تلاش گمشدہ ۔۔۔۔۔۔۔

کشت نو والی تصویر سے کافی بہتر تصویر
جامعہ زرعیہ فیصل آباد میری مادر علمی ہے، ہر طالب علم کی طرح اس سنہرے دور کے بے شمار یادیں آنکھوں کے پردوں پر دستک دیتی ہیں اور چند لمحوں کو یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہو جیسے۔۔۔۔۔۔۔جامعہ زرعیہ ہر سال ایک ادبی میگزین کا بھی اہتمام کرتی ہے جس کا نام کشت نو ہے۔ اس کے اس وقت کے کسی ایڈیٹر نے اپنے دوستوں کو خوش کرنے کے لئے ایک آدھ صفحے پر جامعہ کے درخشندہ ستارے کے نام سے ایک جگہ رکھی ہوئی تھی۔۔۔کسی نہ کسی واسطے سے ہماری بھی ایک تصویر کشت نو میں چھپ گئی ۔۔۔لیکن دشمن نما دوستوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے کشت نو کے اس شمارے سے یہ تصویر کاٹ کر ایک تلاش گمشدہ کا ایک اشتہارترتیب دیا۔۔۔اس کی عبارت کے چند فقرے آج بھی ایک لمحے کو مسکراہٹ دے جاتے ہیں۔۔۔

منہ لسی سے دھلا ہوا، مونچھیں براڈ کاسٹ میتھڈ سے اگی ہوئی ، کل شام فاطمہ ہال کی طرف جاتا ہوا دکھائی دیا ہے اس کے بعد اب تک لاپتہ ہے۔۔۔۔۔
اب بھی کبھی کبھی اپنی مونچھیں دیکھ کر خود ہی ہنس پڑتا ہوں، مونچھیں براڈ کاسٹ میتھڈ سے اگی ہوئی ۔۔۔۔جو لوگ زراعت سے تعلق نہیں رکھتے وہ اس طریقہ کاشت کو سمجھنے کے لئے انٹرنیٹ کا سہارا لے سکتے ہیں، یا پھر میری مونچھیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔
پہلی قطار۔دائیں طرف سے دوسرا شخص۔براڈ کاسٹڈ مونچھیں۔
یہ واقعہ یہیں اختتام نہیں ہوا، مجھے ہمارے ایک سنیئیر جناب رازی صاحب نے خبر دی کہ سارے کیمپس میں آپ کی گمشدگی ہ کے اشتہار لگے ہوئے ہیں، وہ عمر ایسی تھی کہ جی چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں، میں نے اس بات کو سنی ان سنی کردیا۔۔۔۔۔میں ہارٹیکلچر کی کلاس پڑھ رہا تھا کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کے ایک استاد صاحب کا بلاوہ آ گیا کہ کلاس چھوڑ کر ان کے حضور حاظر ہوں، یہ صاحب اس وقت کے ڈپٹی ہال وارڈن یا اسی طرح کے کسی اور انتظامی عہدے پر بھی متمکن تھے۔۔۔انہوں نے اس سارے معاملہ پر روشنی ڈالی کہ کہ کس طرح یہ اشتہار بازی میرے خلاف جاسکتی ہے۔۔۔اور مجھے سے مشکوک لوگوں کے نام چاہے۔۔۔۔میں نےحسن منیر باجوہ جو اس وقت ایگرین سوسائٹی کا روح رواں تھا اس کا نام لیا ۔۔۔کیونکہ جو اشہار مجھے دکھایا گیا تھا وہ دو سائیڈز سے چھپا ہوا تھا اور ایک طرف والا کاغذ ایگرین سوسائٹئ کے پیڈ سے لیا گیا تھا۔۔۔

ان استاد صاحب نے فورا باجوہ کا نام ایک کاغذ پر لکھ لیا ، سرے راہے انہوں نے ایگرین سوسائٹی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ یہ لوگ اساتذہ کی عزت نہیں کرتے، صرف ڈین ایگری کلچر ڈاکٹر طاہر صاحب کے چہیتے ہی وغیروغیرہ، اور مجھے اپنی پوری مدد کا یقین دلایا۔۔میں نے ان مشورہ چاہا توانہوں نے دبے الفاظ میں ایگرین سوسائٹی کے خلاف ایک درخوست بنام وائس چانسلر دینے کے تاکید کی۔۔۔۔
مجھے جس طرح کلاس سے بلا کر نصیحت کی گئی تو میں تھوڑا پریشان ہوا، ، اس وقت کے سنیر ٹیوٹر ملک اصغر صاحب سے بات کرنے کا سوچا جو مجھے پر بہت مہربان رہے۔۔۔جب ان کے آفس پہنچا اور روداد سنائی تو پتہ چلا باجوہ صاحب ملک صاحب کے دفتر جا کر پہلے ہی صفائی پیش کر آئے ہیں کہ انہوں نے نہ ان کی سوسائٹی نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔۔۔۔مجھے اور بھی تشویش ہوئی کہ صاحب ابھی میری کسی سے بات نہیں ہوئی اور باجوہ صاحب صفائیاں دیتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔کوئی چکر ضرور ہے۔۔۔۔۔میں وہاں سے ڈی ایس کے آفس آیا۔۔۔جو اس زمانے میں سعید خاں صاحب ہوا کرتے تھے۔۔۔۔۔آفس سے پتہ چلا کہ اس معاملہ کی انکوائری رائے نیاز صاحب کو بھیج دی گئی ہے۔۔۔۔میری پریشانی اور بڑھ گئی ۔۔۔ایک تو میرا اشتہار لگا چھوڑا اور اوپر سے بات انکوائرئ تک چلی گئی۔۔۔
اسی آفس کے باہر میری ایگرین سوسائٹی کے چند لوگوں سے مڈبھیڑ ہوگئی۔۔۔اپنی بساط بھر میں نے ان پر اپنے غصے کا اظہار کیا اور ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں وغیرہ بھی دیں۔۔۔۔
میں نے پکا ذہن بنا لیا کہ اب ایگرین سوسائٹی کے خلاف درخوست جائے ای جائے۔۔۔۔مختلف سوسائٹیز میں کلیدی مقام ہونے کے پیش نظر ہماری درخوست کی پہنچ وائس چانسلر تک لے جانا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔۔۔۔خیر میں انکوائری آفیسر جناب رائے نیاز صاحب کے دفتر گیا۔۔ان سے معاملہ کی بابت دریافت کیا ، انہوں نے پوچھا کہ تمہیں کسی پر شک ہے تو بتاو۔۔۔۔ وگرنہ یہ تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔ان کے جواب سے مجھے کوئی تسلی ہوئی وگرنہ مجھے سارے معاملات سے یوں لگ رہا تھا کہ میرے خلاف کوئی سازش بنی جارہی ہے۔۔۔۔۔
اسی اثنا میں محسن بھائی جو ایگرین سوسائٹی کے صدر سے مجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے آ پہنچے۔۔۔میں نے ان کو ایک اچھا، سمجھدار اور ہمدرد آدمی سمجھتا تھا۔۔۔۔انہوں نے مجھے سمجھایا کہ سوسائٹی کی خلاف درخواست دینا مناسب نہیں ہے۔۔۔جو بھی معاملہ ہے مل بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔۔۔کراپ فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سامنے والے پلاٹ میں ہم فریقین آمنے سامنے آ بیٹھے اور سوسائٹی کے لوگوں نے حلفیہ کہا کہ انہوں نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی اور میں نے انہیں معاف کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بات کے قریبا ایک سال بعد ہمارا کلاس ٹور مری کی طرف گیا۔۔۔۔۔اور ہمارے وہی استاد صاحب جو مجھ سے ایگرین سوسائٹی کے خلاف درخواست دلوانا چاہتے تھے ۔۔۔اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ اچھا ہوا کہ تم لوگوں نے صلح کر لی وگرنہ معاملہ انتظامیہ کے پاس آتا تو ہم نے تو کچھ نہ کچھ نکال ہی لینا تھا۔۔۔۔
کافی عرصے تک میں ان چھوٹے چھوٹے واقعات کی بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔ایک تصویر جو مجھے کافی قریب لگتی ہے کہ جس دن تلاش گمشدہ کے اشتہارات لگائے گئے اس سے ٹھیک ایک دن پہلے ایگرین سوسائٹی کاایک فنکشن تھا اور اس میں ڈین ایگری کلچر مدعو تھے۔۔۔انہوں نے انتظامیہ کے بہت سے لوگوں کو بلانا گوارہ نہ کیا تھا اور اسی فنکشن کے دوران تین دفعہ بجلی کا رابطہ بھی منقطع ہو گیا تھا ، حالانکہ کہ اس زمانے میں لوڈ شیڈنگ کا رواج آجکل کی طرح نہ تھا۔۔۔اور انتظامیہ کے لوگ اس واقعہ کی آڑ میں ایگرین سوسائٹی کے پر کاٹنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔اپنی عزت اور انا کی جنگ میں طلبہ کو مہروں کی طرح استعمال کرنا جامعہ کے پرانے جگادری خوب جانتے ہیں۔۔۔۔مگر وہ مصنف جس نے میری مونچھوں کے طریقہ کاشت پر سے روشنی ڈالی آج تک گمشدہ ہے؟؟؟؟؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں