الیکشن فلم ۲۰۱۳۔۔۔۔۔سیکوئل۔۔۔۔۔

نجانے کیوں کچھ لوگ فیصلہ سنا چکے کہ اب الیکشن ایک گھوڑے کی دوڑ ہے۔۔۔وہ اس فلم کو سالوں سے چلتا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ان کو پتہ ہے کس موڑ اور کھائی کے بعد ہیرو کا گھوڑا گرے گا اور دشمن پوری طاقت کے ساتھ اس پر چڑھ دوڑے گا۔۔۔۔پھر کچھ دیر لاٹھیاں چلیں گی۔۔۔ہیرو بے جگری سے لڑے اور مر جائے گا۔۔۔اس کی لاش کی بے حرمتی کی
جائے گی اور اس کے غریب ہمنوا بس سر جھکائے آنسو بہاتے رہ جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس الیکشن میں جاگیردار کا رول نواز شریف کے پاس ہے اور عمران خان گاوں کا جوشیلہ جوان جو ہر ظلم زیادتی کے خلاف خوامخوہ وڈیروں سے پنگا لے لیتا ہے۔۔۔۔۔بھائی تجھے پرائی کیا پڑی ۔۔۔اپنی نبیڑ تو۔۔۔۔۔۔۔اور بے حس گاوں والے ایک بسنتی کے بعد دوسری بسنتی پیش کرنے کو تیا ر ہیں لیکن جاگیردار کے خلاف اٹھنے کو تیار نہیں۔۔۔۔ان کا رازق، خالق، مالک سب کچھ یہی ناخدا ہیں۔۔۔۔جو لوگ جاگیرداروں کے ساتھی ہیں وہ مزے میں ہیں۔۔۔ان کو پتہ ہے کہ ٹھیک کون ہے۔۔۔۔لیکن ان کو زندگی گذارنا آتی ہے۔۔ان کو پتہ کہ سورج کا رخ کس سمت ہے۔۔۔۔اور مزاج شاہی کی خواہش کے سامنے جھکنا، بچھنا انہیں خوب آتا ہے۔۔۔۔ان کو فائدہ ہے۔۔۔اس لئے وہ ظلم کے خلاف گواہی نہیں دیں گے۔۔۔۔اور پھر یونہی زندگی کی فلم کسی نہ کسی ان دیکھے موڑ پر ختم ہو جائے گی۔۔۔۔۔
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فلموں کا زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔۔۔وہ بھی ٹھیک کہتے ہوں گے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ فلم زندگی کے کسی نہ کسی حصے سے ماخوذ ضرور ہوتی ہے ۔۔۔اس کا تھوڑا بہت کوئی نہ کوئی تعلق زندگی سے ضرور ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
آج کے دن میں شر کی سبھی طاقتیں جاگیرداروں کی مٹھی میں ہیں۔۔۔۔علاقے کا ہر غنڈا کسی نہ کسی طرح ان کے قابو میں ہے۔۔۔۔شہر کا ہر باوسیلہ شخص کسی نہ کسی صورت ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔۔۔جو دوسری طرف غریب لوگوں ہیں جنہوں نے چندہ جمع کرکے کچھ بندوقیں، چاقو لے تو لئے ہیں۔۔۔لیکن اب بھی اس ڈر میں ہیں کہ مقابلہ ہوا تو کیا ہو گا۔۔۔۔
اور وہ ایک بے چارہ جس نے دو چار لوگوں کو ضمیر جگا کر ساتھ جوڑا تھا۔۔۔۔اس کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔۔اب اس کو ڈر یہ بھی ہے کہ مسجد کا ملا بھی جاگیردار سے جا ملا ہے۔۔۔اب اس پر مذہب سے انحراف کا ٹھپہ تو پکا ہے۔۔۔۔اب اس پر آنے والے ہر غم کو قہر الہی سے تعبیر کیا جائے گا۔۔۔اور اس کی ہر خوشی میں فرعونیت کی جھلک دکھائی جائے گی۔۔۔۔جو چند سادہ لوح ہیں ان کا فائد ہ ہی سادہ لوح بنے رہنے میں ہے۔۔۔۔۔جو صرف زندگی بسر کرنے آئے ہیں وہ کسی سے اختلاف کیونکر مول لے سکتے ہیں۔۔۔۔
آج کی اس کہانی میں کہانی لکھنے والوں نے جو لکھا وہ بیان کر رہے ہیں۔۔۔کہ بس اب یہ ہوا چاہتا ہے۔۔۔۔بس ایک کھائی آئے گی اور ہیرو منہ کے بل جا گرے۔۔۔ہر چیز سچوئشن کے عین مطابق ہے۔۔۔۔۔اور ہم ایسے سادہ لوح اب بھی دعائیں کر رہے ہیں کہ اس دفعہ ہیرو کا گھوڑا کسی طرح سے بچ جائے۔۔۔۔کہ اب کی بار آنسو بہانے کو دل نہیں چاہتا۔۔۔۔وہ فلم جو سالوں سے میرے ملک کے سینما میں چل رہی ہے اس کا اختتام کچھ اور ہونا چاہیے۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں