خواب گاہ میں ریت اور مبشر سعید

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ میں نے لکھنے کا آغاز شعر کہنے سے کیا، گوکہ میری تحریر اب بھی اتنی معتبر تو نہیں کہ میں اس کو حوالے میں پیش کروں لیکن بتانے کا واحد مقصد یہ تھیسز ڈویلپ کرنا ہے کہ میں شاعر پر گذرنے والی کیفیات خود پر طاری کرتا آیا ہوں، جامعہ زرعیہ فیصل آباد کی سوسائٹی آف ایگریکلچرل رائٹرز اور حلقہ ارباب ذوق فیصل آباد کے توسط  مجھے اس بات کا تعین کرنے میں آسانی رہی کہ مجھے شاعری اپنے بس کی بات نہیں پتہ، میری غزل پر ہی انور مسعود صاحب کا یہ قطعہ صادق آتا ہے کہ
یوں بحر سے خارج ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے
شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا

لیکن ایک بات کا مجھے یقین ہے کہ میں لاکھ برا شعر کہنے والا سہی مگراچھا شعر مجھے ہمیشہ سے متاثر کرتا آیا ہے، اورخصوصا جب آپ کسی ملتی جلتی مشقت سے گذرے ہوں تب آپ کسی بھی کاریگری کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد نے جو بہت سے کرم مجھ پر کئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ لکھنے والے بہت سے دوستوں سے روشناس کروایا، ڈاکٹر شوکت علی، محمد اویس ، فخرالدین رازی، انعام اللہ، وقار سانول، نعیم بھائی، احمد رضا، اور فیصل آباد حلقہ ارباب ذوق کے توسط ثنااللہ ظہیر، مقصود وفا، ڈاکٹر ریاض مجید، عماد اظہر عماد، علی زریون سے ملنے کا موقع میسر آیا۔
ان بہت سارے سالوں میں بہت لوگوں سے ملاقات ہوئی، بہت سے دوست زندگی سے جڑ گئے اور اکثر بچھڑ گئے، ان دوستوں میں ایک بہت پیارا سا جونئیر مبشر سعید بھی ہے، ہمارے ایک مشترکہ دوست کے پاس ہمارے ہاسٹل آتے جاتے ان سے ملاقات رہتی لیکن یہ کبھی نہ کھلا کہ موصوف شاعر بھی ہیں، پھر یونیورسٹی ختم ہوئے تو بہت سے آشنا چہروں سے ملاقات کا سلسلہ ختم ہو گیا، بھلا ہو فیس بک کا کہ جس کے طفیل کئی دھندلے چہروں کے خط و خال واضح ہونے لگا، اسی فیس بک کی پوسٹوں کے طفیل مجھے پتہ چلا کہ مبشر سعید تو بہت اچھے شعر کہتے ہیں، ان کی فیس بک پوسٹوں کے بعد ان کی کتاب خواب گاہ میں ریت میرے سرہانے دھری ہے، پچھلے ایک دو ماہ سے اپنے پسندیدہ اشعار پر نشان لگائے آپ سے شئیر کرنے کے انتظار میں ہوں۔

لیجئے ان کی مصوری ملاحظہ ہو


بنچ پر پھیلی خاموشی
پہنچی پیڑ کے کانوں تک
عشق عبادت کرتے لوگ
جاگیں روز اذانوں تک

اور خیالات کو مجسم کچھ اس انداز سے کرتے ہیں

ہاتھ میں ہاتھ لئے پھرتے ہیں
ہم تجھے ساتھ لئے پھرتے ہیں
مرنے والوں کو کہاں دفن کیا
ہم انہیں ساتھ لئے پھرتے ہیں

ان کے ہاں محبت تعلق کے جو معنی اوڑھتی ہے وہ کچھ یوں ہے

دشت ہجراں سے محبت کو نبھاتے ہوئے ہم
خاک ہوتے ہیں میاں، خاک اڑاتے ہوئے ہم
موسم سبز میں بے حال ہوئے جاتے ہیں
اپنی آنکھوں سے تیرے اشک بہاتے ہوئے ہم

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ

اے مری وحشتوں کے باعث شخص
تو مجھے ہر طرح گوارا ہے

شاعری نئے دور میں داخل ہو کر محبوب کے علاوہ دوستی سے بھی آشنا ہوئی ہے، نئے دور میں نئے تعلقات میں محبت کے رنگ دیکھتے ہوئے مبشر یوں گویا ہوتے ہیں

روز دیتی ہے وہ جینے کی دعائیں مجھ کو
وہ جو ایک دوست ہے، وہ دوست، پرانے والی
اپنی توقیر بڑھانی ہے، بڑھا لے، لیکن
کوئی تہمت تو لگا، مجھ پہ لگانے والی

محبت کی شاعری اور روایتی موضوعات پر موتی پروتے پروتے، وہ خوابوں، پرندوں، اور چمن کے استعاروں کو لئے نئی سمتوں اور لافانی محبتوں کے سفر پر گامزن ہو جاتے ہیں

ہجر کی رت کا طرف دار بھی ہو سکتا ہے
دل، خسارے سے ثمر بار بھی ہوسکتا ہے
دکھ، پرندوں کی طرح شور مچا سکتے ہیں
ہجر، پیڑوں سے نمودار بھی ہو سکتا ہے

شاعری جہاں دکھ کے معنی اوڑھتی ہے تو محسوس میں ہر اس تکلیف کا احساس رکھتی ہے جو انسان سے اقوام تک کسی نہ کسی صورت ان پر گذرتا ہے، کربلا کے دکھ سے ہر آنکھ میں آنسو رہے، اس ایسے موضوع پر اچھوتا خیال تراشنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، مبشر اس موضوع پر یوں رقمطراز ہیں

خیمہ صبر میں پہنچا نہ بوقت مشکل
پانی تب سے ہوا پھرتا ہے، پانی پانی

مبشر مشکل خیالات کو بڑی آسانی سے شعروں میں ڈھالتے نظر آتے ہیں، جیسے
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ جتنا بھی کرو
کوئی نقصان نہیں ہوتا فراوانی کا

ایک دیوار مجھ سے پوچھتی ہے
کون اندر سے ڈھا رہا ہے مجھے؟

تمہیں یہ کس نے کہا کہ مصلحت میں رہو
جہاں پہ جبر ہو، پاگل کلام کرتے ہیں

مبشر سعید میرا دوست ہے اس لئے آپ مجھ سے اس کے لئے محبت کی خوش گمانی رکھ سکتے ہیں، لیکن مبشر کی اس کاوش کوگرامی قدر اساتذہ بھی سراہتے نظر آتے ہیں۔

مبشر سعید نئی نسل کا وہ خوش بیان شاعر ہے، جس کی شاعری میرے دل کے بہت قریب ہے۔ عباس تابش
مبشر سعید کی شاعری روایت اور جدت کے امتزاج کا متوازن نمونہ ہے، وہ شعر نہیں کہتا بلکہ پینٹنگ سی لا کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ محمد علوی -انڈیا
مبشر سعید کی غزلیں پڑھ کر یہ مسرت بخش احساس ہوا کہ ایوان غزل پر ایک تازہ کار فکر اور منفرد لب و لہجہ دستک دے رہا ہے۔ ڈاکٹر معین نظامی۔

مبشر سعید کی شاعری میں بے شمار شعر ایسے ہیں جنہیں میں اپنی یادداشت کا حصہ بنانا چاہتا ہوں، جنہیں دہرانا چاہتا ہوں اور دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں، مگران کا ایک شعر جو اہل سخن کو تادیر ان کے ہونے کا احساس دلاتا رہے گا کہ
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں، ہو کے دکھاوں تجھ کو

کلام شاعر بزبان شاعر کا ایک نمونہ بھی ملاحظہ ہو۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں