ایک پردیسی کا کتھارسس

photo by Asim Riaz
خود کو آئینے میں دیکھتا ہوں تو اس سے مختلف پاتا ہوں جیسا میں نے خود کے بارے سوچا تھا۔۔وہ جو اپنی ایک اچھی تصویر میرے اپنے ذہن میں تھی میری یہ صورت اب اس شکل سے ملاپ نہیں کھاتی۔۔۔۔وہ جو سارے دعوے وقتا فوقتا اپنے بارے میں میں نے کیے تھے وہ کافی حد تک ٹھیک نہیں لگتے ویسے تو سینے پر ہاتھ مار کر اپنی ذات کے حوالے سے کوئی دعوی کرنے کے بچپنے سے اب کافی باہر آگیا ہوں لیکن پھر بھی کچھ دعووں کی کسک ابھی ذہن میں سوئیاں چبھوتی ہے۔۔۔وطن سے محبت کا جو مجھے دعوی تھا اب اس پر وقت کی گرد تہیں جماتی چلی جاتی ہے اور وطن سے کشش لمحہ لمحہ کم محسوس ہوتی ہے۔۔۔یہ جو لوگ دیس کی گلیوں میں بارود کا کاروبار کئے جاتے ہیں، اور عصمتوں کے محافظ ہی ان کے لٹیرے بنے جاتے ہیں۔ انصاف اب نایاب ہوا جاتا ہے، سنگ وخشت مقید اور سگ آزاد وغیرہ کی داستانوں سے دل کو لبھانے کے بعد خود کو قائل کرتا چلا جاتا ہوں کہ ایک میرے بدل جانے سے کیا تبدیل ہو گا ۔۔یہ طاقتور اور اجارہ دار لوگوں کی دنیاہے۔۔یہاں آواز اٹھانے کا بھی کیا فائدہ؟؟؟یہ نظام اسی طرح سے رہے گا۔۔۔ان غلام ذہنوں میں شعور کی کوئی رمق نہیں جاگے گی۔۔۔۔اس لئے تم اب
خاموش ہی رہو ۔۔تمہارے دیس کو پلٹ جانے کا کیا فائدہ ہو گا ۔۔۔بس اب یہیں بس جاو یہاں سے بیٹھ کر تم بہتر ملک کی خدمت کر سکتے ہو۔۔۔۔۔ان سوچوں کو سوچتا ہوں تو اس پردیسی کو یاد کرتا ہوں جو بس ایک نئی دنیا کے تعارف کے لئے اپنے وطن سے باہر نکلا تھا

1 تبصرہ:

  1. شکوہء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

    جواب دیںحذف کریں