مہربان دوستوں کا شکریہ

کل ایک پرانے آشنا سے ملاقات ہوئی، کچھ چار برسوں بعد بس یونہی راہ چلتے ہوئے، کہنے لگے سنائیے آپ کے منصوبوں کا وہ جو آپ کہہ رہے تھے کہ آپ تو کوئی زرعی فارم وغیرہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مجھے یاد آیا کہ ہاں ایک وقت میں ، میں نے ایسا بھی کچھ سوچا تھا کہ ڈنمارک میں کچھ زمین لے کر زمیندارہ ہی شروع کر لیا جائے، اب بھی جتنے لوگوں سے ملتا ہوں ان کو مستقبل میں ہونے والے منصوبوں کی اطلاعات دیتا رہتا ہوں، اور لوگ بھی اتنے اچھے ہیں کہ میری کہانیاں سن کر بس حوصلہ بڑھاتے ہیں، کتنے اچھے لوگ ہیں جو اتنے سالوں سے مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم کر سکتے ہو، انہیں مجھ میں وہ خوبیاں نظر آتی ہیں جو مجھ میں ہیں ہی نہیں۔
اب ایسے اچھے لوگوں کا دل دکھاتے دکھاتے انہیں کہانیاں سناتے سناتے خود ہی تھکنے لگا ہوں۔ سوچتا ہوں ایسی باتیں کیوں کرتا ہوں جو میں کر ہی نہیں سکتا، وہ جو پہلے کسی نے کہا تھا کہ میں جب نوجوان تھا تو دنیا بدلنا چاہتا تھا، اور اب کچھ بوڑھا ہوا ہوں تو خود کو بدل رہا ہوں۔
سچ ہے کہ ہارتے ہوئے حوصلوں کے ساتھ انسان وقت سے سمجھوتہ کرنا ہی سیکھتا ہے۔ اب تو بس حالت کچھ ایسی ہے عماد اظہر عماد کے بقول
اس لئے حالت مسمار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی شاخ نے دیوار میں رکھی ہوئی ہے

بس لگتا ہے ایسے ہی خواب دیکھنے میں ہی زندگی بسر ہوگی، اور پھر کل جو کسی کی دیوار پر لکھا ہوا تھا کہ

چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو


 لیکن ان سب مہربان لوگوں کا شکریہ جو اب بھی میری بات سنتے ہیں اور یوں سر ہلاتے ہیں جیسے سچ سمجھتے ہیں۔
لو یو دوستو۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں