میلان اٹلی کا سفرنامہ

لیجئے آج آپ کو میلان لئے چلتے ہیں، آبادی کے حساب سے اٹلی کا دوسرا بڑا شہر، سب سےاہم تجارتی مرکز، فیشن کی دنیا کے ڈھیروں رنگ لئے، یورپ کی چھبیس صدیوں کی تاریخ کا آئینہ دار ہے۔ اس خوبصورت شہر میں مجھے دو دن گذارنے کا موقع ملا، ہوٹل ریسپشن والے سے میں نے پوچھا کہ سب سے پہلے کہاں جائے جائے اس نے میلان کے مرکزی کیتھڈرل جانے کا مشورہ دیا۔ اس کیتھڈرل جاتے ہوئے ایک رنگ برنگی گلی نے مجھے روک لیا، یہاں ایک تنگ گلی کے دونوں اطراف لوگوں نے سٹال لگا رکھے تھے، ان میں روایتی کپٹرے ، جیولری کے سٹالز سے ہٹ کر جو چیز سب سے زیادہ دلکش تھی وہ پھل اور سبزیوں کے سٹال تھے۔ پھلوں کی خوبصورتی آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھی میں نے ان میں جو پھل نہیں چکھے تھے تقریبا سبھی پھل کھا کر دیکھے۔  خوبانیاں پاکستان جیس میٹھی نہ تھیں، آڑرو کا سائز پاکستانی آڑووں سے بڑا تھا اور ذائقہ پاکستانی آڑو سے ملتا جلتا تھا، آلو بخارے پاکستانی آلو بخارے سے زیادہ رسیلے تھے، مقامی خربوزہ کھانے کا اتفاق ہوا جو پاکستانی خربوزے سے کافی زیادہ رسیلا تھا۔

میلان کیتھڈرل
اٹلی کا سب سے بڑا چرچ جس کو مکمل ہونے میں چھ صدیوں کا عرصہ لگا، آپ چھ صدیوں سے لفظ سے شاید ایسا سوچ رہے ہوں کہ ایسا کیا تھا اس چرچ میں تو 34000 سے زاہد مجسمے اس چرچ پر ایستادہ کئے گئے ہیں، سرکاری طور پر اس کی تعمیر 1386 میں آغاز ہوئی اور کہتے ہیں اس کی تعمیر ابھی تک جاری ہے۔ یہ عمارت دور سے دل کو اپنی جانب مائل کرتی ہے، پاس آنے پر یہ آپ پر حیرت کے نئے دروزے کھولتی ہے، اس کے در و دیوار پر کیا گیا سنگ تراشی کا کام چھ صدیوں پر محیط سنگ تراشوں کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس چرچ کو دنیا کا پانچواں بڑا چرچ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ خیر جب ہم اس چرچ کے پاس پہنچے تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کو دیکھنے آئی ہوئی تھی، موسم کافی گرم تھا، اور دھوپ میں کھڑے ہونا مشکل ہو رہا تھا، ایسے میں چرچ کے متصل ایک عمارت اپنی جانب توجہ مبذول کرواتی ہے۔

گیلریا ویٹوریو
میلان چرچ کے بالکل ساتھ اس خوبصورت عمارت کا نام گیلریا ویٹوریا ہے، اس کو دنیا کے پرانے ترین شاپنگ مال میں سے ایک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اب اس عمارت میں برانڈڈ سٹوررز کی دکانیں ہیں اور ایک دو آرٹ گیلریز بھی۔ اس گیلری کو ایک تھری ڈی تصویر کہا جا سکتا ہے، شیشے کی بنی ہوئی چھت، اونچے اونچے محراب اور در ود یورا پر نقش و نگار اور تصاویر کا حسین متزاج اس گیلری کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اسی گیلری کے ایک کونے پر میں نے ایک اٹالین آئس کریم بھی کھائی، سچ کہیے تو اٹلی میں پیزا اور آئسکریم دونوں ہی مجھے اچھے لگے۔

لیونارڈو ڈا ونچی کا مجسمہ
گیلریا ویٹوریا کے پہلو میں لیونارڈو ڈا ونچی کا ایک بڑا مجسمہ بھی اپنی طرف بلاتا ہے، ایک دایرہ نما سٹرکچر میں کسی لگا ہوا یہ مجسمہ سیاحوں سے گھرا ہوا تھا، مونا لیزا کی مسکراہٹوں سے ساری دنیا کے دل میں گھر کرنے والا لیونارڈو دراصل تکینیکی اعتبار سے ایک انجنئیر بھی تھا، اس نے اس دور کے اعتبار سے نہ صرف بہت سے سانسئی ڈائگرامز کو زندگی بخشی بلکہ پہلی اڑنے والی مشین کے نظریہ کو بھی تصویر کیا۔ اس مایہ ناز مصور کے مجسمے کے قدموں میں ایک فنکار پنسل کی مدد سے لوگوں کے لائیو سکچ بنانے میں مصروف تھا۔
میلان کا ٹرام ٹور
پیدل چلتے ابھی کچھ ایک دو گھنٹے ہی گذرے ہوں کہ ایک ٹرام نظر آئی جو شہر کے مختلف حصوں کی سیر کروا رہی تھی، ٹرام والے نے پندرہ یورو کے عوض کوئی گھنٹے بھر کی سیر کا پیکچ بتایا جو ہم نے قبول کر لیا، ٹرام بالکل خالی تھی، اس نے ہمیں ایک بلوٹوتھ والا سپیکر دیا جو ہمیں قریبی عمارتوں کے بارے انگریزی زبان میں بتا رہا تھا۔ ٹرام میں بیٹھنا ایک تجربہ تھا جو ہم نہ بھی کرتے تو دل پر کچھ بوجھ نہ ہوتا لیکن ایک دو گھنٹے پیدل چلنے کے بعد ٹرام کا سفر بھلا بھلا سا لگا، ایک جگہ ٹرام رکی تو ٹرام کا ڈرائیور ایک لوہے کا ایک نوکدار ڈنڈا لئے فورا اترا، اس کی پھرتی قابل دید تھی، مجھے ایسا لگا کہ وہ ٹرام کے آگے کھڑے موٹر سائیکل والے پر خفا ہو گیا ہے، اس نے اس اوزار کی مدد سے زمین پر بچھی ٹرام کی لائنوں میں ایک جگہ پر کسی ناب کو دبایا اور واپس اپنی سیٹ پر آگیا، میں نے اس سے پوچھا بھائی خیریت تو تھی، کہنے لگا کہ وہ ٹرام کا راستہ بدلنے گیا تھا، وہ جسے ہم کانٹا بدلنا کہتے ہیں، بالکل ویسے ہی اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ٹرام کا ٹریک بدل کر رکھ دیا، ایک اور حیرانی جو مجھے اسی ساری ٹرام کے راستے ہوتی رہی وہ یہ کہ کنڈکٹر نے ہمیں ادا کئے ہوئے تیس یورو کی رسید نہیں دی، جبکہ ٹرام کے پمفلٹ پر لکھا ہوا تھا کہ  اس مالیت کی ٹکٹ ایک دن کے اندر بار بار اترنے چڑھنے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ مجھے ایسے لگا کہ اس طرح کسی بھی مسافر سے پیسے لیکر ڈرائیور کنڈکٹر بڑی آسانی سے چھپا سکتے ہیں۔ یا ایسا کوئی ملتا جلتا نظام میں نے کسی اور جگہ دیکھا نہ تھا۔
دوران سفر  میں نے محسوس کیا کہ ساٹھ فیصد سے زیادہ اہم بلڈنگز کو اس ٹرام کے راستے پر تھیں وہ گرجا گھر ہی تھے، اس سے شہر میں مذہب کے حوالے سے تاریخ کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ٹرام والا کسی تاریخی عمارت کے پاس جا کر اس کو تھوڑی اور آہستہ کر لیتا تا کہ میں اس عمارت کی تصاویر لے سکوں۔ اس کی اس عنایت سے میں نے خوب فائدہ اٹھایا اور اس ایک گھنٹے کے سفر میں درجنوں تصاویر لیں۔ شہر کا طائرانہ جائزہ لینے یہ بہترین طریقہ تھا، لیکن اس سفر میں ہم زیادہ تر پرانے میلان کی سڑکوں اور گلیوں میں ہی گھومے پھرے۔

سانتا ماریہ کا چرچ
ٹرام کے راستے میں سانتا ماریہ کا نامی چرچ بھی آیا، آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹرام سے یونیسکو ورثے کا حصہ اس عمارت کی تصاویر لینا ایک امتحان ہی تھا، لیکن پھر کچھ ایک دو تصاویر لینے میں ہم کامیاب رہے۔

آرچ آف پیس
شہر کے دروزہ کو ایک آرک کی صورت بنایا گیا ہے، اس کو آرک آف پیس کہا جاتا ہے، ٹرام کے راستے پر اس آرک کو دیکھا جا سکتا ہے، اگر تھوڑی ہمت کریں تو یہ آرک صفورزا کے قلعہ کے بالکل پیچھے ہے، میلان کیھتڈرل سے باآسانی یہاں تک پیدل آیا جا سکتا ہے۔

صفورزا کا قلعہ
ٹرام نے ہمیں چودہویں اور پندرہویں صدی کے اس قلعہ کے پاس اتارا، قلعہ کے مینارے اور برجیاں تاریخ کے جبر کی بے شمار داستانیں سینے میں سیمٹے سیاحوں کو خوش آمدید کہہ رہے تھے، قلعہ کے مرکزی دروزہ سے باہر ایک فوارے پر لوگ اس گرم دن میں راحت ڈھونڈے بیٹھے تھے۔گرمی اور یورپ کا کوئی بھی ملک لباس کے اختصار پر کوئی پابندی نہیں، سورج کی تپش، فوارے کی ٹھنڈی ٹھنڈی فوار ، لباس کی آزادی میں ہم ایسے دیسی بس پوکو مون کھیلنے والے کھلاڑی بنے رہتے ہیں۔ ہم نے قلعہ میوزیم میں اے سی کا سراغ پایا تو میوزیم دیکھنے کو لپکے، ابھی ریسپسن پر جا کر پسنیہ ہی خشک کر پائے تھے کہ خاتون ریسپسنشٹ مخاطب ہوئیں جی آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں ، ہم نے کہا جی قلعہ کا میوزیم دیکھنے آئے ہیں، انہوں نے کہا یہ دیکھئے لکھا ہوا کہ یوزیم بند ہو چکا، واقع ہی وہاں کچھ عبارت اٹالین میں درج تھی لیکن کیا تھی یہ پتہ نہیں، ہم نے اس عبارت کو پڑھنے میں کچھ وقت لیا، پھر جب کچھ اور نہ بن پڑا تو باقی قلعہ دیکھنے باہر نکل آئے۔
اٹلی میں ٹریفک
آپ نے اکثر سن رکھا ہوگا کہ اٹلی اور پاکستان کی ٹریفک ملتی جلتی ہے، ایسا نہیں ہے، بلاشبہ پاکستان ایسی بری ٹریفک کاکہیں بھی ثانی نہیں، ہاں اگر دیگر یورپ کا مقابلہ اٹلی سے کیا جائے تو یہاں پر تیز گاڑیاں چلانے والے ، جلدہ ہارن بجا دینے والے ، بے صبرے ڈرائیور قدرے زیادہ ہیں۔ ہم بذریعہ کار سوئٹرزلینڈ سے میلان آئے تھے، اور میلان سے وریونہ، وینس اور واپسی فرانس گئے اس لئے اٹلی کی سڑکوں پر کم و بیش ہزار کلومیٹر گاڑی چلانے کے بعد بس اتنا سا فرق ہی محسوس ہوا۔
میرے لئے میلان اٹلی کا پہلا شہر تھا، یہاں جو کچھ میں نے دیکھا اس کا خلاصہ کچھ ایسا ہے کہ لوگ کھلے دل سے ملتے ہیں، اٹلی کا مزاج کچھ کچھ پاکستانی ہے، کیونکہ موسم یورپ کے اکثر ممالک سے زیادہ گرم رہتا ہے اس لئے ہم ایسی پھل سبزیاں بکثرت دکھائی دیتی ہیں۔ سڑکوں پر ڈرائیور کبھی کبھی ہارن بھی بجانے کا شوق پورا کر لیتے ہیں۔ بہت سے ممالک سے زیادہ سستی منزل ہے۔ مناسب پیسوں میں مناسب ہوٹل ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
نوٹ۔ یہ بلاگ ڈان اردو میں بعنوان میلان: فیشن، آرٹ، اور تاریخ کا آئینہ دار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں