
کل زندگی نے موقع دیا تو نئے امیر جماعت اسلامی سراج االحق صاحب کو بھی قریب سے دیکھنے، سننے ، اور ہاتھ ملانے کا موقع ملا، انہوں نے جماعت کے حوالے سے بہت سے خوبصورت باتیں سامعین کے سامنے رکھیں، گرین اور کلین پاکستان کا تصور، اسلامی تصور سے مزین چمکدار پاکستان، ان کی باتوں میں مجھے خلوص نظر آیا، ان کی شخصیت میں عاجزی نظر آئی، ان کے لہجے کی صداقت محسوس کی جا سکتی تھی، وہ ایک گھنٹے کے قریب اپنے زندگی کے واقعات، جماعت سے وابستگی، اور پاکستان کے حوالے سے اپنے خوابوں کا تذکرہ کرتے رہے، ایک واقعہ انہوں نے اپنے اور قاضی صاحب کے چائنہ ٹور کا سنایا، کہنے لگے کہ ہم چاینہ کی ایک بڑی پارٹی کے مرکزی دفتر میں بلائے گئے، وہاں پر قاضی صاحب نے بتایا کہ قرآن کریم میں معاشی نظام، معاشرتی نظام، تعلیمی نظام، کا پورا ڈھانچہ ملتا ہے، اس پر کسی نے سوال پوچھا کہ کیا پاکستان کا معاشرتی نظام قرآن کے مطابق ہے، یا معاشی نظام، یا تعلیمی نظام تو ہمارے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا، تو انہوں نے کہا جس پھل کو آپ خود نہیں کھاتے تو ہمیں کیوں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں، اس واقعہ سے ان کی مراد یہ کہنا تھا کہ ہمارا پہلا فوکس یہ ہے ہم پاکستان کو ایک مثالی معاشرہ بنائیں، جہاں ہم قرآنی نظام کو دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔
محترم سراج الحق صاحب کی سادگی، عاجزی کے درجنوں لوگ گواہ ہیں، وہ حقیقت میں جماعت اسلامی کا سچا چہرہ ہیں، لیکن کیا ہماری عوام سچ میں نا بیناہے جن کو جماعت اسلامی کی خوبیاں نظر نہیں آتی، یہ حقیقت ہے امیر جماعت اسلامی کی شخصیت متاثر کن ہے، لیکن شہباز شریف کی طاقت، عمران خان کی مقبولیت، پیپلز پارٹی کے روایتی ووٹ بنک کے سامنے جماعت اسلامی کبھی کامیاب ہو پائے گی؟
بظاہر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ اہل جماعت سے اچھے طریقے سے ملتے ہیں، لیکن ووٹ نہیں دیتے، یہ ووٹ اسی کو دینا پسند کرتے ہیں جو موجودہ نظام سے ان سے بہتر بسر کر رہا ہوتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں