دوڑ پیچھے کیطرف اے گردشِ ایام تو


 پلٹ کر آنکھ نم کر نا ہمیں ہر گز نہیں آتا
گئے لمحوں کا غم کر نا ہمیں ہر گز نہیں آتا۔
جی ہاں جناب صدر! گردشِ ایام کو پیچھے کی طرف دوڑانے والے ماضی پرست وقت کے خونخوار پنجوں کے دم قدم سے آنکھیں بند کر نے والے کبوتر کی مانند ہیں۔ جو وقت کی با گ کو تھام کر اشہبِ تمنا کا رخ ماضی کے عمیق گڑھوں کی طرف موڑنا چاہتے ہیں جہاں انکے آباؤ اجداد کی طاعون زدہ ہڈیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ آنے والے دور میں جینا سیکھو۔ ان کی آرزو ہے کہ ہم آلودگی کے ڈر سے اپنی کاریں چھوڑ کر بھا گ جائیں اور گھوڑوں کی سواری شروع کر دیں۔ ان کی کم نظری پھر ہمیں دھات کے دور میں دھکیلنا چاہتی ہے ۔ ان کی بصیرت پھر ہمیں علاج کے بہانے کلیسا کے دروازے پر پھینکوانا چاہتی ہے۔ ان کی سوچ پھر ہمیں قحط و طاعون کے ہاتھوں مر وانا چاہتی ہے۔ شاہوں کے درباروں کی آن و بان کے قصے سنا کر ہمیں جمہوریت اور شخصی آزادی کے دور سے دور لے جانا چاہتی ہے مگر میں علی الاعلان اس روش کی مخالفت میں اقبالی بصیرت کو سامنے لاتا ہوں کہ
؂ آئین نو سے ڈرنا ، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل کٹھن یہی ہے قوموں کی زندگی میں
جنابِ صدر! پیچھے کی طرف دوڑ نے والے ماضی پرست ، حالات کے ڈر سے بھاگنے والے کم ہمت لوگ ہیں۔ جنہیں مستقبل کی چڑھائی سے ماضی کی گہرائی زیادہ پسندہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ سفر کی تھکن کے ڈر سے ہم زندگی کی شام اندھی کھائی میں بسر کر دیں۔ سانس پھولنے کے ڈر سے سانس لینا ہی چھوڑ دیں۔ اس لئے وہ ماضی کے سینے پر سر رکھ کر سو جا نا چاہتے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے
؂ مشام تیز سے ملتا ہے صحرا میں نشان اس کا
ظن و تخمین سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری
کم ہمتی سے زندگی کے راستے طے نہیں ہوتے۔ راستے سے پلٹ جانے والوں کو کبھی منزل نہیں ملتی ۔ اپنی آنکھوں کی نیندیں پگھلا کر آنے والے دن کا اجالا بننا پڑتا ہے۔ سہانے مستقبل کے سچ کو پانے کے لئے ماضی کو تا زیانہ بنانا پڑتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب یاد ماضی عذاب ہو کر رہ جاتا ہے۔ اک جو ئے کم آب ہو کر رہ جاتا ہے۔ وقت کے گرداب میں پھنس کر تیقن کی کشتیاں ہچکولے کھاتی رہتی ہیں اور بے نور ہوتی آنکھوں میں یہی سوال باقی رہ جاتا ہے کہ
؂ مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
جنابِ صدر! اگر ہم اسی طر ح گردشِ ایام کا رخ پیچھے کی طرف پھیرنے کی سعی کرتے رہے تو آنے والے وقت کا بے رحم ریلا ہمیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔ آباء کی بہادری کی داستانیں سن کر ہمارے اعضاء مضمحل ہو چکے ہیں۔ عہد زریں کے حوالوں کو تازیانہ بنا کر برسانے والوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ’’نشاط ثانیہ اسلام ‘‘ کا خواب آنے والے وقت کیلئے سعی کر نے کا درس دیتا ہے۔ دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑ نے والے ماضی کو اپنے گھوڑوں کے سموں تلے روند کر عراق و فار س میں اسلام کی قندیلیں روشن کر تے ہیں۔ نگاہ مسلماں کے تلوار ہو نے کی دعائیں مانگنے والے آنے والے سنہرے دور کی خاطر ساحلوں پر کشتیاں کو شعلوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ قزاقوں کے نر غے میں گھر ی بنت مسلم کی صدا پر لبیک کہنے والے گردشِ دوراں کا رخ پلٹنے کیلئے سندھ کے ساحلوں پر حملہ آور ہو تے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو غلبہ اسلام کا درس سکھانے کیلئے 17حملوں کی یاد گاریں پیش کی جاتی ہیں۔ دہلی کے تاج پر مسلمانوں کی حکمرانی کا خواب دیکھ کرغوری ہندوستان پر حملہ آور ہو تا ہے۔ اور آنے والے وقت کو بہتر بنا نے کیلئے بلبن باد شاہت کے نئے فلسفے کو جنم دیتا ہے۔ آنے والے وقت کو بہتر بنانے کیلئے ہی علاؤالدین خلجی دو آبہ کے ہند وؤں کی گردن پر بھاری ٹیکس کی تلوار رکھتا ہے آنے والی گردشِ دوراں کا رخ آگے کی طرف دوڑ انے کیلئے ہی محمد بن تغلق منگولوں کو خریدنے کی کوشش کر تا ہے اور کبھی کرنسی کو نئی شکل دلواتا ہے۔ گردش دوراں کو آگے کیطرف دوڑانے کیلئے فیرو ز شاہ کو ناجائز ٹیکس واپس لینے پڑتے ہیں۔ جاگیریں بانٹنی پڑتی ہیں۔ زمانے کو آگے کیطر ف دوڑانے کیلئے بابر ہندو ستان کا رخ کر تا ہے اور ہاتھیوں کے غول کو جنگ کی لڑائی قرار دیتا ہے۔ گردشِ دوراں کو آگے کیطرف دوڑا نے کیلئے اکبر ہندو و مسلم کو یکجا کر نے کی کوشش کر تا اور جہانگیر عدل کیلئے زنجیریں لٹکاتا ہے۔
جنابِ صدر!
ایک نہیں ایک ہزار دلیلیں یہ اعلان کر تی ہیں کہ زمانے کو پیچھے کی طرف دوڑانے والے خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ حقیقت کی دنیا میں رہ کر آنے والی دنیا کی بہتری کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ وقت دوڑتا ہے تو ہمیشہ آگے کیطرف۔ اور اس گردش کو پھیر دینے کا مطلب نظام کائنات کو الٹی سمت میں دوڑانا ہے۔ اپنے ماضی میں واپس پلٹ جا نا ہے۔ اور ماضی بھی ایسا جو ہمیں بار بار یہی درس دیتا ہے کہ آنے والے دور میں جینا سیکھو۔ آگے بڑھنا سیکھو کیو ں کہ

تھے تو وہ تمہارے ہی آ با مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فر دا ہو
جنابِ صدر! آنے والا ہر دن پرانے دن سے زیادہ روشن اور صبیح ہے۔ آدم کی عظمت سے انکار کس کو ہے مگر وقت کا آگے کیطرف دوڑنا تو آدم ثانی حضرت نوحؑ کی کشتی کا معمار بنتا ہے۔ حضرت سلیمانؑ کی طاقت سے کس کو مُصِر ہے مگر وقت کی گردش جد الا نبیا ء (حضرت ابراہیم خلیل اللہ) کی بصیرت کیطرف آ پلٹتی ہے۔ اسماعیلؑ کے آدابِ فرزندی کی بجا آوری کو کون نہیں جانتا مگر گردشِ دوراں آگے کی طرف دوڑتی ہے تو میرے محمدؐ عربی کا دورِ پر نور لاتی ہے ۔ ہونا تو یوں چاہیے کہ گردش دوراں ہی تھم جاتی۔ وقت ٹھہر جاتا کہ اس سے بہتر دور کوئی نہ تھا مگر زمانہ پھر مشیتِ ایزدی کے تازیانے سے آگے کیطرف دوڑتا 
ہے اور اعلان کر تا ہے ۔
کہ
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یک دانہ 
یک رنگی وآزادی یا ہمت مردانہ 
یا سنجرو طغرل کا آئین جہانگیری
یا مرد قلندر کے انداز ملکوکانہ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں