پانی تو پی سکتے ہیں ناں؟؟؟؟؟؟؟؟

ایک ڈینش خاتون سے بات چل نکلی کہنے لگیں کہ سنا ہے مسلمان روزہ اس لئے رکھتے ہیں کہ وہ ناداروں، غریبوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کر سکیں۔۔۔لیکن جب شام ڈھلتی ہے اور تم لوگ اپنا پیٹ بھر لیتے ہو تو غریبوں  کا روزہ تو ویسا ہی رہتا ہے۔۔۔۔ان سے دن بھر کی یک جہتی چہ معنی؟؟؟؟؟؟؟
ایک روایتی مسلمان کی طرح میں نے کہا اسلام پر اگر عمل کیا جائے تو اکثریت کو کھانے کی بھوک سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔۔۔مسلمان پر اپنی آمدنی کا اڑھائی فیصد غریبوں پر بانٹنا فرض ہے اس لئے معاشرے میں ایسی تفریق پیدا نہیں ہوتی اور ویسے بھی میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اس مہینے بہت سے لوگ بڑی فیاضی سے مال و دولت تقسیم کرتے ہیں اس لئے پیٹ کے ایندھن کا کچھ نہ کچھ سامان ہو ہی جاتا ہے۔۔۔مسجدوں میں افطاری کا سامان مہیا ہوتا ہے جو ہر کس و ناکس کی پہنچ میں ہوتا ہے ۔۔۔۔

صدقہ فطر کی مثال فوری طور پر میرے ذہن میں نہیں آئی کہ یہ بھی غربا کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔
مزید انہوں نے آگاہی چاہی کہ پانی تو آپ پی ہی سکتے ہیں ناں؟؟؟؟ میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔فرمانے لگیں کہ ان کے دفتر میں کام کرنے والی ایک خاتون نے ان کو بتایا ہے کہ پانی وغیرہ پی سکتے ہیں۔ کھانا نہیں کھا سکتے۔۔کل یہی بات ایک اور ڈینش جاننے والے نے پوچھی اچھا پانی تو پی ہی لیتے ہیں ناں آپ؟؟ میں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے صاحب پانی بھی نہیں پیتے اور بہت سے کام جو عام دنوں میں جائز ہوتے ہیں ان دنوں میں نہیں کرسکتے حتی کہ رات نہ آ پہنچے۔۔۔۔۔۔۔
ایک بات جو میرے دل میں چبھی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے کچھ مسلمان دوست اپنی سہولت کی خاطر لوگوں کو نرم روزے کا تصور پیش کرنے کے چکر میں پانی پینے کی اجازت بتلانے لگے ہیں؟ یا خود نہ روزہ رکھنے کا عذرلنگ پیش کرنے کی بجائے جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔۔۔۔
لیکن کچھ بھی ہو وہ سوال اب بھی میرے لئے سوال ہی ہے کہ کیا ہم جن سے اظہار یک جہتی کر رہے ہیں۔۔۔ان لوگوں کے لئے کچھ ہم کر رہے ہیں کہ نہیں۔۔۔سچ پوچھئے روزہ تو میں بہت شوق سے رکھتا ہوں۔۔بچپن سے ماں باپ نےاس محبت سے یہ عادت ڈال دی کہ اب ہمت نہیں ہوتی کی روزہ خور ہو جاوں۔لیکن شام ڈھلے جب بھوک کا احساس ہوتا ہے تو میری اپنی بھوک ہی ہوتی ہے۔۔۔مجھے کسی بےکس کی بھوک کا خیال نہیں آتا۔۔۔اور جب افطار کے لئے میں اپنا دستر خوان سجاتا ہوں تب بھی ہزاروں کے افطار کی فکر نہیں ہوتی۔۔۔۔اس مہینے میں خرچ کرتے وقت سوچتا ہوں کہ کھل کر خرچ کرو ۔۔کوئی حساب نہیں ہوگا لیکن خرچ صرف اپنی ذات پر کرتا ہوں۔۔۔۔اپنے نئے کپڑوں۔۔۔نئی چیزوں سے متعلق سوچتا ہوں۔۔۔۔۔میرا یہ عادتا روزہ نجانے مذہب کی نظر میں کتنا وزن رکھتا ہے۔۔۔۔سنا ہے روزے کی جزا اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھی ہے۔۔وہ دلوں کے حال خوب جانتا ہے۔۔۔ہم ایسے خالی اعمال والے لوگ رحمت کی امید میں ایک رسی سے بندھے ہوئے ہیں۔۔۔اس ماہ بابرکت کے طفیل خدا تعالی مجھے اس احساس کی سمجھ عطا کرے جو اس روزے کا حسن اور روح ہے۔۔۔۔اور احساس کا محسوس بخشے جس کے لئے روزہ فرض کیا گیا ہے۔
آمین

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں