یاری دا پتہ باری نوں لگدا اے۔۔۔۔کوپن ہیگن فٹ بال۔۔۔۔

گیارہ سال بعد آدمی اسی کام کو دہرائے تو اس کو تاریخی کہنا کچھ زیادہ غیر مناسب نہیں ہوگا۔۔۔۔۔جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں گذارے شب وروز ہی مجھے زندگی کے بہترین دن لگتے ہیں۔۔جب ابو جی کہتے تھے کہ جب تک میں ہوں۔۔کمانے کی فکر کیا ہے۔۔۔جب دوست بھی محبتوں کے خراج دیتے ۔۔۔محبتوں کے خراج لیتے کہتے تھے کہ ہم تمہارے ہوئے ازل سے ہم تمہارے ہوئے ابد تک۔۔۔۔۔۔جب زندگی پانی پر تیرتے پھول جیسی تھی۔۔۔کوئی فکر نہ تھی۔۔۔اب جب کہ ذمہ داریوں کےبہت تھوڑے سے بوجھ نے ادھ موا سا کر رکھا ہے۔۔۔اب جب کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کس دھاگے کو جدا کس سے کریں۔۔۔مجھ ایسے آدمی کو جس کو محبت کرنے والے بھائی، بہنیں، خاندان ملا ہو۔۔۔کبھی بھی کوئی حادثہ پاس تک نہ آیا ہو۔۔۔۔کہ گھر میں چھوٹا ہونے کے ناطے ہر بوجھ کو اٹھا لینے والے بڑے موجود ہوں۔۔۔۔اور وقت کے ساتھ ساتھ زندگی جب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کسوٹی پر پرکھے تو سچ پوچھئے زندگی مشکل ہی لگتی ہے۔۔۔۔

اس تمہید میں اس لذت کو کھو نہ دوں جو گیارہ سال بعد فٹ بال کھیلنے میں محسوس ہوئی۔۔۔۔طاہر عدیل صاحب نے چھنگ بیا میں فٹ بال کھیلنے کا پروگرام بنایا تو مجھے بھی دعوت دی۔۔۔میں اس دعوت کو فیس بک پر دیکھا اور گذر گیا۔۔۔پھر انہوں نے ٹیلی فون پر کہا کہ آپ آئیے گا۔۔۔۔میں نے کہا میرے گھر سے بہت دور ہے ۔۔۔کچھ پچاس کلومیٹر تو ہوگا۔۔۔۔۔اور اتوار کے روز۔۔۔کہاں جلدی اٹھا جاتا ہے۔۔۔۔غصے میں کہنے لگے اچھا تو مت آئیے گا۔۔۔اور فون رکھنے میں بھی جلدی کی۔۔۔۔مجھے لگا کہ ناحق ان کا دل دکھایا۔۔۔اتوار کی رات کام کرکے سات بجے صبح گھر آیا۔۔۔ایک بجے کر قریب اٹھا ۔۔۔اور اڑھائی بجے کے قریب ان کے گراونڈ میں پہچ گیا۔۔۔اور امید کے مطابق صرف وہی گراونڈ میں موجود تھے۔۔۔۔۔
دو فٹ بال جو انھوں نے نئے خریدے تھے ۔۔۔اور ہم دو کھلاڑی۔۔۔۔۔۔لیکن پھر آنے والے آدھے گھنٹوں میں درجن بھر کھلاڑی اکٹھے ہو چکے تھے۔۔۔فٹ بال گراونڈ کا وقت دو سے چار بجے تک کا طے تھا اس کے بعد ایک ترکی سے تعلق رکھنے والی فٹ بال ٹیم نے کھیلنا تھا۔۔۔۔اس ٹائم کے اختتام کے ساتھ کھلاڑیوں کی تعداد بیس کے قریب ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
بیس پاکستانی۔۔۔کچھ اچھے کھلاڑی۔۔۔ایک شاہ جی۔۔۔فواز، ۔۔۔نگار۔۔۔کچھ کے نام پہلی ملاقات میں یاد نہیں رکھ پایا۔۔۔کچھ مجھ ایسے کھلاڑی جو ہر آتی بال کے ساتھ بھاگتے اور جب بال دور چلا جاتا تو ہانپتے۔۔۔۔۔۔اس فٹ بال میچ نے مجھ میں جامعہ زرعیہ کا وہ سکاوٹ زندہ کردیا۔۔۔جب ہر صبح ہر سکاوٹ پر فٹبال کی گیم لازم ہوا کرتی تھی۔۔۔۔اور گیم کو مس کرنے والوں کو کبھی کبھار ساری ٹیم کو ناشتہ بھی کروانا پڑتا تھا۔۔۔۔وہ جعفر خان جو پیشہ ور کھلاڑی کو پشاور کھلاڑی بولتا تھا۔۔۔وہ ہمارے رومیٹ جو اپنی ٹنڈ کی بدولت سکاوٹس کے رونالڈو تھے۔۔۔۔وہ ہنستے مسکراتے عرفان افضل صاحب جو اب بہت سنجیدہ ہو چکے۔۔۔۔اور سب سے اچھی بات میچ کے بعد کپتان لوگوں کا میچ پر تبصرہ۔۔۔اور ایک نعرہ لگایا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔
کل کا فٹ بال میرے لئے تو بہت تاریخی تھا۔۔۔گیارہ سال بعد کھیلا تھا اس لئے۔۔۔۔۔کوپن ہیگن ایک گراونڈ میں پاکستان آباد ہو گیا تھا اس لئے۔۔۔۔
شکریہ عدیل طاہر صاحب۔۔۔۔۔یادوں کی رنگ بھری کھڑکی کھولنے کا شکریہ۔۔۔۔۔۔اور پنجابی میں کہتے کہ ۔۔۔یاری دو پتہ باری نوں لگدا اے۔۔۔۔۔۔۔تو گیارہ سال فٹ بال کھیلنے کا پتہ بھی کچھ ایسے لگ رہا کہ آج چھٹی پہ ہوں اور گھر بیٹھا ہوں۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں