فتوی جرم ضعیفی ۔۔۔۔افسوس صد افسوس

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضیعفی کی سزا، مرگ مفاجات
وہ ایک بھیڑے اور میمنے کی  کہانی کسی نصابی کتاب کا حصہ تھی جس میں بھیڑیا میمنے سے پانی گندہ کرنے کا گلہ کرتا ہے اور پاداش میں اس کی دعوت اڑانا چاہتا ہے ۔۔۔جب بھیڑیا دلائل کی جنگ ہار جاتا ہے تو کہتا ہے تم نے نہیں تو تمہارے باپ نے کیا ہو گا اور یہ کہہ کر میمنے پر حملہ کر دیتا ہے۔۔۔۔۔
تہذیب، اقدار، اخلاقیات اصول قسم کی چیزیں اس دنیا میں موجود ہیں لیکن اس کی تعریف اور تشریح وہی ہے جو وقت کا حاکم کرتا ہے۔۔۔۔ابھی آج کے دور کی تہذیب امریکہ اور یورپ کی ترتیب شدہ ہے جس کے مطابق جاہلانِ وقت میں ابھی مزید برداشت کی استطاعت پیدہ کرنا ہے۔۔۔ابھی اس رسی میں جلنے کے بعد کچھ بل باقی ہیں، یہ دنیا کی تیسرے درجے کی مخلوق جو اپنی شناخت، عظمت اور عزت تو کب کی فراموش کر چکی تھی پھر اس کے ماں اورباپ کی گالیوں سے نوازہ گیا۔۔۔۔۔کہ یہ وہی لوگ ہیں جوچند سکوں میں ماں بیچ دیتے ہیں۔۔۔۔پھر یہ گالی بھی بے اثر ہو گئی تو اہل تہذیب کو پتا چلا کہ ان کمی کمینوں کو
 اپنے مذہب پر بڑا ناز ہے تو آج کل ہماری برداشت کا امتحان مذہب کے میدان میں کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔
وہ نام نہاد تہذیب یافتہ معاشرہ جہاں کتوں کے احساسات اور جذبات کا بھی خیال رکھا جاتا ہو، جہاں عام دنوں میں رات بھیگنے پر عمارتوں کی سیڑھیوں پر آہستگی سے چلا جاتا ہو کہ ہمسائے کے آرام میں خلل نہ آئے، نشے کے عادی افراد کے لئے حکومت ، ،نشہ کرنے کہ جگہ مہیا کرتی ہو، ایک پیدل چلنے والے کی عزت گاڑی والے سے زیادہ ہو ، زور سے ہارن بجانا گالی تصور کیا جاتا ہو، لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل دینے کا تصور نہ وہاں پر لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہمارے ہمسائے
میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لئے کوئی خاص جذبہ کوئی خاص معنی رکھتا ہے۔۔۔۔کہ۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں چند ایسے روایت پسند ایسے بھی ہیں جن کے لئے مذہب آج بھی کچھ معنی رکھتا ہے، وہ آج بھی اپنی مذہب کی تعلیمات پر چلنے پر مصر ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے مذہب کا پیامبر جو اب ان میں نہیں ہے اگر اس کی شان میں گستاخی کی جائے تو یہ کم حوصلہ برا مناتے ہیں۔۔۔۔۔وہ بھی کبھی ایسے ہی جاہل تھے لیکن انہوں نے اب ترقی کر لی ہے اب زمانے کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ بھی نئے زمانے کی روش سیکھیں۔۔۔۔۔۔
اب اگر مان بھی لیا جائے اس مہذب معاشروں کے مقابل ہم پیچھے رہ گئے ہیں اور ہم نے کچھ اندھی روایات کو سینے سے لگایا ہوا ہے تو یہ تہذیب یافتہ دینا کیا ہمیں انسان بھی نہیں سمجھتی ۔۔۔کیا ہم ان کے پالتو کتوں سے بھی بدتر ہیں جن کے یہ ناز اٹھاتے نہیں تھکتے۔۔۔۔کیا اس دینا میں مسلمان ہونے کے بعد حقوق ختم ہو جاتے ہیں اور ہم پر یہ لاگو ہو جاتا ہے کہ ہم دنیا کو انہی لوگوں کی آنکھوں سے دیکھیں۔۔۔۔
مجھے یقین ہو چلا ہے کہ دنیا کہ طاقتور قومیں مسلمانوں کو جانوروں سے بھی پرلے درجے کوئی مخلوق سمجھتے ہیں، جن کے جذبات، احساسات، مذہب، اخلاقیات ان یرقان زدہ آنکھوں والوں کو دکھائی ہی نہیں دیتے۔۔۔۔۔ورنہ کروڑوں لوگ سڑکوں پر آ ٓآ کر ان کو بتا چکے ہیں کہ ہمارے نبیﷺ  کی شان میں گستاخی نہ کریں لیکن ان کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی بلکہ یہ اپنے مذاق کو توہین کی حد تک لے آئے۔۔۔۔۔
مجھے یہ خبر ہے یہ ان باتوں کو سمجھنا بھی نہیں چاہتے کیونکہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔۔۔۔۔

پچھلے دنوں کوپن ہیگن میں گستاخ رسول کی مذمت کے لئے امریکی ایمبیسی کے سامنے ایک احتجاج کا حصہ بنا۔۔۔۔۔رنگ ونسل  ۔۔سے بہت بالا، مسلمان اپنے نبیﷺ کی تکریم اور حرمت کے تحفظ کے لئے اکھٹے ہوئے
بے شمار ممالک کے کروڑوں لوگوں نے صدائے احتجاج بلند کی ہے مگر اپنی تراشیدہ تہذیب کے دبیز پردوں سے پرے یہ مہذب دنیا نجانے کب دیکھے گی۔۔۔۔۔اس انسان نما مخلوق کے احساسات کو کب تسلیم کرے گی جو نبی رحمتﷺ کے نام لیوا ہیں۔۔۔۔کرے بھی یا صرف اپنی طاقت کے زعم میں اگلے وار کی تیاری کرے گی۔۔۔۔اگر حالات اسی نہج پر چلتے رہے تو آنے والے دنوں میں پھر کئی اور جگ ہنسائیاں مسلمانوں کا مقدر ہیں۔۔۔۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں