سے باہر جانے کی سٹمپ لگانے کا کاونٹر ہے جس پر شادو و نادر ہی لائن لگتی ہے اس کے بعد میں مسافر لاونچ میں چلا جاوں گا۔ سیکورٹی گیٹ پر ایک مسافر پر زیادہ سے زیادہ کتنا ٹائم لگتا ہے، وہ داخلے والے لاونچ کی سکرین پر لکھا آ رہا ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ سیکورٹی چیکنگ ٹائم میں نے نوٹ کیا ہے وہ چودہ منٹ کا ہے۔ ورنہ پانچ سے سات منٹ میں آپ سیکورٹی سے گذر جاتے ہیں اور سامان جمع کروانے والی جگہوں پر عمومی طور پر لمبی لائن نہیں ہوتی سوائے پاکستان کو جانے والی فلائٹوں کے کیونکہ ہم سب سے زیادہ سامان ساتھ میں لاتے ہیں، 

کچھ لوگوں شاید کہیں کہ ڈنمارک میں امن زیادہ ہے اور آبادی کم اس لئے آپ بیس پچیس منٹ میں مسافر کی شناخت اور سیکورٹی اور سامان وغیرہ کے کام مکمل کر لیتے ہیں، اس لئے ان کےلئے بیجنگ کا ماڈل پیش خدمت ہے۔ مسافر داخلی دروازے سے داخل ہونے کے بعد اپنا سارا سامان سیکنر بیلٹ پر رکھتا ہے، اس کے بعد سامان جمع کروانے والی لائن میں لگتا ہے، وہاں سے امیگریشن کاونٹر اور سیکورٹی کاونٹر اکھٹا ہی بنایا گیا ہے، جس سے گذر کر آپ مسافر لاونچ میں چلے جاتے ہیں۔ 

میری دانست میں چین سے سیکورٹی اور ٹائم مینجمنٹ سیکھی جانی چاہیے، کیونکہ وہ اپنی بڑی آبادی کو ٹرانسپورٹ کے اداروں پر سیکورٹی کے حوالے سے جس طرح کنٹرول کرتے ہیں وہ میری نظر میں پاکستان کے لئے زیادہ موثر ہے۔ 

عمومی طور پر مسافر لاونچ میں سے جہاز پر جانے سے پہلے صرف آپ کا بورڈنگ پاس دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بورڈنگ پاس چیک ہونے کے بعد بھی جہاز میں داخل ہونے سے پہلے بھی ایک شخص اپنی بصیرت کی بنا پر آپ کا پاسپورٹ اور ویزہ گھما گھما کر چیک کرتا ہے اور پھر آپ کو جہاز میں جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ 

پاکستان کے ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک ہوتا ہے ایک الگ باب کا متقاضی ہے، دو گھنٹے تک مختلف قظاروں میں کھڑے رکھنا، کوئی نہ کوئی نئی رکاوٹ جیسے پاسپورٹ کی کاپی کروا لاو، مختلف ڈیپارٹمنٹس کے لوگوں کا تلخ رویہ، شفارشی اور بااثر لوگوں کے لئے کسی قانون کا نہ ہونا، ٹاوٹ لوگوں کا سر عام مسافروں سے کہنا کہ ایک ہزار دو اور ان لائنوں میں لگنا نہیں پڑے گا، قانون پسند شہری وہاں لائنوں میں لگ کر جو تضحیک محسوس کرتے ہیں بیان سے باہر ہے۔ جس بندے نے مجھے پاسپورٹ کی کاپی کروانے کا کہنا تھا اور نہیں کہا میں واپس اس کے پاس جا کر چیختا رہا کہ کیوں تم نے نہیں بتایا اس شور مچانے پر بھی وہاں کسی آفیسر کو مداخلت کی ضرورت محسوس نہ ہوئی جس اس بات کا اشارہ ہے کہ مسافروں کا احتجاج ان کے لئے ؑعام سے بات ہے۔ 
ارباب اختیار کو ان الجھنوں سے گذرنا ہی نہیں پڑتا، انہیں کیا کہ عام لوگوں کے ساتھ کیا بیتتی ہے۔ پاکستانی ائیرپورٹس پر یہی عوامل ہیں جو ہمارے طیاروں کی پرواز میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں کاش کوئی ایسے مسائل کی طرف بھی توجہ دے۔ 

نوٹ۔ یہ تحریر ڈان اردو میں چھپ چکی ہے۔ http://www.dawnnews.tv/news/1035205، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں