کیا پاکستان کبھی اولمپکس کا سونا جیت پائے گا؟

انٹرنیٹ کی سیر کرتے ہوئے جولیس یے گو  کی کہانی پر نظر پڑی۔
کینیا کا ایک عام سا شخص جس نے لوگوں کو نیزہ پھینکتے دیکھ کر سوچا کہ میں ان سے بہتر نیزہ پھینک سکتا ہوں، اس کے پاس رہنمائی کے لئے کوئی موجود نہ تھا، تیاری کے کچھ سازوسامان بھی میسر نہ تھا، مگر اس نے لکڑیوں کی نیزوں کی شکل میں ڈھالا اور یوٹیوب کی مدد سے خود اپنی استادی کرنے لگا، پھر یہی شخص کچھ عرصے میں اپنے ملک کا سب سے بہترین نیزے باز بنا، کامن ویلتھ کے مقابلوں میں دنیا کے لئے نیا ریکارڈ قایم کردیا۔۔۔۔

پچھلے کچھ دنوں سے میرے ذہن پر اولمپکس سوار ہے، رہ رہ کر اپنی قومی محرومی پر رونا آتا ہے، تاریخ کا مختصر ترین دستہ جس میں چھ کھلاڑی اور تین گنا آفیشلز، اور یہ سب کھلاڑی بھی تکنیکی اعتبار سے اولمپکس کے لئے منتخب نہ ہوئے تھے۔

کیا پاکستان کی دھرتی اس قدر بنجر ہو چلی کہ اب یہاں ایک بھی اولمپئین پیدا نہیں ہو گا، کیا اہلیان پاکستان نے کوشش کا راستہ ترک کردیا، یا دہشت گردی کے خوف سے لوگوں نے کھیلوں سے ناتا توڑ لیا۔ میرے خیال میں ایسا کچھ بھی نہیں، بس ایک خیال، سوچ اور ویژن کی کمی ہے۔ لوگوں کے دھیان میں ہی نہیں کہ اولمپکس نام بھی کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ ملک کی بڑی اکثریت اس قسم کی کسی بھی ایکٹویٹی سے لاتعلق ہے۔ ان میں کبھی کسی نے سوچا ہی نہیں کہ ملک کا نام روشن کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے۔
جیسے سرحدوں پر جی دار سپاہی اپنے وطن کی ناموس کے لئے جان دیتے ہیں، ایسے ہی کھیل کے میدان میں کھلاڑی اپنے وطن کے آن بان کے لئے اپنا لہو پسینہ بہاتا ہے۔ آپ نے فلموں کے توسط دیکھ رکھا ہو گا کہ بھلے وقتوں میں لڑائی سے پہلے ہر فوج کا بہترین جنگجو دوسرے ملک سے کسی ٹکر دینے والے کو پکارتا ہے۔ اور کئی جنگوں کا فیصلہ تو ان دو سورماوں کی جنگ سے ہی ہو جاتا تھا۔ میرے خیال میں کھیلوں میں برتری اس جدید دور کی سورما جنگ ہے جو آپ کی قوم کو دوسری قوموں پر نفسیاتی برتری عطا کرتی ہے۔
آپ چند ہزار لوگوں پر مشتمل قبیلہ ہیں یا بیس کروڑ اب اس عالمی گاوں میں آپ کا مقابلہ دنیا کے ہر شخص سے ہے۔ پرانے وقتوں میں برتری بزور شمشیر ثابت ہوتی تھی اور آج کے دور میں اسی جنگ کو کھیل کی صورت دنیا کے سامنے رکھا جاتا ہے۔
اقوام عالم سے بہترین لوگ اپنی اپنی قوم کا سربلند کرنے کے لئے آتے ہیں، اپنے اپنے سینے پر ملک کا پرچم سجائے ، اپنی زندگی کا بہترین کھیل دینے کے لئے لوگ پنڈال میں اترتے ہیں، اور پھر ساری دنیا کے سامنے فاتح کا اعلان ہو جاتا ہے۔ کہ فلاں ابن فلاں، فلاں ملک اور قبیلے والا سب سے بہترین نشانہ باز ہے یا زور آور ہے۔

اگر آپ وسائل کی کمی کا رونا روئیں گے تو یہ مگرمچھ کے آنسووں جیسا ہے، درجنوں کھیل ایسے ایسے ہیں جو صرف مسلسل مشق کے متمنی ہیں، اچھا دوڑنے والے ضروری نہیں اچھے ٹریکس پر دوڑ کر ہی فاتح عالم بنیں، جولیس یے گو کی  لکڑیوں سے نیزہ بازی کی مشق اپنانا کس کے لئے مشکل ہے۔ اور لگن ہو تو انٹرنیٹ سے بڑا استاد اب ہے ہی نہیں، موسیقی میں پاکستانی نوجوان  عثمان ریاضکی مثال دنیا کے لئے قابل تقلید ہے جس نے انٹرنیٹ کی مدد سے درجنوں آلات موسیقی کو چلانا سیکھا اور اس میں درجہ کمال تک پہنچا۔ اگر موسیقی میں ایسا ہو سکتا ہے تو کھیل کھیلنے والے کھیلوں میں مہارت کیونکر حاصل نہیں کرسکتے۔

میرا ماننا ہے کہ بس ایک سمت دکھانے کی کمی ہے۔ ہمارے سکول اس میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سکولوں میں کھیل کو واپس لانا ہو گا۔ اور مقامی کمپنیوں کو حب الوطنی کے ناطے مقامی کھیلوں کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ یہاں ڈنمارک میں او کے نامی ایک کمپنی کے پٹرول پمپس کر بڑا فخریہ لکھا ہوتا ہے کہ ہمارے کمپنی مقامی کھیلوں کو سپورٹ کرنے کے لئے روپیہ لگاتی ہے۔ کیا پاکستان میں ہمارے پٹرول پمپس، ریسٹورنٹس، دیگر کاروبار اگر یہ طے کر لیں کے اپنے علاقے میں کھیلوں کے فروغ کے لئے پیسہ لگائیں گے تو ممکن ہی نہیں کہ پاکستان میں کھیلوں کو پروان نہ چڑھایا جا سکے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں پاکستانی تشخص کو بہتر کرنے کے لئے کوشش کریں۔ یہ تبھی ہو پائے گا جب ہم سب مل کر کوشش کریں گے۔ اس میں ایک بڑا کردار والدین کو ادا کرنا ہو گا جو اپنے بچوں کو شروع دن سے آنے والے اولمپکس یا عالمی مقابلوں کے لئے تیار کرنے کی سوچ اپنا لیں گے۔
https://www.facebook.com/FatherlyHQ/videos/1027365630649912/

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں