مختصر سفرنامہ چین

مجھے چین جدید اور قدیم کا امتزاج لگا، جہاں آسمان سے باتیں کرتی اونچی عمارتیں بھی ہیں اور تنگ و تاریک مکانوں کے غریب باسی بھی، جہاں لش پش کرتی چمچماتی گاڑیاں بھی ہیں اورعام سے سائیکل اور خاص سے موٹر سائیکل بھی، جہاں دنیا کے سب سے امیر لوگ بھی ہیں اور خوابوں کے پیچھے دوڑتے ہوئے عام انسان بھی۔۔۔۔شاید ترقی پذیر ہونا اسے ہی کہتے ہیں کہ دھڑا دھڑا زمین ادھڑ رہی ہے اور نئی عمارتوں کو جنم دے رہی ہے، ابھی کچھ مکمل نہیں ہوا۔۔۔۔وہ چین جو آپ نے کتابوں میں پڑھا ہے اور دوستوں سے سن رکھا ہے، آئے میرے ساتھ اس کی سیر کیجئے۔

چین کے سفر کی تیاری

آپ کے علم میں ہو گا کہ گوگل میاں کو چین میں دم مارنے کی جا نہیں، اس لئے گوگل پر انحصار کرنے والی تمام اشئیا چین میں داخلے کے بعد بند ہو جاتی ہیں، جیسا کہ جی میل، یو ٹیوب، سب سے بڑھ کر گوگل کے نقشہ جات اور ٹرانسلیٹر۔ ایسے میں وہاں جا کر آپ کسی کو کیا سمجھائیں گے کہ آپ کو کہاں جانا ہے ، اس لئے تمام منزلوں کے پتے انگلش اور چائنیز زبانوں میں لکھ لئے گئے تاکہ کسی بھی شخص سے مدد لی جا سکے۔

چین میں ذرائع سفر

بیجنگ کے ہوائی اڈے پر اترنے کے بعد پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ہوٹل کیسے پہنچا جائے ، ہمارے ایک مہربان دوست کا مشورہ تھا کہ آسان حل ٹیکسی لینا ہے جو آپ کو تقریبا ایک سو بیس یوان میں ائیر پورٹ سے شہر کے سنٹر تک لے جا سکتی ہیں۔ دوسرا سستا حل بیجنگ کی سب وے ہے جو واقعتا قابل تعریف ہے۔ اتنی اچھی اور سستی سب وے شاید ہی دنیا کے کسی شہر میں آپ کو ملے گی۔ سوائے ائیر پورٹ سے ایکپریس لائن کے جس کی قیمت پچیس یوان ہے باقی شہر کے اندر سب وے تین سے پانچ یوان کے اندر اندر آپ کو سارے شہر کا چکر لگوا سکتی ہے۔ اسی طرح بس کا سفر بھی انتہائی سستا ہے جو دو یوان سے شروع ہوتا ہے۔ اتنا سستی پبلک ٹرانسپورٹ کم ہی ملکوں میں دستیاب ہو گی۔
دوسرے شہروں میں جانے کے لئے شاندار قسم کی ٹرین سروس دستیاب ہے۔ جس میں دوستانوے کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی جی ٹرین بھی شامل ہے۔

چین میں انگلش

سفر چین کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ، چینی لوگوں کی انگلش زبان سے ناواقفیت ہے۔ آپ یوں سوچ لیجئے کہ بس اشاروں سے کام چلانا ہے، کچھ لفظوں کے تراجم چائینز میں لکھ لیجئے تاکہ با امر مجبوری کسی سے مدد لی جا سکے۔ جیسے باوجود کوشش کے میں ہوٹل کی ریسپشن پر موجود خاتون کو حلال کھانا نہ سمجھا پایا تو پھر آن لائن انگلش چائینز ڈکشنری کی مدد سے اسے حلال لفظ کا ترجمہ بتا کر اشاروں کی زبان میں پوچھا کہ ایسا کھانا کہاں سے ملے گا، ۔۔۔بیجنگ کے مغربی ریلوے سٹیشن پر مفت کے وائی فائی کے بورڈ کے پاس کھڑے ہو دس لوگوں سے اشاروں کی زبان میں کہتا رہا کہ اس وائی فائی سے میرے فون کو جوڑ دو لیکن کسی کو بھی اپنی بات نہیں سمجھا پایا۔ اس لئے سہولت کی خاطر یہ سمجھ لیجئے کہ پبلک مقامات پر کوئی آدمی آپ کا مافی الضمیر نہیں سمجھ پائے گا۔

بیجنگ کے تفریحی مقامات

میرا زیادہ تر قیام چین کے دارلحکومت بیجنگ میں ہی رہا اس دوران جن مقامات کی سیر کی ان میں مشہور دیوار چین، فاربڈن سٹی، سمر پیلس، اولمپک سٹیڈیم ہیں۔ اس کے علاوہ بیجنگ میں موجود مختلف شاپنگ مارکیٹس دیکھنے کا بھی اپنا ہی خاص لطف ہے، ان مارکیٹس میں سلک کی مارکیٹ، جیولری کی مارکیٹ، بیگز کی مارکیٹ شامل ہیں۔

دیوار چین

ساڑھے پانچ ہزار لمبی یہ دیوار جسے دنیا کے عجائب میں شامل کیا گیا ہے، دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس کے کافی حصے اپنی اصل حالت میں موجود نہیں لیکن کچھ حصے خصوصا بیجنگ کے نواح میں واقع حصہ کو سب سے زیادہ پریزروڈ حصہ سمجھا جاتا ہے، اس حصہ تک جانے کے لئے خصوصی ٹرین چلتی ہے، اور اس ٹرین پر اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے، ویسے تو اگر غیر ملکی سیاح  نہ بھی آئیں تو اتنے چینی اس دیوار کو دیکھنے کے لئے اکھٹے ہوئے ہوتے ہیں کہ ٹرین کی لائن میں لگ کر ہی احساس ہو جاتا ہے کسی خاص جگہ کو دیکھنے جا رہے ہیں۔

دیوار چین کی سیر کروانے کے لئے میرے دیرینہ دوست ڈاکٹر امجد فاروق اور یونیورسٹی کی دوست محسن چیمہ موجود تھے، ڈاکٹر صاحب گھر سے بنے ہوئے آلو کے پراٹھوں کے ساتھ ریلوے سٹیشن پر تشریف لائے اور وہ پراٹھے ہم اسی اسٹیشن کے بنچوں پر بیٹھ کر تناول کئے۔ ابھی ٹرین چلنے میں کچھ آدھا گھنٹہ ہی باقی ہو گا کہ لوگ ٹرین کے راستے کی طرف قطار بنانے لگ گئے، ہم بھی اس بھیڑ کا حصہ ہو گئے، اور جونہی لوگ ہال سے پلیٹ فارم والے حصے میں داخل ہوئے لوگوں نے ٹرین کی طرف دوڑ لگا دی تاکہ ٹرین میں مناسب سیٹ قابو کی جا سکے۔ ہم نے یہ کام محسن چیمہ صاحب کے ذمے لگا دیا جنہوں نے اس دوڑ میں حصہ لیکر ہمارے لئے دو سیٹیں قابو کر لیں۔ گو کہ ٹرین کی لمبائی اور گنجائش کے حساب سے ٹرین میں ایسا رش نہ تھا کہ بہت زیادہ لوگوں کو کھڑا ہونا پڑے لیکن پھر بھی دوڑنے کا فائدہ کچھ ایسا تھا کہ اپنی پسند کی سیٹ حاصل کر لی جائے۔
خیر وہ وقت آن پہنچا جس کا انتظار تھا، بہت دور سے دیوار چین کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ گو کہ موسم بہت شاندار نہ تھا پھر بھی دیوار چین کے حصار کو ان پہاڑوں پر چکر لگاتے ہوئے محسوس کیا جا سکتا تھا۔تصاویر میں ایک لکیر کی مانند نظر آنے دیوار ایک سنگل سڑک جتنی چوڑی ہے، جس میں اترائی اور چڑھائی کے درمیان برجیاں بنائی گئی ہیں۔ ہم شام ڈھلے دیوار چین پر پہنچے تھے اور عہد کر کے لوٹے تھے کہ ایک دفعہ پھر صبح سویرے یہاں آئیں گے۔ دیوار چین کی طاقت کو اس پر چڑھ کر ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اتنے سو سال پہلے انسانوں کے اس خواب کی تعمیر کس طرح ممکن ہوئی ہو گی انسان کی سوچ پر فہم کے نئے دریچے کھولتی ہے۔
دیوار چین کو دیکھتے ہوئے سنگ مرمر کے اس ٹکڑے کا تذکرہ کرنا بہت ہی مناسب ہو گا جو ایک یادگار کے دیوار پر دیوار کے پہلو میں نصب ہے، اس پر اردو اور چائینز میں پاکستان اور چائنہ کی دوستی کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ دیوار کا ایک حصہ پاکستان کی مدد سے مکمل کیا گیا ہے۔
واپسی پر بیجنگ شہر کے ٹیکسی ڈرائیورز نے ہمیں بہت پرکشش آفرز دیں کہ کئی دوسرے سیاحوں کے ساتھ مل کر انتہائی ارزاں نرخوں پر ٹیکسی لے لیں، لیکن ہم نے ٹرین کا سفر ہی مناسب سمجھا۔

شہر ممنوع۔ Forbidden city

میرے اگلے دن کی اگلی منزل شہر ممنوع تھا، آج کے دن میں اکیلا ہی تھا، اپنے ہوٹل سے ٹرین کے ذریعے شہر ممنوع کے قریبی سٹاپ پر اترا۔ لوگوں کا ایک جم غفیر اس شہر کو دیکھنے کے آیا ہوا تھا، ایک سیاحتی گائیڈ نے سو یوان کے عوض اپنی خدمات پیش کیں لیکن ہم نے خود ہی سیر کرنے کو ترجیح دی۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک خوبصورت چینی حسینہ نے ہیلو ہائے کے فورا بعد ہی پوچھ لیا کہ ایک کپ کافی کا ہو جائے، ہمارے دوستوں نے بیجنگ کافی گروپ کی کافی کہانیاں سنا رکھی تھیں اس لئے ہم نے ان سے معذرت چاہی، تھوڑا سا آگے چلنے کے بعد دو چینی مجھ سے مخاطب ہوئے کہ بھائی کدھر کو جارہے ہو، اور شہر ممنوع کے جس راستے پر تم جا رہے وہ تو بند ہے، لیکن میں نے ان کی سنی ان سنی کردی، اور اسی راستے پر چلتا رہا۔ ان باتوں کے بتانے کا مقصد یہ ہے سیاحتی مقامات پرنوسربازوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اس لئے احتیاط کا دامن تھامے رہئے اور اپنی چھٹی حس سے کام لیتے رہیئے۔
منگ سلطنت کے بادشاہوں کا مسکن جو بیجنگ شہر کے سنٹر میں واقع ہے، اس شہر نے پانچ سو سال تک بادشاہوں اور ان کے امرا کو بڑے قریب سے دیکھا، اس کو دیکھ کر بادشاہوں کے رنگ ڈھنگ، ذوق فنون لطیفہ، شان و شوکت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ میرے محسوسات اس شہر کو دیکھنے کے بعد کچھ ایسے تھے کہ وہ لوگ جنہوں نے اس شہر کو آباد کیا اب کہاں ہیں، اور میں جن محلوں کے خواب لئے گھوم رہا ہوں کیا ان کو بنا پاوں گا، کیا وہ ان سے بہتر ہوں گے۔۔۔۔شاید ممکن نہ ہو ۔۔۔پھر ایک اور تقابل میرے ذہن میں ساتھ ساتھ چلتا رہا کہ جنہوں کے علم بانٹا تھا ان کی تعلیمات اور ماننے والے باقی ہیں اور جنہوں نے شان و شوکت دیکھی ان کی نشانی بس یہ عمارتیں ہیں۔ شہر ممنوع ایک محسوس کا نام ہے، ان غلام گردشوں میں چل کر آپ ٹائم مشین کے کسی خانے میں کھڑے محسوس کریں گے، وہ کرسیاں جن پر بادشاہ جلوہ افروز ہوا کرتے تھے، وہ شمعیں جو اس زمانے میں روشن ہوا کرتی تھیں اور وہ صراحی جو امرا کے جام بھرا کرتی تھیں، جوں کی توں پڑی ہیں۔۔۔۔۔جیسے بھرے ہیں جام و سبو میخانہ خالی ہے۔۔۔

سمر پیلس

میرے تیسرے دن کی فہرست میں سمر پیلس جانا اور کچھ مارکیٹس کو دیکھنا تھا۔ آج کے دن مجھے ایک پاکستانی دوست شکیل احمد کی معیت حاصل رہی۔ ہم نے میٹرو کے ایک سٹاپ پر ملنے کا فیصلہ کیا اور وہاں سے سمر پیلس چلے آئے۔چائینر لینڈ سکیپ کا نظارہ لئے یہ باغ بھی بیجنگ شہر میں موجود ہے، باغ ایک اونچی پہاڑی اور بڑی جھیل پر مشتمل ہے۔ گرمیوں میں لوگ اس جھیل میں کشتی رانی سے لطف اندوز ہوتے اور سردیوں میں سکیٹنگ سے۔ جنوری کے پہلے ہفتے میں یہاں رات کا درجہ حرارت منفی میں تھا اس لئے جھیل کا درمیانی حصہ جم چکا تھا اور لوگوں کی بڑی تعداد اس میں سکیٹنگ کر رہی تھی۔ سمر پیلس کا پہاڑی والا حصہ مخصوص چائینز آرکٹیکٹ کی صورت میں تعمیر کیا گیا ہے۔ سمر پیلس کے اندر بھی چائینز تاریخ کی یادرگاریں لئے کچھ میوزیم واقع ہیں، لیکن داخلے پر ٹکٹ اور لمبی لائن اس طرز کی عیاشی کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔ حسب سابق اس باغ میں بھی سیاحوں کی بڑی تعداد موجود تھی، ان سیاحوں میں زیادہ تر چائینز ہی تھے۔

چین میں پاکستانی

پاکستان چین دوستی ہمالیہ جیسی عظمتوں کا پرتو لئے ہوئے ہے۔ پاکستان سے جانے والی انٹرنیشل فلائٹوں میں سب سے زیادہ غیر ملکی جس فلائٹ پر آتے جاتے نظر آتے ہیں وہ منزل شاید چائنہ ہی ہو۔ چینی عوام پاکستانیوں کے عمومی طور پر اچھے جذبات رکھتی ہے۔ آپ  راہگیروں سے ملیں اور اگر انہیں بتانے میں کامیاب ہو جائیں کہ آپ پاکستانی ہیں تو آپ کو اچھا رسپانس ملتا ہے۔ حتی کہ کچھ دھوکا دینے والے بھی آپ کو چائنا پاکستان برادر کا نام لیکر ہی غلط راستے پر ڈالتے ہیں۔ چین کے بڑے شہروں میں سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی طالب علم زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے چین نے پانچ ہزار پی ایچ ڈی وظائف دینے کا اعلان کیا تھا، اس سکیم سے بہت سے پاکستانی طالب علم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

چین میں خریداری

چین میں غیر ملکیوں کا تصور ایک امیر آدمی کا ہے، حتی کہ آپ پاکستان سے بھی ہوں، عام دکانداراور خصوصی طور پر ٹیکسی ڈرائیور آپ کو ایک امیر آدمی تصور کرتے ہیں، اس لئے ان کا بھاو آپ کے لئے مختلف ہو سکتا ہے، چین کے عام سٹورز پر ریٹ پر بارگین کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ ہو سکتا کہ بارہ سویوان کی چیز آپ ایک سو بیس یوان میں خرید لائیں۔

کرنسی یا کریڈٹ کارڈ

انٹرنیشل ویزہ کارڈ، ماسٹر کارڈ وغیرہ زیادہ تر جگہوں پر نہیں لئے جاتے ، حتی کی میکڈونلڈ، یا سٹاربکس جیسی ملٹی نیشنل والی کمپنیوں بھی صرف یونین پے کو قبول کرتی ہیں، اس لئے اپنے ساتھ مناسب کیش لے کر جانا نہ بھولیں، ویسے ائیرپورٹ پر زیادہ تر شاپش انٹرنیشنل کارڈ لے لیتی ہیں۔

بیجنگ کی مسلم گلی اور حلال کھانا

غیر ملک کے سفر پر ہمارا بڑا ایشو حلال کھانا ہوتا ہے، بیجنگ اور شی یوانگ جہاں تک میں گیا بے شمار حلال ریسٹورنٹ ملے، کیونکہ آپ کو چائنیز مسلمانوں کے ریسٹورنٹس جہاں طعام المسلم، حلال ، کے سائن مل جاتے ہیں، چینی زبان میں حلال کے لئے شنجن کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس کا تلفظ کسی دوست سے پوچھ کر یاد کر لیجئے کیونکہ ہو سکتا ہے حلال کھانا بیچنے والے کو یہ پتہ نہ ہو کہ اس کھانے کو انگلش یا عربی میں حلال کہا جاتا ہے۔ بیجنگ کی مسلم گلی جہاں نوی صدی عیسوی کی ایک مسجد، حلال کھانے کی دکانیں، حلال گوشت اور گروسری خریدی جا سکتی ہے۔ چائینز سٹائل میں بنی ہوئی یہ  مسجد اندر اور باہر سے بہت خوبصورت ہے، مسجد کے صحن میں دو قبریں مسلمانوں کی چائنہ آمد کے نقوش کی خبر دیتی ہیں۔آج کے دن ہمارے یونیورسٹی کے کلاس فیلو ڈاکٹر طارق ہمارے میزبان ہوئے انہوں نے مشہور چائنیز ڈش ہاٹ پاٹ کھلانے کی دعوت دے رکھی تھی۔ ڈاکٹر امجد، محسن چیمہ بھی ہمارے ساتھ تھے۔ جس ریسٹورنٹ کا انتخاب کیا گیا تھا ، اس کی وجہ شہرت یہی ہاٹ پاٹ کی ڈش تھی جو اس مسلم گلی میں واقع ہے۔ ہم سے پہلے چالیس لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ ہم نے باری کا ٹوکن لیا اور امید تھی کہ ایک گھنٹے بعد ہماری باری آئے گی۔ اس لئے ہم گلی کے دیگر حصے دیکھنے چلے گئے۔ جس میں سب سے زیادہ قابل دید اس کی مسجد تھی۔ مسجد میں نماز عشا ادا کی اور واعتصمو بحبل للہ کی رسی سے خود کو بندھے ہوئے پایا۔ ایک دل کو خوشی سی ہوئی کہ ہم ایک عالمی برادی کے افراد ہیں۔ ہم سے سینکڑوں میل دور ہمارے بھائی بستے ہیں۔
اس کے بعد واپس ہوٹل کی قطار میں جا لگے۔ ہاٹ پاٹ کی ڈش میں  ایک خاص طرز کے برتن میں ابلتا  ہوا پانی ڈال کر آپ کے سامنے میز پر رکھ دیا جاتا ہے۔ اس برتن کو کوئلوں کی مدد دےمسلسل گرم رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہوتا ہے۔  اس برتن کے ساتھ کچی سبزیاں، گوشت آپ کو مہیا کر دیا جاتا ہے اور آپ اس کھولتے پانی میں اپنے سامنے پکا کر ان سبزیوں اور گوشت کو کھاتے ہیں۔ آپ حیران ہو گے کہ  بھلا گوشت کیسے پک سکتا ہے، لیکن اس میں مہارت گوشت کو پتلی تہوں میں کاٹ کر پیش کرنے کی ہوتی ہے۔ گوشت کی انتہائی پتلی تہیں کاٹ کر ان کے چھوٹے چھوٹے رول پیش کئے جاتے ہیں۔ اس ابلے ہوئے گوشت کو مختلف ساسز کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ ہاٹ پاٹ ایک اچھا تجربہ ہے۔ لیکن بہتر ہے کوئی ایسا ساتھ ہو جس کو ہاٹ پاٹ میں چیزین پکانا آتا ہو ، ورنہ آپ کو باہر نکل کر پھر سے کھانا کھانا پڑ سکتا ہے۔ بھلا ہو ڈاکٹر طارق کا جنہوں نے چھانٹ چھانٹ اور پکا پکا کر گوشت اور سبزیاں  مجھے پیش کیں۔ اس ڈش کے ساتھ پینے کے ایک میٹھا اور ٹھنڈا سا شربت تھا، ایسا شاندار مشروب میں نے پہلے کبھی نہ پیا تھا۔ سچ میں اس مشروب نے ہوٹل کی قطار میں ایک گھنٹہ انتظار کے پیسے پورے کر دئے تھے۔

چائنہ سفر کے لئے مفت مشورے

اپنی نان وربل کمیونیکشن کو بہتر بنائیے، سمجھ لیجئے کہ آپ کی انگریزی کو نہیں سمجھا جائے گا۔
سیر کرنے والوں جگہوں پر راستہ دکھانے والی اچھی انگلش بولنے والی خواتین سے راستہ سمجھنے کی کوشش نہ کیجئے گا، کیونکہ بیجنگ میں کچھ عورتین  انگلش زبان کی رکاوٹ کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے سیاحوں کو بے وقوف بنانے کا فریضہ بھی سر انجام دیتی ہیں،
اسی طرح ہمیشہ میٹر والی ٹیکسی کا انتخاب کیجئے اور میٹر چلانے پر اصرار کیجئے۔
پبلک ٹائیلٹ کے استعمال سے پہلے جان لیجئے کہ وہاں نہ پانی ہے اور نہ ہی ٹشو پیپر۔
نوٹ۔ یہ تحریر ڈان اردو میں چھپ چکی ہے ۔ چلتے ہو تو چین کو چلئیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں