سفر اوسلو، پیرس، ایمسٹرڈیم ۔۔۔۔۔۔



آسمان کو چھونے کی خواہش جو پتھروں میں بھی ہے


دس اوئے میرے لیڑے کتھے رکھے نے

ننگ پاروں کے پارک میں لوگوں کو رش
اس سفر کو اب ایک مہنیہ ہو چکا(آج کے دن تک چھ مہینے ہو گئے،) اس کی یادیں بھی اب کچھ دھندلی ہوتی جارہی  ہیں۔۔۔یہ سفر اوسلو سے آغاز ہوا اور ایمسٹرڈیم پر ختم ہوا، کوپن ہیگن تو اب گھر جیسا ہو گیا ہے۔۔۔۔لگتا ہی نہیں یہ بھی کوئی جگہ ہے جہاں آنا اور جانا بھی کسی شمار میں ہے۔ آجکل کام،زندگی اور مستقبل کے منصوبے یوں سر پھنسائے ہوئے ہیں کہ لکنھے کی عیاشی میسر ہی نہیں۔۔آج چھٹی کا دن تھا جو ختم ہو چکا ہے۔۔۔اور رات کے آخری پہر اس سفر کی نذر کر رہا ہوں ، جس نے زندگی کی شام کے لئے کچھ واقعات کا سامان دیا ہے۔۔۔۔۔۔
عموما سفرنامے میں کچھ مصالحہ دار کہانیاں ہوتی ہیں جو شعری ضرورت کے تحت کہانی کا حصہ ہوتی ہیں۔۔۔۔ایسی کچھ کہانیاں ہم نے بھی اکھٹی کرنے کی کوشش کی، ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ حسینائیں تلاش کرتے رہے جو ہمارےاس سفرنامے کا مرکزی کردار بن سکیں، ۔۔۔لیکن ایک آدھ ڈچ اور دو چار راستہ بتانے والی گائیڈ لڑکیوں کے کسی نے ہم سے مسکرا کر بات نہی کی۔۔۔اس کی کچھ وجہ تو رنگ و نسل وہ حسین امتزاج ہے جو ہماری وراثت کا حصہ ہے اور دوسری وجہ ہمارے ہمسفر دوستوں کو بھی گردانا جا سکتا ہے۔۔۔میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ اسلم بھائی میں وہ بات نہیں جو کسی یورپی لڑکی کو متاثر کر سکے یا عاصم ریاض صاحب کو دیکھ کر لڑکیوں کو طالبان یاد آجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔میری مراد ہے جب بھی ہماری تعداد ایک سے تجاوز کر جاتی ہے تو راستہ بتانے والیاں راستہ بدلنے لگتی ہیں۔۔۔۔۔
اس کا ایک کامیاب حل ہم نے پیرس سے ایمسٹرڈیم کے راستے میں بذریعہ بس جاتے ہوئے کچھ یوں کیا کہ ایک دوسرے سے اجنبیت اختیار کرلی۔۔۔۔۔جس کا خاطر خواہ  فائدہ ہوا، اسلم بھائی کو ہزار ہا تصاویردیکھنے کے لئے ایک ہمسفر میسر آ گیا، ہماری فلسفہ زدہ مایوس باتیں سننے کو ایک بیمار لڑکی اور عاصم صاحب کے برابر والی نشت پر ایک شادی شدہ عورت آ کر بیٹھ گئی۔۔۔اس کی شادی شدہ ہونے کی تصدیق اس کے ساتھ موجود شوہر سے کی جا سکتی تھی جو با خوشی کسی دوسری سیٹ پر بیٹھنے کو تیار ہو گیا۔۔۔۔


جس رفتار سے میں یہ سفر نامہ مکمل کر رہا ہوں ، واقعات کی ترتیب اور صحت بگڑنے کا خاصہ اندیشہ ہے، اس لئے میں نے اس سفرنامے کی تصاویر پر ہی اکتفا کیا ہے۔


، پتھروں سے تراشے ہوئے انسانوں کا مینار
یہ پورا پارک ناروے کی ایک سنگ تراش کے مجسموں سے سجایا گیا ہے۔ کیونکہ اس پارک کے تقریبا سارے مجسمے الف ننگے ہیں، اس لئے میں نے اس پارک کو ننگ پاروں کا پارک کے نام سے موسوم کیا ہے۔ ۔



پارک کا مشہور ترین مجسمہ 


اوسلو کا ایک منظر

، اوسلو اوپرا ہاوس کے فرش پر لگا ہوا پتھر
کہتے ہیں یہ پتھر انڈیا سے برآمد کیا گیا ہے؟؟؟؟

اوسلو اوپرا ہاوس

اوسلو کا قلعہ 

، شہر کے ہزار سالہ جشن کی ایک نشانی
اس نشانی کے ساتھ ایک عبارت بھی تحریر ہے جس پر لکھا ہوا ہے کہ شہر کے باسیوں نے آنے والی نسل کے لئے ایک پیغام لکھ کر سمندر برد کیا ہے ، جو آج سے ہزار سال بعد تک محفوظ رہے گا۔

پڑے ہیں راہگذار پر
عظیم اویس میرا بھتیجا اور میں۔۔۔پکنک کے راستے میں۔۔راستے پر بیٹھے ہوئے

ایفل ٹاور پیرس ۔شام ڈھلے 

عاصم ریاض اور اسلم صاحب۔۔شریک سفر 

پیرس کا میوزیم ۔باہر و باہر 



پانی کا بلبلہ 

پیرس میوزیم کا ذرا اندر 


ایس ایم ایس جنریشن 


بابا کبوتر سائیں اور اسلم بھائی 

دنیا حسینوں کا میلہ 


شانزے لیزے 

ڈنگ ٹپاو











یہ تصویر وہی بنا سکتا ہے جو ایفل ٹاور پر چڑھا ہو 

دو تالے۔۔۔۔دو محبت کرنے والوں کی نشانیاں

ایفل ٹاور اور پاکستان کی سب سے اونچی عمارت کا تقابل 

ایفل ٹاور اور برج الخلیفہ کا تقابل 








عاصم ریاض فوجیوں کے نرغے میں

دیسی مارکیٹ کا انداز، بلیک میں چیزیں بیچنے والے ، پولیس کو دیکھتے ہی رسی کو درمیان سے کھنچتے ہیں اور تھیلہ کاندھے پر رکھ کر بھاگ نکلتے ہیں۔





نوٹری ڈیم 






پیرس کے کئی پلوں پر لوگ محبت کی یاد میں ایک تالا لگا آتے ہیں۔۔ ایک پل کے جنگلے پر لگے تالوں کا منظر



اسلم بھائی

عاصم ریاض

پیرس کی ایک شام 

ڈاکٹر جنید۔۔۔میزبان پیرس

ایمسٹرڈیم اسٹیشن

ایمسٹرڈیم کی گلیاں







ایمسڑڈیم کی پھولوں کی مارکیٹ





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں