آزادی بھیک میں نہیں ملتی

آزادی بھیک میں نہیں ملتی
ایک شکاری کسی سبزہ زار میں مکاری کا پھندا بچھاتا ہے اپنی چاپلوسی اور چال کے دانے پھینکتا ہے۔۔۔۔۔۔ کسی کی آزادی کو غلامی میں بدلنے کی تدبیر کر تا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ کبوتر آزاد فضاؤں سے قید و بند کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ جال کے سبھی در کھلتے ہیں اور کبوتر اگلے ہی لمحے اپنی آزادی کو کھو کر غلامی کی پنہا ئیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ لیکن آفرین ہے ان ننھی جانوں پر جنہوں نے شکاری کے جال کو اپنی قسمت کا لکھا نہیں گردانا۔اس پھندے کے سازشی دانوں کی طاقت کو آپس کی لڑائی میں صرف نہیں کیا،بلکہ اپنی رکتی اور تھمتی توانائیوں کو مجتمع کر لیا،اور شمع کی لو کے آخری بھڑکاوے کی طرح یوں بھڑ کے کہ جال کو لے اُڑے اور اسی لمحے آزادی کی فضاؤں میں پھڑ پھڑاتے پروں نے یہی سُرالاپاکہ آزادی بھیک میں نہیں ملتی ، آزادی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔
جنابِ صدر!
آزادی بھیک میں ملا کرتی تو آزادی مانگنے والے کسی پُر ہجوم سڑک کے کنارے، یا پر رونق بازاروں ، چوراہوں پر جھولیاں پھیلائے پھرتے ،لیکن کشمیر کے جلتے چناروں میں، افغانستان کی سلگتی پہاڑیوں پر ، کسووو کی اجتماعی قبروں کے ملبے تلے دبے ڈھانچوں کی راکھ تک یہی کہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آزادی بھیک میں نہیں ملتی، آزادی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔ کہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ آزادی پانی کے دھاروں سے نہیں خون کے فوّاروں سے جنم لیتی ہے۔ لیلا ئے آزادی کے لئے دیوانہ وار صحراؤں کی خاک چھا ننا پڑتی ہے۔ تب وہ صبحِ نوید طلوع ہو ا کرتی ہے۔ جسے دنیا آزادی کہتی ہے۔
جنابِ صدر!
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب 313کسی بحری بیڑے کی آمد کا انتظار کئے بغیر ہزاروں سے الجھ جا ئیں۔
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب واپسی کے راستوں کو آگ لگا کر دشمن پر دھاوا بول دیا جائے!
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب جنرل ڈائر کی چلا ئی ہو ئی گو لیاں لو گوں کو اپنی ناکیں زمین پر رگڑنے پر مجبور کر دیں۔ آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب شعبِ ابی طالب کی گھا ٹیوں میں لوگ چمڑا اور پتے کھا کر گزارہ کرتے ہوں۔
آزادی تو تب ملا کرتی ہے، جب خالد بن ولید کسی لشکر جرّار کے سامنے صرف 60آدمی لیکر سارا دن لڑ تا رہے۔
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب کوئی ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے خدا کی قسم تم کو اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی ،جاؤ خدا کی راہ میں لڑو۔آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب کوئی جناح 14سال 14گھنٹے روزانہ کا م کرتا ہے۔
آزادی تو تب ملا کر تی ہے، جب کوئی فا طمہ ایک عورت کے نازک جذبات کو سُلا کر خیبر سے لیکر راس کماری تک مسلمان خواتین میں وہ تحریک پیدا کر تی کہ وہ سیکریڑیٹ کی عمارتوں پر چڑ ھ دوڑیں۔
آزادی تو تب ملا کر تی ہے۔،جب کوئی فر عون معصوم انسانیت پر زندگی کے در وازے بند کر تے ہو ئے بحرِ بیکراں میں غرق ہو جائے۔ آزادی تو تب ملا کرتی ہے، جب کوئی نمرود شرفِ آدمیت کو ظلمت کی چکی میں پیستے ہو ئے محض ایک مچھر کی راگنی سے مر جائے۔آزادی تو تب ملا کرتی ہے، جب موت کا سکون لینے والا ایمل کانسی اونگھتی انسانیت پر بیداری کا طمانچہ مارے۔ارے آزادی بھیک میں نہیں ملتی بلکہ بڑھ کہ چھینی جاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں