وہ کون؟؟؟؟؟؟؟

واصف علی واصف صاحب نے لکھا تھا کہ کسی کو چھوٹا جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کو دور سے دیکھا جائے یا غرور سے دیکھا جائے۔۔۔۔ہمارے معاشرے میں کسی کو کم تر، ثابت کرنے کے جو بے شمار طریقے مروجہ ہیں اس میں سے ایک یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ خاندانی نہیں۔۔۔اس کی ذات یا برادری پر الزام دھرا جاتا ہے ، اس کے نسلی یا حلالی ہونے پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔۔۔۔ایسے ہی میں نے یہ نوٹ کیا کہ ہمارے گجرات سائیڈ کے دوست ایسے شخص کی پہچان سے انکاری ہو جاتے ہیں۔۔۔ان سے سوال پوچھا جائے اجی فلاں کو جانتے ہو کہیں گے ارے وہ کون ہے؟؟؟ آپ حوالہ دیں گے تو ایسے پہچانیں گے۔۔۔جیسے ان کو کچھ کچھ یاد پڑ رہا ہے۔۔۔میں کن باتوں کی وضاحت میں پڑ گیا اس کا پریکٹیکل ہی دیکھ لیں۔
کسی کو نہ پہچاننے کا یہ طریقہ بہت سے جھنجنٹوں سے نجات دلاتا ہے اور آپ کتنی خوبصورتی سے کسی کو بے توقیر کر بھی رکھ دیتے ہیں۔۔۔پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست جو ڈنمارک میں نئے نئے وارد ہوئے تھے ۔۔۔۔وہاں سے کسی صاحب کا ہ تگڑا سا ریفرنس لے کر آئے۔۔۔۔پاکستان سے ریفرنس دینے والے صاحب نے اپنی بے مثال قربت کی بہت سی داستانیں کہہ رکھیں تھیں۔۔۔لیکن جب یہ صاحب ان موصوف سے ملنے گئے تو انہوں نے کہا۔۔۔جانتا تو میں نہیں ہوں۔۔۔لیکن آ پ کہیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے؟؟؟؟؟ آپ سوچئے کہ پاکستان سے ڈھیروں امیدیں لئے بندہ کسی غیر ملک میں پہنچے اور وہاں جس پر تکیہ ہو وہ یکسر انکاری ہو جائے کہ میں تو ان کو جانتا تک نہیں تو نووارد کی حالت کیا ہو گی۔۔۔
ہم پاکستانی ، پاکستان جا کر اپنی دولت ، عظمت اور شان و شوکت کے جو قصے بیان کر آتے ہیں تو اس وقت یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ کسی روز وہ شخص اس جگہ آ پہنچے گا اس لئے ہماری آسانی اسی میں ہوتی ہے کہ ہم فورا اس پہچان سے انکاری ہو جائیں۔۔۔زراعت کی ایک مقامی پاکستانی کمپنی کے ایک صاحب کینڈا کی شہریت بھی رکھتے ہیں ، دروغ بہ گردن راوی ایک صاحب نے بتایا کہ فلاں شخص نے اس کو فلاں شہر میں دیکھا اور اس سے ہیلو ہائے کی کوشش کی لیکن اس بندے نے یکسر انکار کردیا کہ میں تو وہ ہوں ہی نہیں۔۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔۔
وہ کسی نے کہا تھا کہ
اپنا ماضی بدل لیا تونے؟
ہم تیری داستان سے بھی گئے

ایسے کتنے لوگ ہیں ، جو ذرا سی ہوا میں اڑتے ہیں، اور زمین سے وابستہ ہر تعلق کو بھول جاتے ہیں۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں