پی کے ۷۵۱۔۔۔۔بیک ٹو کو پن ہیگن

لاہور انٹر نیشنل ائیر پورٹ پر موجود ہوں۔۔۔اور پی آئی کی فلائیٹ ایک گھنٹہ تاخیر کا شکار ہے۔۔۔
اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
۔۔۔پروازوں کا لیٹ ہونا اور وہ بھی پاکستان میں ایک معمول کی کاروائی ہے، بلکہ عام سواریوں میں تو لوگ پلاننگ بھی ایسے کرتے ہیں جیسے کسی ولیمے میں شرکت کرنی ہو یعنی جو گاڑی چلنے کا وقت ہو اس پر گھر سے نکلا جائے۔۔۔۔۔۔۔پاکستان سے باہر یہ میرا دوسرا سفر ہے، اس کے علاوہ میں دس کے قریب انٹرنیشنل ائیرپورٹ دیکھ چکا ہوں لیکن مسافروں کا جانچ پڑتال کا جو طریقہ پاکستان میں مروجہ ہے ایسا بہت کم جگہوں پر ہے۔۔۔۔اس طریقہ میں گیٹ پر ایک گارڈ ائیرپورٹ پر آپ کی ٹکٹ اور پاسپورٹ دیکھ کر آپ کو احاطہ کے اندر داخل ہونے دیتا ہے، اس کے بعد ایک کاونٹر پر کسٹم کے ٓآفیسران تشریف رکھتے ہیں۔۔۔۔۔اور آج جو صاحب ڈیوٹی پر تھے انہوں نے انٹرویو کا آغاز کیا، کہاں جا رہے ہیں ، کیا کرتے ہیں۔۔۔انہوں کے بنا شرمائے کہا کچھ  عنایت کردیں جو روپوں کی صورت ہو، وگرنہ بیگ کھولیں گے اور۔۔۔۔۔۔ میں نے پانچ سو روپے پیش کیے اور انہوں نے بصد شکریہ قبول کیے۔۔۔۔اب اس کے بعد ایک صاحب اور کھڑے تھے انہوں نے ہمارا پاسپورٹ پر نظر فرمائی۔۔۔اس کے بعد سامان سکینگ کی طرف لا جایا گیا۔۔۔۔۔ اس کے بعد سامان بک کروانے کی قطار میں جا کھڑے ہوئے۔۔۔۔میرا سامان کچھ تھوڑا کم ہی تھا اس لئے، اس مرحلے پر جو پیسے وصول کیے جاتے ہیں اس پر تکرار کی نوبت ہی نہیں آئی۔۔۔سامان بک کروانے کے بعد پاسپورٹ کنٹرول والوں کے کاوینٹر کی طرف روانہ ہوئے، ان کا کاونٹر پر جانے سے پہلے دو دربان نما لوگوں نے تسلی کی کے ہمارے پاس پاسپورٹ ہے کہ نہیں۔۔۔۔اس کاونٹر پر گئے اور آفیسر نے پاسپورٹ کو دیکھا پرکھا، اس کو ریڈ ایبل مشین سے گزارا اور ہماری تصویر کھنچی اور آگے جانے کی اجازت دے۔۔۔اس کے بعد بھی ایک کاونٹر موجود تھا جو ایف آئی اے حکام کی زیر نگرانی تھا۔۔۔یہاں پھر پاسپورٹ دیکھا گیا، غور سے دیکھ کر چہرے سے چہرہ ملایا گیا۔۔۔اور ثابت ہونے پر کہ یہ ہم ہی ہیں آگے جانے کی اجازت دے دی گئی، اس کے بعد دوبارہ سامان کی سکینگ کی گئی، سکینر کے بعد ایک شخص نے پورے جسم پر ایک مساجئے کی طرح ہاتھ پھیرا۔۔۔۔اس کے بعد ایک اور کاونٹڑ تھا جس پر سامان کے ساتھ لگے ہویے ٹیگ میں سوراخ کئے گئے اور مہر تصدیق ثبت کی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد لاونچ میں جانے کی اجازت ملی، یہاں پہیچ کر بڑے بھائی کو فون کیا کہ ہم باخریت لاونچ میں ٓا گئے ہیں، انہوں نے بتایا کہ وہ بھی ائیرپورٹ سے گھر پہنچ گئے ہیں اور ان کا گھر ٹھوکر نیاز بیگ سے دو تین کلو میٹر آگے ہے۔۔۔۔۔ابھی  تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ سامنے سکرین پر آنا شروع ہو گیا کہ چیک ان شروع ہو چکا، چیک ان کاونٹر پر گیا تو انہوں نے بتایا کہ ابھی کچھ وقت دس بج کر چالیس منٹ جو جہاذ کے چلنے کا ٹائم تھا، لوگوں نے چیک ان کاونٹر کی طرف پیش قدمی کر دی۔۔۔۔۔عین آخری لمحے اعلان ہوا کہ کسی فنی خرابی بنا پر جہاز تاخیر کا شکار ہے۔۔۔۔جب اس تاخیر کا وقت بھی پورا ہوگیا اور لوگ پھر سے قطار اندر ہونے لگے تو پھر اعلان آیا کہ ہم معذرت خواہ ہیں، فلائٹ مزید ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔اعلان تو ہوا تھا اب فلائٹ بارہ بج کر چالیس منٹ پر چلے گی لیکن چیک ان کے سامنے جو کاونٹر اس پر لکھا آ رہا ہے کہ ٹایم ایک بجے ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی یہیں تک پات پہنچی ہے۔۔۔۔۔مزید جاننے کے لئےہمارے ساتھ رہیے۔۔۔

3 تبصرے:

  1. udhoori reh gai he rodad, phir kia hoa?

    جواب دیںحذف کریں
  2. آپ کی ادھوری بات پھی پوری ہوتی ہے اور بیشک حساس قارئین ، آپ کی تحریروں میں بین السطور بہت کچھ پا لیتے ہیں ، لیکن بھئی خدا لگتی کہیں تو وہ یہی ہے کہ بات پوری گریں ۔ یہ کیا کہ ہم سن رہے تھے اور آپ خود ہی سو گئے۔
    باقی راوی سب چین لکھتا ہے،
    والسلام
    نصر ملک
    کوپن ہیگن

    جواب دیںحذف کریں
  3. پھر یوں ہوا کہ جہاز چلا اور مہذب دنیا کہ مصنوعی جنت میں جا پہینچا، اپنا ہنر بیچنے روز بازار جاتا ہوں مگر اس جنس کا کویئ خریدار نہیں۔۔۔کس کو فرصت کے مجھ سے پوچھے کہ میری آنکھیں گلاب کیوں ہیں۔۔۔۔روز خود کو جمع کرتا ہوں جوڑتا ہوں اور اور کسی نئے ستم کے لئے خود کو تیار کرتا ہوں۔۔۔۔سوچتا ہوں کہ اپنے زخم نمائیش پر لگانے لگاوں بھی تو کیوں اس لئے خاموش ہوں۔۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں