نظامِ ہستی نکھر رہا ہے(مخالفت)

نظامِ ہستی نکھر رہا ہے(مخالفت)

نہ پوچھ شہر میں رونق ہے ان دنو ں کتنی
دھواں دھواں کہیں بارود کی نمائش ہے
سجے ہوئے کس راہ میں سر بریدہ بدن
کہیں متاعِ دل و جاں کی آزمائش ہے
اور کچھ لوگ دلائل کے دھند لکے میں یہ ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ نظامِ ہستی نکھر رہا ہے۔ ذرا حالات و واقعات کا جائزہ لیجئے۔ہر صبحِ نو! ہر نو مولود کے سر پہ قر ضوں کا بار بڑھا جاتی ہے۔ ہر گزر تا دن، ہر جھکتی کمر کے جھکاؤ میں ایک انچ کا اضافہ کر رہا ہے۔بجٹ قانون کی ہر شق غریب کے سر پہ تا زیانہ بجاتی ہے، اور بھوک کی بلبلاہٹ سے آہِ سرد کی بجائے تیشہء فر ہاد کی صدا آتی ہے۔انصاف کو صلیب و دار کے موسم نے بیچ چوراہے سینے سے لگا لیا اور اس کی آخری ہچکی سے غریب کے لہو کی بو آتی ہے۔خلوص و وفا کے رشتوں کو سنگِ دُشنام کے ڈا ئنا مائٹ سے اڑا دیا گیا۔ اور اسی ارضِ پاک پر جسے ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کے لہوؤں سے سینچا تھا آج
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
گلی کے موڑ پہ رُک رُک کے سوچتی بہنیں
نہ جانے کب سے کھڑی ہیں کہ ابرِ خوف چھٹے
چھٹے یہ ابر ! یہ انبوہء خلق ِ شہر ہٹے
ہٹے یہ خلق! یہ صدیوں کا راستہ جو کٹے
تو ماں کے دودھ کا کوئی نشان تلاش کریں
صدرِ محترم!
ہر نیاآنے والا دن پرانے دن کے خون سے رنگین ہے ۔ہر نئی صُبح دھند کے دھند لکوں میں کھوئی ہوئی ہے ۔،ہر پیدا ہونے والے بچہ 25ہزار کا مقروض ہے۔ پوری قوم کے سر پر جنگ کاعذاب مسلط ہونے کو ہے ،اور دھرتی ماتا کے جگر گوشے نوکیلے نا خنوں سے بے گناہ لہو کا خراج لے رہے ہیں۔ تلواریں بیچ کر مصّلے خرید ے جا چکے ہیں۔جہادِ افغانستان کا نعرہ لگانے والے بنجر پہاڑوں میں غرق ہو گئے۔ بن لادن کے پر وانوں کو تورا بورا کے ویرانوں میں بھی پناہ نہ مِلی۔بھارتی پار لیمنٹ میں فائر نگ کے بعد واجپائی دوستی کا جنازہ نکل گیا۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ساتھ تہذیب و تمدن کی دیوی بھی زمین بو س ہو گئی۔بارود کی پلیٹوں میں کھا نا بٹا۔ارے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ابھی چند روز پہلے آپ کے اِسی نظام ہستی نے مینارِ پاکستان سے چھلا نگ لگا کر خود کشی کر لی۔جنابِ صدر! آئیے میرے ساتھ اپنے ان ذی شعور بھا ئیوں سے ذرہ پوچھیں تو سہی۔
کہاں رکے گا لہو کا یہ بے اماں سیلاب
بکھر کے راہ میں بہے گا کہاں کہاں سیلاب
اُداس بہنوں کی چادر کے خوں فشاں پُر زے
سیاہ پو ش یتیموں کی ہچکیوں کے بھنور
عذابِ شب سے فقط اذنِ خواب مانگتے ہیں
غریب ماؤں کے آنسو ہر اک موڑ پہ آج
امیرِ شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں
جنابِ والا!
میں آپ کی موجودگی میں جھوٹ کے سر پر دلائل کا تاج سجا کر عوام کے سامنے پیش کر نے والے اپنے ان دوستوں سے سوال کر تا ہوں کہ دہکتے سورج کی تپش تلے! اپنے وزن سے دو گنا بار اٹھانے والی اور رات کی تاریکی میں اپنے لختِ جگر کو لوری سنانے کی بجائے ، دیئے کی روشنی میں چر خہ کاتنے والی ماؤں کی بے خواب آنکھوں میں سجے سوال انھیں کیوں دکھائی نہیں دیتے۔سرحد پار سے آنے والی چرس اور پاؤ ڈر کے نشے میں ڈوبی نو جوان لاشوں پر بے سہار ا بہنوں کے بین انہیں کیوں سنائی نہیں دیتے۔قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اقبال کے دیے ہوئے قلم کی بجائے روسی ساخت کی کلا شنکوف کو یہ نظامِ ہستی کو نکھارنے کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں۔بھو ک سے نڈھال ننگے نونہالوں کے حیات کے لےئے، ایک ایک لقمے پر جھپٹنے کو یہ لہو گرم رکھنے کا بہا نہ کیوں سمجھتے ہیں۔
جنابِ والا! آج انھیں ان سب سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔۔۔میں تو بس اتنا ہی کہوں گا
یہی سحر ہے تو کیونکر حیات گزر ے گی
نہ جانے کون سی مقتل میں رات گزرے گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں