درویش پی ٹی آئی اور لیلائے ٹکٹ

کہا تھا میں نے پیپل کی چھاوں میں مت بیٹھو۔۔۔کہ اس پیڑ تلے تم اگ نہیں پاو گے۔۔۔بڑھ نہیں پاو گے۔۔۔لیکن اس نے کشاں کشاں ہاشمی کا ہاتھ تھامے رکھا۔۔۔اس کو پورا یقین تھا کہ اس کی ہمسفری کومثال سمجھا جائے گا۔۔۔۔اوراس کو یہ بھی خیال تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ ہاشمی ہلا تو ساتھ میں کسی پتھر کسی کنکر کو خبر بھی نہ ہوئی۔۔۔۔وہ اس ریلے میں بہا نہیں تھا بلکہ اس نے ایک اصولی فیصلہ کیا کہ ہاشمی کا دامن نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔۔اور کراچی میں جاوید ہاشمی کا استقبال تو ہوا مگر کسی کو خبر تک نہ ہوئی کی شاہد محمود خاں بھی تاج و تخت کو ٹھوکر لگا کر آیا ہے۔۔۔اس نے ایک دو دفعہ ہاشمی کا پہلو تھاما لیکن اس پذیرائی میں اتنی لذت تھی کہ شاہد محمود کدھر گیا کسی کو پتا تک نہ تھا۔۔۔استقبال کے ترانے
Shahid Mehmood Khan x MPA from PP 174
گانے والوں نے بھی اس کے نام کو دہرانا مناسب نہ سمجھا کیونکہ سورج کی روشنی کے ساتھ چلتا ہوا چراغ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس سے کہا تھا ابھی وقت عروج ہے ابھی چار دن مزے کرو۔۔۔اب ترقیاتی فنڈز کی بارش میں نہانے کا وقت آئے گا ۔۔۔۔ابھی یہ ایم پی اے شپ کی چاندنی میں نہاو۔۔۔ہم بھی کہیں گے کہ ہمارا دوست ایم پی اے ہے۔۔۔لیکن اس کو تحریک کے نعروں کی چاٹ لگ گئی تھی۔۔۔اس کو عمران خان میں تبدیلی کی تعبیر نظر آنے لگی تھی ۔۔۔اور جب جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی میں آنے کا فیصلہ کیا تو اس کو بھی روشنی کی ایک نوید نظر آئی اور وہ بھی چپکے سے اس باغی کے ہمراہ ہو لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یہاں کوپن ہیگن آیا تو میں نے اس سے کہا کچھ دوستوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں لیکن اس نے منع کردیا کہ نہیں مجھے اس شہر کو دیکھنا ہے ۔۔۔یہ دیکھنا ہے کہ ہم سے اسقدر آگے کیونکر ہیں۔۔۔اس کے سوال عجیب سے تھے۔۔۔یہاں کی معیشت کیسے چلتی ہے ۔۔۔انڈسری، ایکسپورٹ ، کیا ہے۔۔۔نظام سفر کیسا ہے۔۔۔ٹرین میں سفر کروں گا۔۔۔۔سروس کمپنی کے سادہ سے جوگنگ شوز، ٹریک سوٹ قسم کے لباس میں ملبوس شخص کسی طور پر بھی پاکستان کی کسی حکومت کا ایم پی اے معلوم ہی نہ ہوتا تھا۔۔۔۔مجھے پانی کی بوتل۔۔ذائقہ دار دہی کا پیک کھانے میں چاہیے اور کچھ نہیں۔۔۔۔دوپہر کا کھانا ۔نہیں کھانا۔۔۔صرف ناشتے سے سارا دن چلنا ہے۔۔کچھ ایک آدھ تصویریں بنا لیں۔۔۔نہیں مجھے تصاویر کا بالکل شوق نہیں۔۔۔ایسا بزرگ طبع نوجوان میرے لئے ایک عجیب تجربہ تھا ۔۔۔
اپنے پاکستان کے حالیہ وزٹ میں اس سے ملنے پہلی دفعہ اس کے گھر گیا تو پتہ چلا کہ اوپر چلے جائیں سیڑھیاں چڑھ کر دائیں ہاتھ جو کمرہ ہے وہاں ہوں گے۔۔۔کمرے سے باہر چار پانچ افراد ایک برآمدہ نما جگہ پر بیٹھے تھے ۔۔۔انہوں نے بتایا کہ ابھی ٹھہریں کمرے میں کوئی ہے ۔۔۔میں نے ہنستے ہوئے کہا بھائی کوئی لڑکی تو نہیں ہے ۔۔۔بے اختیار ایک نے جواب دیا لڑکیوں والا اپم پی اے یہ نہیں ہے۔۔۔تھوڑی دیر بعد اندر گیا تو ایک قالین پر دو گدوں کے سوا بیٹھنے کی کوئی جگہ نہ تھئ ، ناشتے میں حضرت عثمان غنی کے باغ کی کھجوریں۔۔۔انجیر ۔۔۔اور آب زم زم ۔۔۔کہنے لگے میرے گھر میں کبھی آب زم زم ختم نہیں ہوتا۔۔۔۔مجھے ایک لمحے لو لگا میں کسی غلط جگہ آ گیا ہوں۔۔۔۔ایسے عجیب لوگ بھی ملک کے حکمرانوں میں موجود ہیں۔۔۔
میں نے سوشل میڈیا کہ اہمیت پر کچھ گذارشات کی تو ان کا کہنا تھا یہ فضول کام ہے اور وقت کا زیاع ہے۔۔میرا موقف تھا کہ آپ ہر کسی کو اپروچ نہیں کر سکتے اور ان کا دعوی تھا کہ وہ ہر کسی کے ہاں پہنچیں گے۔۔۔۔میرے اصرار پر ایک دو تصاویر بنوالیں لیکن سوشل میڈیا پر قائل پھر نہ ہوئے ۔۔۔۔۔۔
پچھلے چند دنوں سے کچھ ڈانواں ڈول سے پھرتے ہیں۔۔سنا ہے کہ پی ٹی آئی ان کے حلقہ انتخاب پی پی ایک سو چورانوے سے نواب ظہیر الدین علے زئی کو ٹکٹ دینے کی سوچ میں ہے۔۔۔سنا ہے نواب صاحب نے کچھ عرصہ پہلے پرکھوں کی زمین بیچ باٹ کر انتخاب پر لگانے کی ٹھانی ہے۔۔۔۔اور ان کروڑوں میں سے کس کس بزرگ سیاستدان کی محبت خرید کر وہ پارٹی ٹکٹ کا راستہ ہموار کریں گےیہ آنے والے دنوں میں سب پر عیاں ہوجائے گا۔۔۔
اور شاہد محمود میرے بھائی تمہارے ساتھ کیا ہو گا اس کا ابھی مجھے انتظار ہے۔۔اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں جو عمران خان نے لوگوں سے کیا تھا کہ اقتدار کو ٹھوکر لگا کر پی ٹی آئی کا دست وبازو بننے والوں کو بھلایا نہیں جائے گا۔۔۔۔میرا خیال یہ ہےکہ خان کو اپنا وعدہ یاد تو ہوگا۔۔۔اور جن کا دامن تھام کر تم کراچی گئے تھے ان کو ایک بار ان انعام و کرام کی بارشوں کے متعلق ضرور سوچنا چاہیے جن کو ٹھکرا کر تم نے تحریک کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں