قلب کی زبان

قلب کی زبان
’’ اگر آپ وہ حیات طیبہ حاصل کرنے کے خواہش مند یں جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے تو اس کو پانے کی صووت یہی ہے کہ اسے خدا سے مانگیں۔ مگر یاد رکھئے کہ خدا سے مانگنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دعا کے کچھ مقرر الفاظ یاد کر لیں اور اسے اپنی زبان سے دہرا دیا کریں۔ اس سے مانگنے کی زبان آپ کا قلب ہے ۔ خدا آپ کے لفظوں کو نہیں دیکھتا، وہ خود آپ کو دیکھتا ہے ۔
ایک بچہ اپنی ماں سے روٹی مانگے تو یہ ممکن نہیں کہ ماں اس کے ہاتھ میں انگارہ رکھ دے۔ خدا اپنے بندوں پر اس سے زیادہ مہربان ہے ۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ آپ خدا سے خشئیت مانگیں اور وہ آپ کو قساوت دے دے ۔ آپ خدا کی یاد مانگیں اور وہ آپ کو دنیا کی محبت میں ڈال دے ۔ آپ کیفیت سے بھری ہوئی دینداری مانگیں اور وہ آپ کو بے روح دینداری میں پڑا رہنے دے۔ آپ کی زندگی میں آپ کی مطلوب چیز کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے ابھی تک اس کو مانگا ہی نہیں۔
جو مانگے ،وہ کبھی محروم نہیں رہ سکتا۔ یاد رکھئے ، یہ مالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ وہ کسی بندے کو اس حال میں رہنے دے کہ قیامت میں جب خدا سے اس کا سامنا ہو تو وہ اپنے رب کو حسرت کی نظر سے دیکھے ، کہے کہ خدایا ، میں‌نے تجھ سے ایک چیز مانگی تھی، مگر تو نے مجھے نہیں دی۔ بخدا یہ ناممکن ہے ، یہ ناممکن ہے ، یہ ناممکن ہے ۔ کائنات کا مالک تو ہر صبح وشام اپنے سارے خزانے کے ساتھ آپ کے قریب آ کر آواز دیتا ہے :’’ کون ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے دوں۔‘‘ جنہیں‌لینا ہے وہ سو رہے ہوں‌ تو دینے والے کا کیا قصور۔ ‘‘

اخوان المسلمون کے بانی سربراہ سید حسن البنا شہید کی تقریر کا یہ ٹکڑا پڑھا تو دہل کر رہ گیا۔ واقعی یہ بات کس قدر درست ہے ۔۔۔۔۔۔۔ڈیلی ائکسپر یس کے مشہور کالم نگار جناب محمسد  عامر ہاشم خاکوانی کے فیس بک ستٹیٹس سے نقل کیا گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں