سفیر ڈنمارک ، سید ذوالفقار گردیزی ، خدا حافظ

ابھی کل کی بات ہے کہ مسرور جونیجو صاحب دھیمے لہجے اور سنجیدہ انداز تکلم کے ساتھ پاکستان ایمبیسی ڈنمارک کا چہرہ ہوا کرتے تھے، اور ابھی آج کی بات ہے کہ سید ذوالفقار گردیزی اسی عہدہ پر اپنی مدت گذار کر جا رہے ہیں، تین سال کا کا عرصہ درجنوں ملاقاتیں، بس چند لمحوں کی بات لگتے ہیں، جونیجو صاحب کے دور میں بیلی ابھی بیلی بندھن سے آزاد تھے ، شاید اس لئے انہیں اس چھوٹے سے گروپ کی موجودگی کا احساس نہ ہوا ہوگا، لیکن گردیزی صاحب کے دور کی سبھی محفلوں میں بیلیوں کی موجودگی اور بیلیوں کی سبھی تقاریب میں سفیر محترم کی موجودگی ان کی نوازشوں کے ایک سلسلے کا پتہ دیتی ہے۔ 

دو روز قبل فلیمز پاکستانی ریسٹورنٹ پر ایک محفل میں ان کی الوادعیہ تقریب رکھی گئی تھی، ایک ایسی تقریب جس میں کسی تقریر کا اہتمام نہ تھا بس ایک الوداعی کھانا کہ بس اکٹھے بیٹھ رہنے کا احساس رہے اور گذرے وقت کو ایک بار پھر سے تازہ کیا جاسکے،

عدیل آسی صاحب کی دونوں کتابوں میں بھرپور وقت انہوں نے نکالا، بیلی مینگو مشاعرہ کے تصور میں جان انہوں نے ڈالی اور بیلیوں کی توسط آنے والے مہمانوں کے لئے دستر خوان انہوں نے وسیع کیا،  یقینا ایک نوزائیدہ سی تنظیم کے لئے اس طرح کی شفقت ہاتھ آنا ایک ایسی حوصلہ افزا تھپکی ہے جس کے لئے بیلی تادیر ان کی محبتوں کے قرض دار رہیں گے۔

وہ مرتبے کے حساب سے پہلے بھی منتخب تھ


ے، لیکن اپنے اس قیام کے دوران انہوں نے ہمارے دلوں میں بے پناہ جگہ سمیٹی، اس شام وہ جا رہے تھے تو دل ایک لمحہ اداس سا ہو گیا، جیسے کسی عزیز سے دوری کے رشتے کا آغاز ہونے والا ہو، ایسا بارہا ہوتا ہے بچھڑنے والے ملنے کا وعدہ کر کے ہی بچھڑتے ہیں ، کسی نے کہا تھا کہ

جانتے تھے دونوں ہی ہم اسے نبھا سکتے نہیں
اس نے بھی وعدہ کر لیا، میں نے وعدہ کر لیا۔

بس ایسے ہی بچھڑتے وقت سب نے کہا کہ پھر ملیں گے، بچھڑنے کی خوبصورتی بھی اسی خواہش میں ہے کہ پھر ملنے کی آرزو باقی رہے،  بیلیوں کی بے شمار محبتیں اور پھر اس تعلق کی یاد میں ملنے کی آرزو کے ساتھ سفیر محترم سید ذوالفقار گردیزی صاحب کے لئے خدا حافظ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں