گمشدہ لمحے۔۔۔۔۔۔

اتفاقات زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتےتھے۔
غیر ذمہ داری، غیر حاضر دماغی کی جو اعلی مثال میں قائم کر چکا ہوں، اس پر کم لوگ ہی پہنچ پاتے ہیں، ابھی چھ ماہ پہلے اپنا پاسپورٹ کوپن ہیگن کے ہوائی اڈے پر بھول کر پاکستان جا پہنچا تھا اور ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اوسلو کو جاتے ہوئے اپنے جہاز پر پہنچنے سے لیٹ ہوا ۔۔۔اور مجھے پھر سے ٹکٹ خریدنا پڑی۔۔۔۔ایسے واقعات کبھی بھی میری زندگی کا حصہ نہ تھا۔۔۔۔۔ایسی غیر ذمہ داری جس کو کوئی توقع مجھے خود سے نہیں تھی مجھ سے سرزد ہو گئی ، اگلی فلائٹ کے انتظار میں گذارے تین گھنٹے ان اسباب کا جائزہ لیتا رہا جس کی بنا پر میں جہاز پر تاخیر سے پہنچا۔۔۔۔۔۔۔سب سے پہلی غلطی کے گھر سے بہت تاخیر سے نکلا۔۔۔۔جہاز چلنے سے تیس سے چالیس منٹ پہلے میں ائیر پورٹ پر گیا۔۔۔۔۔۔۔دوسری غلطی کے بورڈنگ پاس حاصل نہ کیا بلکے موبائل پر موجود سکین کوڈ پر ہی انحصار کیا۔۔۔۔۔۔تیسری غلطی کہ اپنے معمول کے مطابق ڈیوٹی فری شاپ سے ونڈو شاپنگ کی۔۔۔۔۔۔اور پھر ٹکٹ کو دوبارہ پڑھے بغیر اپنے گیٹ نمبر اٹھارہ کی طرف روانہ ہو گیا۔۔۔۔۔وہ راستہ جو پاکستان کی فلائٹ کی طرف جاتا تھا۔۔۔۔۔ٹھیک اس قطار سے پہلے جہاں کوپن ہیگن سے ایگزٹ کی مہر لگائی جاتی ہے ایک دفعہ ذہن میں خیال بھی آیا کہ پہلے کبھی بھی اوسلو جانے کے لئے اس مرحلے سے نہیں گذرا لیکن فورا ہی ذہن نے دلیل تراشی کہ ہو سکتا ہے کہ اب سب کو اس دروازے سے گذرنا پڑتا ہو۔۔۔۔۔ایگزٹ کی مہر لگانے والے مہربان آفیسر سے پاسپورٹ دیکھا ۔۔۔اور فورا ایگزٹ کی مہر لگا کر سر راہے پوچھا پاکستان جا رہے ہو ۔۔۔میں نے کہا نہیں اوسلو جا رہا ہوں۔۔۔۔اس کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔اس نے کہا آپ غلط گیٹ پر آگئے ہیں۔۔۔میرے کانوں کو یقین نہیں آیا میں نے کہا گیٹ نمر اٹھارہ لکھا ہوا ہے اور وہ تو اسی طرف ہے اور وہ ڈائریکشن کا بورڈ دیکھئے۔۔۔۔۔اس نے کہا گیٹ نمبر کے ساتھ کچھ اے، بی ، سی کچھ اور بھی ہوگا۔۔۔۔۔اس نے فورا مہربانی کے انداز میں مجھے کسی قریبی ٹریفک بورڈ دیکھنے کا مشورہ دیا۔۔۔۔۔ٹایم کے گذرنے کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔۔۔۔نجانے کیوں میرے لاشعور میں تھا کہ جب بھی ائرپورٹ آتا ہوں تو میرے پاس بہت ٹائم ہوتا ہے۔۔۔۔۔شیڈول کے لئے بورڈ سے رجوع کیا تو بالکل سامنے لکھا تھا کہ ساڑھے تین کی فلائٹ اوسلو کے لئے بورڈنگ ہو رہی ہے اور گیٹ کا نمبر بی۔۔ آٹھ ہے۔۔۔۔۔میں اس گیٹ تک پہینچا۔۔۔اپنے موبائل سے سکین کوڈ نکلا کر ان کو پیش کیا تو پتا چلا کہ فلائٹ تو اوسلو کی ہی ہے، ٹائم بھی ٹھیک وہی ہے لیکن کمپنی کا فرق ہے۔۔۔یہاں جہاز ایس اے ایس کا ہے اور میری ٹکٹ نارویجئن ایر لائن کی ہے۔۔۔۔۔پھر سے شیڈول کا بورڈ دیکھا تو پتہ چلا کہ وہ فلائٹ بھی بورڈنگ کے مراحل میں ہے۔۔۔۔۔دس منٹ پہلے میں اس مطلوبہ گیٹ تک بھی پہنچ گیا۔۔۔۔نجانے کیوں یقین سا تھا کہ یہ جہاز مجھے لیجائے بغیر نہ جائے گا۔۔۔۔کیونکہ مختلف ناموں کی ہونے والی اناونسمنٹ مجھے یقین دلا رہی تھی کہ اگر جہاز کو جلدی ہوئی تو ابھی میرا نام بھی پکارا جائے گا۔۔۔۔۔۔گیٹ پر گیا تو وہ موجود اٹینڈنٹ نے بتایا کہ اس کے پاس مسافر پورے ہیں کوئی کم نہیں اور ویسے بھی بورڈنگ پوری ہو چکی ہے اب آپ ائر لائن سے رابطہ کریں۔۔۔۔۔جہاز کے دروازے ابھی بند نہ ہوئے تھے۔۔۔۔۔اور جہاز وہیں کھڑا تھا۔۔۔۔۔ان کی فہرست میں کوئی مسافر کم کیوں نہ تھا اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ائیرلائن کا دیا گیا نمبر سولہ مرتبہ ڈائل کیا ۔۔۔لیکن نمبر مل ہی نہ پا رہا تھا۔۔۔جب تک میں ائیر لائن کے ہیڈ آفس رابطہ کرتا۔۔۔جہازپرواز کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ٹیلی فون پر نئی فلائٹ کی ٹکٹ بک کروائی اور تین گھنٹے تاخیر سے منزل پر آپہینچا اور اپنی غلطی کی سراغ میں ہوں۔۔۔۔کیا ائیر پورٹ پر جا کر پاکستان جانا میرے ذہن پر سوار ہوچکا تھا۔۔۔۔وہ کیا خیالات سے جنہوں نے مجھے اس وقت کے خاص لمحے میں بالکل اندھا کر دیا تھا۔۔۔میرے ذہن کی ساری وسعت سے باہر وہ لمحات جن میں منزل کا راستہ بالکل بھول چکا تھا مجھ پر کیونکر طاری ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ایک ہفتہ گذرنے کے بعد بھی مجھے اس بات کا یقین نہیں آتا کہ ایسا ایک واقعہ میرے ساتھ ہی پیش آیا ہے۔۔۔۔وہ لمحے جن میں میں گمشدہ تھا۔۔۔۔وہ گمشدہ لمحے میرے گمان سے باہر ہیں۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں