شکریہ جامعہ زرعیہ فیصل آباد


جیسے کسی رسیلے آم کا مزہ بہت دیر تک منہ میں رس گھولتا رہتا ہے۔۔۔ایسے ہی جامعہ زرعیہ میں گذرے چوبیس گھنٹوں کا مزہ ابھی تک سرور میں مبتلا کیےہوئے ہے۔۔۔۔عہد جوانی کی دہلیز پر دستک دیتے لوگ، نوخیز بچے بچیاں، آرزوں کے رنگ، کچھ کر گذرنے کی حسرت، خواہشوں کی تپش سے سلگتے لوگ، خوبصورت، اور خوب رنگ چہرے وہ کیا تھا جو نہیں تھا اس سارے ماحول میں۔۔۔۔۔۔بس  اگر کچھ کمی تھی تو بس وہ میرے عہد کے سارے لوگ ، وہ میرا سارا سرسید ہال۔۔۔۔وہ ہمارے لئے خصوصی تالیاں بجانے والے۔۔۔جب ہم سینے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ۔۔۔او میں پنجاب آن تے میری ہک تے پنج دریا وگدے نیں۔۔۔۔۔تو مجمع پر جیسے سکوت چھا جاتا۔۔۔لوگ منتظر ہوتے کہ اب اور بھی کچھ کہا جائے گا جو اس مزے کو دو آتشہ کردے گا۔۔۔۔۔اور آج وہ دن کہ ایک تعارف کے سہارے جب اسی سٹیج پر آئے تو جذبوں کے بھیگے پر لہجے کی بلند پروازی کی راہ میں حائل تھے۔۔۔۔سچ ہے کچھ بھی نہیں کہہ پایا۔۔۔۔۔اتنی ڈھیر ساری باتیں جو سوچنے میں مزہ دیتی ہیں اور دل چاہتا ہے کہ بس ان سوچوں کو سوچے چلا جاوں۔۔۔کچھ نہ کہوں۔۔کچھ نہ لکھوں۔۔۔۔



لیکن پھر بھی کچھ محبتوں کا قرض اور بڑھائے جامعہ زرعیہ سے لوٹا ہوں۔۔۔فیصل آباد داخل ہو کر برادرم عامر حبیب کو فون کیا کہ ابھی دس منٹ میں بس سٹاپ پر ہوں۔۔۔یہ بھی پوچھنا گوارہ نہیں کیا کہ کتنے مصروف ہیں۔۔۔بس دل چاہا کہ ان کو پھٹیک دی جائے۔۔۔اور انہوں نے بھی بڑی محبت سے یہی کہا ۔۔۔میں آیا۔۔۔ایگری ہنٹ کے توسط سے میرے نوجوان دوست جنید حفیط، نبیل قریشی، طہ، خوشنود، ساجد اسلم پرنس، پہلے سے ہی منتظر تھے۔۔۔ایک چھوٹی سی میٹنگ کی اور طے کیا کہ آنے والے دنوں میں کس طرح سے ایگری سٹوڈنٹس کو ایگری ہنٹ سے جوڑنا ہے۔۔۔اتنے میں ڈاکٹر شوکت علی کا ٹیلی فون آگیا کہ مقابلہ تیار ہے۔۔۔دراصل مقابلہ تھا  آل پاکستان بین الجامعاتی مقابلہ تقاریر  ۔۔۔اسی مقابلہ کی منصفی کے لئے مجھے بلایا گیا تھا۔۔۔اقبال آڈیٹوریم پہنچے اور پھر تقاریر کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جو رات دس بجے تک جاری رہا۔۔۔اردو کے قریبا چالیس مقررین کو سنا گیا۔۔۔اسی طرح انگریزی کے مقررین کو سننا میری مجبوری تھا کیونکہ ہر ٹیم میں ایک شخص اردو اور دوسرا لازما انگلش میں مافی الضمیر بیان کرتا تھا۔۔انگلش تقاریر کے لئے محمود ریاض کی سربراہی میں ججز کی ٹیم علیحدہ تھی۔۔۔

کل شام پھر استاد جی ریاض صاحب سے ملاقات ہوئی ، وہ اردو تقاریر کے منصف اعلی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔

اور آج کا دن ، جس کا آغاز بوسن روڑ کالج ملتان کے پرانے دوستوں سے ملاقات سے ہوا، جناب جنید علی خان، اور سہیل ساجد جو دونوں ہی  شعبہ ویٹنری سانیسز میں میں اسسٹنٹ پروفیسر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔۔وہ چند لمحوں کی ملاقات جو گذرے بیس سالوں کی خوشبو لئے ہوئے تھی۔۔۔۔کیا اچھا وقت تھا۔۔۔۔
وہاں سے نکلے اور پنجابی ٹاکرہ کی نشست کا آغاز ہوا، ایڈوکیٹ فرخ صاحب منصف اعلی کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور ہم ان کی مدد کو ان کے ساتھ تھے ۔ ۔۔اسی پنجابی ٹاکرہ کے توسط یاسر ملنگی اور مسعود ملہی صاحب کی گفتگو سننے کا موقع بھی نصیب ہوا۔ ملنگی کے زوردار پرفارمنس نے آنے جانے کا خرچ سب پورا کردیا۔۔۔۔کیا خوب نوازہ ہو آدمی ہے یار۔۔۔۔
ڈاکٹر شوکت علی کی محبت کے طفیل کیا خوب دن گذرا۔۔۔جس کا مزہ ابھی تک باقی ہے۔۔۔
شکریہ جامعہ زرعیہ ۔۔۔ایک اور دن خوشگوار بنانے کا شکریہ۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں