سیر ت النبیؐ

سیر ت النبیؐ
میدان عرفات میں ایک لاکھ 24ہزار لوگوں کا جمِ غفیر ہے ۔ داعیانِ اسلام جگہ جگہ سے جوق در جوق جمع ہیں۔ ان کے سینوں میں ایمان کی شمع فروزاں ہے۔آنکھوں میں محبت کے الاؤ روشن ہیں، کہ اتنے میں ایک آواز سارے ماحول پر چھا جاتی ہے!
لوگو! آج تمہارے رب نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا۔ آج نہ کسی گورے کو کالے پر فوقیت ہے نہ کسی عربی کو عجمی پر، فوقیت ہے تو صرف تقوی کی بنیاد پر۔لوگو! تم پر تمہارے مسلمان بھائیوں کا مال حرام ہے۔لوگو! غلاموں سے برتاؤ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ صحرائے عرب سے اٹھی یہ آواز’’َ بلغو عنی ولو آیہ‘‘ کے رومال میں لپٹ کر چار دانگِ عالم تک پہنچی ۔ پھر امیرانِ عرب ریشمیں قبائیں اتار پھینکتے ہیں۔ پھر رئیسانِ عرب شراب و شباب کو خود پر حرام کر لیتے ہیں۔ پھر سفیرانِ عرب اپنے گھروں میں کوڑے لٹکا دیتے ہیں،کہ جو نماز نہیں پڑھے گا واجب سزا ٹھہرے گا۔پھر مرغانِ چمن صلوا علیہ والہ کا گیت الاپتے ہیں۔پھر خاک نشینانِ عرب قیصر و کسریٰ کے محلوں پر یورش کرتے ہیں۔پھر
سار بانِ عرب دنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ پھر کعبے کو صنم خانے سے پاسبان مل جاتے ہیں۔ پھر مسلمان جذبہءِ شبیری کا علم لیکر یوں کفر سے بر سرِ پیکار ہوتے ہیں ،کہ اندلس کے ساحلوں سے یہی صدا ابھرتی ہے کہ
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
اور پھر جب نگاہِ مسلماں تلوار ہوتی ہے تو۔۔۔دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں۔۔۔ کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں ۔اور پھر
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھا یا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
جنابِ صدر!
میں کیاکہوں کہ فرشتے تو فرشتے ،خود خدائے پاک کہتا ہے ’’صلوا علیہ و الہ‘‘ ،میں کیا کہوں کہ بلغ العلی بکمالہ ،کہ وہ پہنچے کمال کی بلندیوں پر ، میں کیا کہوں، کہ کشف الدجا بجمالہ ، میں کیا کہوں کہ حسنت جمیع خصا لہ،ٖمیں کیا کہوں کہ
یا صاحب الجمالِ ،و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نورا لقمر
میں کیا کہوں کہ
تیرے آنے سے رونق آگئی گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربانی
تیرا نقشہ ،تیرا جلوہ، تیری صورت ،تیری سیرت
تبسم ،گفتگو ،بندہ نواز ی، خندہ پیشانی
میں کیا کہوں کہ
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صو تِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
اِدھر سے اُدھرپھر گیا رخ ہوا کا
میں کیا کہوں کہ آپ بولیں تو بات بنتی ہے۔میں کیا کہوں کہ ان کی جادو گری کے ڈر سے لوگ شہر چھوڑ یں،اور حسنِ سلوک سے پلٹ آئیں۔میں کیا کہوں کہ جس نے عرب کے پہلو انوں کوعکاظ کے میلوں میں چت کیا تھا۔میں کیا کہوں کہ جس نے وادیءِ طائف میں پتھر تو کھائے لیکن بد دعائیں نہیں دیں۔میں کیا کہوں کہ گر وہ شہر فتح کر ے تو اک اک گھر کو’’ جائے امان‘‘ قرار دے دے۔ میں کیا کہوں کہ جو ’’فجار‘‘ کے لڑاکوں کو ایک چادر کے چاروں پلوؤ ں پر اکٹھا کر دے۔ میں کہا کہوں کہ جو شعبِ ابی طالب کی گھا ٹیوں میں’’ صبر و رضا‘‘ کی مثالیں قا ئم کر دے۔
میں کیا کہوں کہ
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیا ں سن کر دعائیں دیں
ارے میں کیا کہوں کہ میرے لفظ قاصر ہیں۔ارے میں کیا کہوں کہ
تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
ہو گئیں زندگیاں ختم ،قلم ٹوٹ گئے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں