تیری طرح نی مائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا ہے کہ ہماری محبت سے محروم اس عورت کو ایک دن کے لئے ہی سہی کچھ اہمیت تو ملی۔۔۔۔وہ فیس بک کی ایک تصویر کی حق دار تو ٹھہری۔۔۔آج بہت سے احباب فیس بک پر ماں کا دن منا رہے ہیں۔۔۔زیادہ تر لوگوں نے اس دن کے توسط سے اپنی ماں سے محبت کا اظہار کیا ہے۔۔۔کچھ دوستوں نے کیک تک کاٹے ہیں۔۔ایک طبقہ ان لوگوں کا ہے جن کے نزدیک ہر دن ماں کا دن ہے اور ہم کیونکر اس کو ایک دن پر مختص کر دینا چاہتے ہیں۔۔۔کچھ لوگ اس کو منانا ہی نہیں چاہتے ۔۔۔کچھ کے نزدیک ایسے دنوں کی گنجایش یورپ سائڈ پر ہے جہاں ماں باپ سے دور ہی رہا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
میرے خیال میں یہ موقع ہے کہ ہم ان احساسات کو الفاظ دیں جو ہم اپنی جنم دینے والی کے لئے رکھتے ہیں۔۔۔ہمارا معاشرہ روایاتی طور پر جذبات کے اظہار کے لئے ایک گونگا معاشرہ ہے۔۔۔جہاں ہم چاہتے ہیں کہ جن سے ہم محبت کرتے ہیں ان کو خود بخود ادھر ادھر سے خبر ہو جائے۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ باوجود محبت کے میں اپنی ماں سے آج تک کہہ نہیں پایا کہ ماں مجھے تجھ سے محبت ہے۔۔۔۔تو گر ہم ایسے شرمیلے لوگوں کو ایک موقع ملا ہے تو اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔۔۔۔۔
ماں کے دن کے حوالے سے دوستوں نے جن جذبات کا اظہار کیا ان سب کا عنوان محبت ہی ہے۔۔۔کچھ دوستوں کی دیواروں سے کچھ عبارتیں پیش خدمت ہیں۔۔۔۔

ماں ایسا گھن چھاواں بوٹا مینوں نظر نہ آئے
لے کے جس توں چھاں اُدھاری رب نے سورگ بنائے


ساریاں عیداں تے شبراتاں ماں دے نال
ریجھاں ،رسماں، گلاں، باتاں ماں دے نال
ماں دے باہجوں کجھ وی چنگا لگدا نئیں
شگناں والے دن تے راتاں ماں دے نال

رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا 
My Lord! bestow on them (my parents) The Mercy as they cherished me in childhood

"امبڑی"

ﻣﺎ ﺳﭩﺮ: ﺍﺝ ﺑﮍﯼ ﺩﯾﺮ ﻧﺎﻝ ﺁﯾﺎﮞ ﺍﯾﮟ او ﺑﺸﯿﺮﯾﺎ!
اوے ﺍے ﺗﯿﺮﺍ ﭘﻨﮉ ﺍﮮ ﺗﮯ ﻧﺎﻝ ﺍﯼ ﺳﮑﻮﻝ ﺍﮮ
ﺟﺎئیں ﮔﺎ ﺗﻮﮞ ﻣﯿﺮﮮﮮ ﮐﻮﻟﻮﮞ ﮨﮉﯾﺎﮞ ﺑﮭﻨﺎﮞ ﮐﮯ
تے ﺁﯾﺎﮞ ﺍﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﺝ ﺩﻭﻧﻮﯾﮟ ﭨﻠﯿﺎﮞ ﮔﮭﺴﺎ ﮐﮯ

ﺑﺸﯿﺮﺍ: منشی جی میری اِک گَل پہلاں سُن لو
اکرمے نے نَہیر جیہا نَہیر اَج پایا جے
مائی نوں اے مارد اے تے بڑا ڈاہڈا مارد اے
اَج اَیس بَھیڑکے نے حَد پئ مُکائی اے
اوہنوں مار مار کے مدھانی پَن سَٹی سُو
بندے کٹھے ہوئے نیں تے اوتھوں پَج وَگیا اے
چُک کے کِتاباں تے سَکول وَل نَسیا اے

مائی ایہدی مُنشی جی گھر ساہڈے آئی سی
منہ اُتے نِیل سَن، سُجا ہویا ہَتھ سی
اَکھاں وِچ اَتھرو، تے بُلاں وِچ رَت سی

کہن لگی سوہنیا، وے پُتر بشیریا
میرا اِک کم وی توں کریں اَج ہِیریا
روٹی میرے اکرمے دی لئ جا مدرسے
اَج فیر ٹُر گیا ای میرے نال رُس کے

گھیو وِچ گُھن کے پروٹھے اوس پَکے نیں
رِیجھ نال گِنھیا سُو انڈیاں دا حَلوہ
پَونے وِچ بَنھ کے تے میرے ہَتھ دِتی سُو
ایہو گَل آکھدی سی مُڑ مُڑ مُنشی جی
چھیتی نال جائیں بیبا، دیریاں ناں لائیں بیبا

اوہدیاں تے لُوس دیاں ہَون گِیاں آندراں
بُھکا باناں اَج اوہ سکولے ٹُر گئیا اے
ڑوٹی اوہنے دِتی اے میں پَجا لگا آیا جے
اکرمے نے نہیر جئیا نہیر اَج پایا جے

(شاعر: انور مسعود)








ماں کے موضوع پر لکھی گئی خوبصورت شاعری 

ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش 
میں ایک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش

شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا
اسلم کولسری

مختصر ہوتے ہوئے بھی زندگی بڑھ جائے گی
ماں کی آنکھیں چوم لیں روشنی بڑھ جائے گی

کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں میں
یہ آیٗنہ ہم کو بوڑھا نہیں بتاتا ہے

ماں کے پیروں تلے جنت ہے تو پھر میرے خدا 
مجھ کو سجدے کی بھی جنت میں اجازت ہوتی

اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں جب بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے

کسی کو گھر ملا حصے مں یا کوئی دکاں آئی 
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا میرے حصے میں ماں آئی

میری خواہش ہے کہ میں پھر سے فرشتہ ہو جاوں
ماں سے اس طرح لپٹ جاوں کہ بچہ ہو جاوں

آج میں نے چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف ایک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا 

جب بھی کشتی میری سیلاب میں آ جاتی ہے 
ماں دعا کرتی ہوئی خواب میں آ جاتی ہے

منور ماں کے آگے کبھی کھل کر نہیں رونا 
کہ جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی

یہ ایسا قرض ہے جو میں ادا کر ہی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں، میری ماں سجدے میں رہتی ہے

شاعر منور رانا

وہ جن کی مائیں ان سے دور رہتی ہیں۔ وہ اپنے آنسووں کے لئے کس صحرا کے متلاشی رہتے ہوں گے، وہ ایک پلو جس کی وسعت اتنی ہے کہ سایہ سات سمندر پار تک آتا ہے، جانے کیسے لہریں مٹھاس کا بوجھ لئے اتنی دور تک چلی آتی ہیں، میں کبھی اس کمی کو بیان نہیں کرتا مجھے لگتا ہے کہ اس سے میری ماں اور پریشان ہو جائے گی۔۔۔۔۔کبھی اس پر لکھتا بھی نہیں کہ پردیس میں رہنے والوں کی بے قراری اور بڑھ جائے۔۔۔۔اور وہ بوجھ جو ہر مسافر پردیسی کے کندھوں پر ہے اس کو جھٹک دینے کو دل کرے گا اور وہ مجبوریاں جو پاوں میں وہ اور بڑھ جائیں گی۔۔۔۔۔۔
میں اکثر سوچتا ہوں، مائیں ساری ایک جیسی ہوتی ہیں، دھڑکنوں اور آنسووں سے بنی ہوئی جو بچوں کی ذرا سی تکلیف پر موم کی طرح پگھلنے لگتی ہیں۔۔۔۔
تیری طرح نی مائیں اک وار کسے نہیں کیتا
ساڈھے نال تاں جھوٹے مونہہ وی پیار کسے نہیں کیتا

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں