گفتگو ، تقریر ، مباحثہ

گفتگو، تقریر، مباحثہ
ہماری روز مرہ کی بات چیت ہی ہماری گفتگو ہے۔ہم جو کہتے ہیں، جو سنتے ہیں، جو سمجھتے ہیں وہی ہماری گفتگو کا حصہ ہے۔ اس گفتگو کو جب ایک راستہ دے دیا جائے یا یوں کہا جائے کہ شعور کے آتشی عدسے سے گفتار کی رو گزار کر ایک نقطہ پر مرکوز کی جائے تو جو شعلہ پیدا ہوگا تقریر کہلائے گا۔ اور اگر اس دیئے کی لو سے دور ایک اور دیا اسی چمک سے روشن دکھائی دینے لگے تو’’ مباحثہ‘‘ کی صورت نکل آئے گی۔ یعنی گفتگو سورج کی روشنی کیطرح ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور تقریر لیزر لائٹ کی طر ح ایک جیسی طاقت والے فوٹا نز پر مشتمل ایسی لہر ہے جو ایک ذہنی رو پر منطبق ہے اور جب دو مخالف سمت سے آنے والی لیزر شعاعیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو مباحثہ کا آغاز ہو تا ہے!
سوال یہ ہے کہ گفتگو کیوں ضروری ہے! تقریر اور مباحثہ کا جواز کیا ہے؟ کیا ما فی الضمیر کے اظہار کیلئے گفتگو ناکافی تھی جو انسان کو یہ حیلے اختیار کر نے پڑے ۔جواب یہ ہے کہ یہ صرف سوال ہی ہے وگرنہ گفتگو، تقریر ، مباحثہ کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں ان کی ملتی ہوئی سرحدوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے مگر ان کو علیحدہ علیحدہ کر دینا ان کی اپنی شناخت پر اثر انداز ہوگا۔
میں اکثر سوچتا ہوں وہ الفاظ کیا ہوں گے جو انسان نے پہلے پہل بولے ہوں گے۔ اس عمیق اندھیرے میں جہاں آواز نے معنی نہیں اوڑھے تھے۔ پہلے پہل انسان نے اپنی خواہش کو کن لفظوں کا پیر ہن دیا ہوگا ۔ وہ کیا فقرہ ہوگا جو بے پناہ محبت کے اظہار کا وسیلہ بنا ہوگا۔ ان نو مولود لفظوں میں کتنی سچائی ہوگی۔ جو ایک انسان نے اپنے ذہن سے تراشے ہو ں گے۔ پھر اس نے یہ طے کیا ہوگا کہ آئندہ کیلئے میں جب بھی یہ لفظ ادا کروں گا اسی کا مطلب یہ ’’مخصوص سوچ‘‘ خاص جذبہ ہوگا۔ کیا ’’ماں‘‘ بطور لفظ ایک خدائی عطیہ تھا۔ جو انسان نے اپنی جنم دینے والی کیلئے تفویض کیا۔ یا پھر روتے روتے آنسوؤں کی لڑی میں یہ لفظ خود بخود ’’پرو‘‘ ہو گیا۔ ماں کو بھی یہ ’’لقب‘‘ اچھا لگا اور ہر جنم دینے والی نے اس کو یوں اپنے پلو سے باندھا کہ پلو ہو نہ ہو یہ بندھن بندھا ہی رہا۔ وہ کیسی کیفیتیں ہوں جب ’’غم، دکھ، پریشانی‘‘ جیسے الفاظ کا جنم ہوا ہو گا۔ وہ کیا واقعہ تھا جس سے ’’خوشی، سر مستی، محبت، الفت‘‘ کے ترانے پھوٹے۔ پھر رفتہ رفتہ یہ لفظ جڑے اور ہار بنتے چلے گئے یہ ہار زنجیر کی کڑی کی طرح ایک نسل کو دوسری نسل سے باندھتا رہا۔ لفظوں کی صورتیں دھند لاتی رہیں ۔ مفہوم نئے لفظ اوڑ ھتے رہے۔پرانے جذبوں کو نئے لفظ ملتے رہے اور بالآ خر ہمیں 21ویں صدی میں بطور ورثہ اتے پرانے لفظ ، پرانے جذبے مل چکے ہیں کہ ہم ان سے ناواقف ٹھہرے۔ آج لفظ تو ہیں مگر وہ جذبے معدوم ہو چکے جن کیلئے وہ الفاظ تخلیق کئے گئے تھے۔ نئے جذبوں کیلئے نئے الفاظ کوئی کہاں سے ڈھونڈے۔ لے دے کے وہی پرانی کتابیں جن میں سے ملتی جلتی شباہتیں سوچ کر ہم نے اپنے جذبوں کو نیا رنگ دینے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہ نہیں تھا جو ہم نے سوچا مگر اظہار ہو جانے کی خواہش میں نئے جذبے پرانے لفظوں کے سانچوں میں ڈھلتے چلے گئے اور آج انسان اس سوچ سے ماوارء ہو چکا ہے کہ ’’خوشی‘‘ نے کس جذبے سے جنم لیکر یہ نام اختیار کیا تھا اور غم کس صدمے سے دوچار ہو کر یہ نام اوڑھنے پر مجبور ہوا تھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں