اللہ دی قسم اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے معاشرے میں مذہب سے وابستگی کو بڑے جذباتی انداز میں لیا جاتا ہے، ہمارے بارے سچ ہے کہ ہم اسلام کے نام پر مرنے کے لئے تیار ہیں لیکن اسلام کے لئے جینا نہیں چاہتے۔ اب تک جو سب سے مہلک دھمکی مجھے سننے کو ملی ہے وہ یہ کہ ۔۔۔۔تم اپنے مسلمان ہونے کی قسمیں اٹھاتے پھرو گے لیکن کوئی یقین نہ کرے گا۔۔۔۔اس دھمکی کی نوک پر اگر کسی کو رکھ کر پرکھا جائے تو اکثریت کا مسلمان ہونا مشکوک ٹھہرتا ہے ,یہاں کوپن ہیگن میں ایک شخص سے ملاقات کا موقع ملا جسے لوگ مسلمان نہ سمجھتے تھے، میں نے کہا کہ وہ تو اقرار کرتا کہ  حضرت محمدﷺ پر ایمان لانے والا ہے ، کیا اس کو کبھی مسجد جاتے دیکھا ہے؟ اس کو کہے سنائے کلمہ۔۔۔۔۔میں نے کچھ دلائل دینے کی کوشش کی تو ایک شخص نے مجھ سے کہا ۔۔۔اتنا کسی کو سپورٹ نہ کرو یہ نہ ہو کہ اپنے مسلمان ہونے کی قسمیں دینی پڑے۔
اس خوف سے بڑا خوف اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ ایک بات پر اصرار کر رہے ہوں اور اس پر یقین بھی رکھتے ہوں لیکن ہجوم اس کو ماننے سے انکار کر دے۔  تواس صورت حال میں کیا کیا جانا چاہیے۔ آپ یو ٹیوب سے ویڈیوز اٹھا کر دیکھ لیں سبھی فرقے ایکدوسرے کو دائرہ اسلام سے باہر سمجھنے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ذاتی گروپ کا عقیدہ و ایمان سب سے افضل ہے اور باقی لوگوں کے عقائد میں کجیاں اور خامیاں ہیں۔
چلے اس حد تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر شخص کو خود سے وابستہ چیزیں ہی پسند ہوتی ہیں، لیکن یہ کہ اپنی مرضی ، رائے اور خواہش کو کسی پر تھوپ دینا اور کسی دوسرے سے امید کرنا کہ وہ آپ کے طرز عمل کے مطابق چلے، اور اگر اس تقلید میں وہ کچھ چون و چراں کرے تو اس کو اپنی مرضی کے دائرہ اسلام سے نکال باہر کردیا جائے۔
نفرتوں کا کھیل کھیلنے والے ایسی ایسی چالیں چلتے ہیں کہ عام آدمی کی سمجھ سے بھی بالاتر ہے، کچھ سال پہلے مجھے میرے سکول کے دوست نے بتایا کہ وہ جو ہمارا فلاں دوست ہوتا تھا جو اب امریکہ میں سیٹل ہو چکا ہے، انہوں نے دراصل مذہب تبدیل کر لیا ہے اور وہ اب فلاں فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، ، یہ بتانے کے ساتھ ہی اس نے تاکید بھی کی کہ ان سے ذکر نہ کروں، بالکل ایسے ہی الفاظ اور یہی عبارت کے تمہارا فلاں دوست فلان فرقے میں چلا گیا ہے لیکن اس سے اس بابت بات نہ کریں ایک آسٹریلیا میں پڑھنے جانے والے دوست کے بارے میں بھی کسی اور دوست نے کہی۔ اور ہاں ہماری یونیورسٹی میں ایک بہت ذہیں طالب علم ہوا کرتا تھا وہ بھی آجکل کسی مغربی ملک میں پی ایچ ڈی کر رہا ہے، اس کے بارے تو میرے ذہن میں بھی خیال آیا کہ شاید مجھ ایسا مسلمان نہیں ہے؟کیونکہ وہ ہر وقت مذہب کے متعلق ایسی باتیں کرتا تھا جس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا، ابھی کل بھی اس نے فیس بک پر کسی غیر مسلم کے سوالوں کا حوالہ دیکر ایسی پوسٹ لگا رکھی تھی ,
جس کا ایک سوال کچھ ایسا تھا کہ اگر مسلمان مذہب چھوڑ دے تو وہ واجب القتل کیوں ہے، اور ایسی سوچ سے تعلق رکھنے والے افراد کی مہذب دنیا میں کیا گنجائش ہے۔ اب بھلا ایسے سوال پوچھنے والے شخص کے بارے میں آدمی کیا رائے رکھے۔
لیکن جب اسی شخص سے میری بات ہوئی تو پتہ چلا کہ اس کا مطالعہ مذہب مجھ سے زیادہ وسیع ہے، وہ جو عقلی سوالات دہراتا ہے اس کا ہرگز مطلب اسلام کو برا کہنا نہیں، اس سے مل کر اور بات کر کے ذہن میں جو خیالات تھے ان کا دھارا بدل گیا اور اب مجھے وہی ایک آج کے زمانے کا مسلمان لگتا ہے۔ لیکن جہاں لوگ دل میں نفرت پال کر ایکدوسرے کے عقائد سے ذہنی جنگ بنائے رکھتے ہیں وہ کسی نہ کسی دن آتش فشاں کی طرح ابل پڑتے ہیں۔

مجھے افسوس ہے کہ ہمارے ہاں مذہب کے حوالے سے برداشت بہت کم ہو چکی ہے،ہم اپنے عقائد کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہیں، اور ابھی کل ہی جنید جمشید کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے انتہائی قابل مذمت ہے۔
لبیک یا رسول کی صدا کے سامنے کوئی قسم بھی اٹھائے تو کیا معنی؟ ایسے مجمع میں فیصلہ کون کر سکتا ہے کہ جھوٹ پر کون ہے اور حق پر کون ؟
خدا کے لئے صبر و تحمل کا دامن تھامئیے، اور سزا و جزا ، مسلمان اور کافر کے فیصلے کا اختیار خدائے بزرگ و برتر کے ہاتھ میں رہنے دیجئے تو اچھا ہے، وگرنہ کسی  کے لہو سے اپنے عقائد کی آبیاری کا سلسلہ چل نکلا تو کئی ناحق مارے جائیں گے۔

ابھی ایک فیس بک دوست کی وال پر تبصرہ ملاحظ ہو۔۔۔۔۔ اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ جنید جمشید نے گستاخی کی تھی تواماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو گالیاں دینے والے لعینوں کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں؟؟؟ 
جس سے صاف پتا چلتا ہے لوگ جنید جمشید کے معاملات کو بنیاد بنا کر دوسرے فرقوں کے خلاف ایندھن جمع کرنے پر لگ چکے ہیں۔ 
نہ میں مفتی ہوں اور نہ عالم دین، بس ایک عام سا مسلمان ہوں، اور مسلمانوں کو آپس میں یوں لڑتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ کاش ہم کسی طرح اکھٹے ہو جائیں، کسی بات پر اکھٹے ہو جائیں، ایک دوسرے کو دائرہ اسلام کے اندر یا باہر کی سند بانٹنے کی بجائے اپنے معاملات کو ٹھیک کر لیں۔لیکن ہمارے معاملات میں سوچ کا فرق اسقدر آنے لگ پڑے کہ علما کرکٹ دیکھنے کو جائز اور نا جائز کی ترتیب میں لانے لگ جائیں تو بنیادی مذہبی معاملات میں وہ کب اکٹھا ہو سکیں گے؟ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں