ما در ملت

ما در ملت
انیس سو ستا سٹھ کا سال، جولائی کا مہینہ، کراچی شہر کے وسط میں چھ لاکھ لوگوں کا ہجوم۔۔۔۔۔۔سبھی دفاتر، کارخانے اور دوکانیں بند ہیں۔۔۔۔۔۔ روشنیوں کے شہر پر موت کی تاریکی کا راج ہے۔ ریڈیو پاکستان نے قومی سطح پر چھٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سر نگوں کر دئیے گئے ہیں۔ لوگوں کا ہجوم بڑے بے ہنگم انداز میں مزارِ قائد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سرکا ر ہجوم کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن لوگ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پولیس لاٹھی چارج کر تی ہے۔ آنسو گیس پھینکتی ہے۔ ہجوم کی بھیگتی آنکھیں اور بہنے لگتی ہیں۔ پولیس عوام کو للکارتی ہے۔ مگر فضا میں دبی دبی آہوں اور کھلی کھلی سسکیوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پوری کائنات کا ذرہ ذرہ ماتم کنعاں ہے اور کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔کہ آج ایک قوم کی ماں مر گئی۔ آج محترمہ فاطمہ جناح اس دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔
انا للہ و انا علیہ راجعون
آج وہ بہن مر گئی۔ جس نے جناح نام کے دیوانے میں وہ ہمت اور تقویت پیدا کی کہ وہ قائدِ اعظم ہو گیا۔
آج وہ دیوی روٹھ گئی۔ جس نے اپنی جوانی کے سونے اور بڑھاپے کی چاندی کو اس قوم کے نام قر بان کر دیا۔
آج وہ آنکھ بند ہو گئی۔ جس نے بنگال و آسام کی وادیوں میں خونِ مسلماں کی ارزانیوں پر اشک فشا نیا ں کیں۔
آج وہ ماں مر گئی۔ جس نے آزادی کے خواب کو اپنی گو د میں کھلا یا تھا اور اپنی آنکھوں سے لہو پلایا تھا۔
آج وہ عورت مر گئی۔ جس نے مسلمانانِ ہند کے ماتھے پر آزادی کا جھو مر سجا نے کے لئے ایک عورت کے نازک خوابوں کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔
آج وہ آواز تھم گئی۔ جس نے فوجی آمریت کی چکی میں پستی ہو ئی عوام کے حق میں آخری آواز اُٹھائی تھی۔
اب رہیں چین سے دنیا میں زمانے والے
سو گئے خواب سے دنیا کو جگانے والے
مر کے بھی مرتے ہیں کب مادرِ ملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے
یہی وہ عورت تھی کہ جب گرہستن بنی تو اپنے خا نسا ماؤں کے بیٹو ں کو ہسپتال میں خود لیکر جاتی رہی۔جو داعی بنی تو بنگال اور آسام کی سرحدوں سے بے نیاز سارے ہندوستان میں بنگال ریلیف فنڈ کیلئے چندہ اکٹھا کرتی رہی۔جو مدبّر بنی تو یوں کہ ان کے گلے میں سلمیٰ ستاروں کی مالا ڈالی گئی تو کہا ’’تم لوگ دولت کا ضیاع نہ کرو‘‘ جو راہبہ بنی تو کہا ’’یہ میری زندگی نہیں بلکہ میری زندگی کی ہر سانس میرے وطن میری قوم کے نام وقف ہے۔جو مفکّر بنی تو امریکی امداد کے خلاف یوں گویا ہوتی ہے کہ ’’مسلمان بھکاری ہو گئے ہیں انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرم محسوس ہو نی چاہیئے۔جو مبلغہ بنی تو گداگروں کو بھیک دینے والوں سے کہتی ہے میری قوم کو گداگر نہ بناؤَ۔جو سپہ سالار کا روپ دھارا تو 65کی جنگ میں یوں للکارتی ہے ’’پاکستان ہمیشہ کامیاب رہے گا گولیاں ہمارے عزائم کو نہیں دبا سکتیں‘‘۔جو مجاہدہ بنی تو کراچی سے لیکر راس کماری تک قائد کے قدم سے قدم ملا کر چلی۔جو غازی بنی تو گولیوں کی بوچھاڑ میں ہندوؤں اور انگریزوں کے خلاف جلسوں میں ڈنکے کی چوٹ پر شریک ہوتی رہی۔ جس نے اقبال کی تصویر کائنات میں یوں رنگ بھر ا کہ ممتا کے لفظ کی ساری مٹھاس اس کے نام میں سمٹ آئی۔جس کے ممتا بھر ے بہناپے نے محمد علی جناح میں وہ روح پھونکی کہ وہ دیوانہ وار آزادی کے آخری چودہ سالوں میں روزانہ چودہ گھنٹے کام کرتا رہا،اور ایک پل کے لئے بھی نہیں تھکا۔جس نے مسیحائی کا لبادہ اوڑھا تو آٹھ سال غریبوں کے لئے دستِ ابن مریم کی تفسیر بنی رہی۔جس نے شمع زیست کو اپنے ملک کی آزادی کے لئے اس طرح پگھلایا کہ آزادی ء پاکستان کے پروانوں نے اس کی لَو میں کسی بات کی پرواہ نہ کی۔جس نے ملتِ اسلامیہ کی بکھری ہوئی بہنوں کو یوں مجتمع کیا کہ وہ آزادی کے پرچم کو لے کر کبھی جلوسوں میں لاٹھی چارج کے سامنے سینہ سپر ہوئیں، اور کبھی کسی صغریٰ کو یوں کبریٰ کیا کہ اس نے سیکر یڑیٹ کی عمارت سے انگریزی جھنڈا اتار پھینکا۔اور پھر تاریخ پاکستان نے وہ پلٹا کھایا کہ سیاسی شا طروں کے نر غے میں آکر مادرِ ملت سیاست کی بساط کا ایک مہرہ بنی اور شطرنج کے اس کھیل میں دھاندلی نے وہ دُھند مچائی کہ ماں کو صرف 29ہزار حلالی ملے۔مگر چشم فلک گواہ ہے جب جب منکرین آمریت پہ گو لی چلی تب تب ماں نے کہا خونخوارو!۔۔۔۔۔دولت کے پرستارو!
دھرتی ہے یہ ہم سب کی
اس دھرتی کو نادانو
انگریز کے در بانو
صاحب کی عطا کر دہ
جاگیر نہ تم جانو
کیوں چند لٹیروں کی پھرتے ہو لئے ٹولی
بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی
یہ دل کے میرے ٹکڑے یوں روئیں مرے ہو تے
میں دور کھڑی دیکھوں یہ مجھ سے نہیں ہو گا
آج 31جولائی ہے، مادرِ ملت کا جنم دن۔۔۔۔ یوم تجدید عہدِ وفا منانے والو! اب کس کا جشن مناتے ہو اس تن من کا جو دو نیم ہو یا اس ملک کا جو تقسیم ہو! یا اس قائد کا جس کو ہم نے اعظم تو بنا دیا مگر اس کی ایمبو لینس ائیر پورٹ سے چار میل پر بے سہارا کھڑی رہتی ہے۔ اور وہ محسنِ پاکستان اسی بے چارگی کے عالم میں دم توڑ دیتا ہے۔ یا اس مادر ملت کا جسے ہم نے ما درِ ملت تو کہہ دیا مگر محققین کی زبانیں کھلتی تو پتہ چلتا ہے کہ نو جولائی 1967کو محترمہ فاطمہ جناح اپنی طبعی موت نہیں مری بلکہ کسی کرائے کے قاتل نے ان کا گلہ گھونٹا تھا۔جانے حقائق کیا ہیں! لیکن بحیثیت قوم ہم ایک مردہ قوم ہیں کہ فاطمہ جنا ح اپنے کتے ’’زرعون‘‘ کو دیکھ کر کہتی تھی کہ ’’کتاّ وفا دار جانور ہے اپنے محسنوں کو نہیں بھلاتا مگر ہم اپنے محسنوں کو بھول گئے ہیں‘‘ اور آج بھی ہماری آنکھیں دھندلکوں سے پار نہیں دیکھتیں۔
ارے آج کا دیس میرا دیس سہی مگر یہ وہ وطن نہیں، جس کا خواب لیکر چلے تھے یار کہ مل ہی جائے گی منزل کہیں نہ کہیں۔خوابوں کے گھروندوں کی چھتیں گر چکیں کہ آج میرے دیس میں سر فروش نہیں وطن فروش جنم لیتے ہیں۔مگر سوچنا یہ ہے کہ اب کہاں سے وہ نسخہءِ کیمیا ڈھونڈا جائے۔۔۔جو ڈوبتی نبضوں میں زندگی بھر دے۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں