کرنا جرمانہ پولیس والے کا ، اپنے آپ کو

ابھی ناروے کا ایک آن لائن اخبارمیرے سامنے کھلا پڑا ہے جس میں لکھا ہوا کہ پولیس آفیسر نے دوران ڈرائیونگ فون استعمال کرنے پر خود کو ہی جرمانہ کر لیا۔ ہوا کچھ ایسا کہ کسی نے اپنی فیس بک پر لکھا کہ میں دوران پٹرولنگ ایک پولیس آفیسر کو فون استعمال کرتے ہوئے دیکھا، اس کے بعد اس متعلقہ پولیس آفیسر نے کہا ہاں ایسا ہوا ہو سکتا ہے اور اس نے اپنے لئے 1300 سو کرون تقریبا 15000 ہزار پاکستانی روپوں کا جرمانہ لکھا اور کہا کہ میں اس کو کل صبح تک ادا کر دوں گا ، اس سے پہلے بھی ناروے ہی میں ایک پولیس آفیسر نے اسی موسم گرما میں پٹرولنگ کشتی پر بنا لائف جیکٹ جانے کیوجہ سے خود اپنے لئے جرمانہ لکھا تھا۔

یہ خبر اس سنورے ہوئے معاشرے کی ہے جہاں انسانی ضمیر اپنی غلطی پر نا صرف ندامت محسوس کرتا ہے بلکہ اپنی غلطیوں کی تلافی پر بھی یقین رکھتا ہے۔ کسی لکھنے والے نے لکھا تھا کہ معافی کے تین مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ معافی مانگنا۔۔۔۔۔۔جی میں معافی کا طلبگار ہوں، دوسرا مرحلہ اپنی غلطی کا اعتراف کرنا ہوتا ہے کہ یہ میری ہی غلطی تھی یا کوتاہی تھی جس کی وجہ سے ایسا ہوا، اور تیسرا اہم ترین مرحلہ اس غلطی کی تلافی کرنا کہ اب میں اپنی غلطی کو کسیے سدھار سکتا ہوں،
ہمارے ہاں لوگ بمشکل اپنی غلطی پر معافی مانگتے ہیں، اگر معافی مانگ ہی لیں تو احساس دلاتے ہیں کہ اب لوگوں کو ان کا شکر گذار ہونا چاہیے یعنی اپنی غلطی کا اعتراف کرنے سے ہچکچاتے ہیں، اور اپنی غلطی سدھارنے پر تو کوئی بات ہی نہیں کرتا کہ میں نے جو غلطی کی ہے اس کا خمیازہ کیونکربھر سکتا ہوں۔
اخبار کا لنک

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں