ایک تھپڑ۔۔۔۔۔ایک مکہ۔۔۔۔۔ایک دھکہ۔۔۔

بارہ سال پہلے میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا طالب علم تھا۔ شام کو اپنے سائیکل پر ٹیوشن پڑھانے ڈھیڈیوال جایا کرتا تھا۔ کوئی آدھا گھنٹہ جانے میں اور آدھا گھنٹہ آنے میں لگتا تھا۔ ایک روز فیصل آباد کچہری سے آگے میں اپنی دھن میں سائیکل چلائے جا رہا تھا۔۔۔کہ پیچھے سے زوردار ہارن اور ایک غلیظ گالی کی آواز سنائی دی۔ اس گندی گالی میں اتنی نفرت اور رعونت تھی کہ آج بارہ سال بعد بھی اس زہر کو محسوس کر سکتا ہوں، یہ کسی مجسٹریٹ وغیرہ کے آگے چلنے والے پٹرول آفیسر کی آواز تھی۔  جو ملک کے کسی اعلی عہدیدار کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا۔۔،جس کے پروٹوکول سکواڈ کے سامنے ایک بے پرواہ سائیکل سوار ابھی تک سٹرک کے کونے پر جارہا تھا۔گاڑی کے آگے کوئی سرکاری جھنڈا تھا یا نہیں، نمبر پلیٹ ہری تھی یا نیلی۔۔۔کچھ خبر نہیں ۔۔۔بس ایک شدید نفرت کا احساس دل میں جاگا کہ بس میں سائیکل پر ہوں اس لئے مجھے حق حاصل نہیں کہ سڑک پر چل سکوں؟؟
پھر چھ سال پہلے کے وہ لمحے جب میرا آفس ڈیوس روڑ لاہور پر ہوا کرتا تھا ، اور ہر دوسرے روز کسی نہ کسی طرح جی او آر کے آس پاس لگنے والے پروٹوکول قافلوں کے لئے ایک لمبی قطار کا حصہ بننا پڑتا تھا۔۔۔۔وہ اذیت اور کرب جو ایک آزاد آدمی کو طاقتور کی طاقت کے ناجائز استعمال پر ہو سکتا ہے اس کا اندازہ پاکستان کی اکثریت نے کسی نہ کسی انداز میں کر ہی رکھا ہو گا۔۔

وہ ایک تھپڑ جو بہت تازہ ہے، جو سمندری کے تحصیل ہیڈ کوارٹر میں ایک سیاسی نمائیندے نے ایک ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کے منہ پر مارہ ہے اس کی کسک ساری زندگی اس بے چارے کے ساتھ چلے گی۔۔۔وہ ڈاکٹر جس نے اٹھ کر فرعون وقت کا استقبال نہیں کیا؟ وہ جس کے سٹھیتو سکوپ کو ہنٹر بنا کر اسی پر برسایا گیا۔وہ اس تذلیل کا تمغہ سجائے ملک کے سب پڑھے لکھے غلاموں سے سوال پوچھتا ہے۔۔۔کہ کس آزاد دیس میں بستے ہو، جہاں عزت کا معیار چند غنڈوں کا ساتھ ہونا ہے، جہاں تمہاری طاقت کے رعب سے لوگ مرعوب نہ ہوں تو دلائل میں دھکے ، مکے تھپڑ رسید کئے جائیں،
میری یہ بات سیاسی ہوا کے زور پر اڑتے پرندوں کی سمجھ سے بالاتر ہوگی؟ وہ جنہوں نے ہر چڑھتے سورج کی پوجا کر رکھی ہو، وہ جو دربار سے قربت کو عزت و شرف کا معیار سمجھتے ہوں، ہر طاقتور کی اطاعت جن کا شیوہ ہو انہیں لگتا ہو گا ایک عوامی نمائیندے کی عزت کی خاطر اگر ڈاکٹر صاحب اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تو ان کا کیا جاتا؟ لیکن ایک آزاد کہلائے جانے والے ملک میں، ملک کے قابل توقیر ترین شعبے کے ایک نمائیندے کے ساتھ ایسا گھٹیا سلوک کسی طرح بھی معافی کا مستحق نہیں ہے۔ میں یہ تو نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب اس ایم پی اے کے ساتھ اگر کبھی ہتھے چڑھے تو پھولن دیوی والا سلوک کریں یا اس کو سبق سکھانے کے لئے اسی کی طرح گر جائیں۔۔۔
بلکہ سب پڑھے لکھے لوگوں سے التماس کرتا ہوں کہ اس کیس کو ایک ٹیسٹ کیس سمجھ کر لیا جانا چاہیے، جیسے کافی عرصہ سے ینگ ڈاکٹرز اپنے پروفیشنل حقوق کے لئے
 کوشاں ہیں ایسے ہی اس طرح کے معاملات کو اپنے ایجنڈا پر بھی رکھیں، بڑے بھائی اور کچھ ڈاکٹر دوستوں کے توسط سے مجھے خبر ہے کہ ڈاکٹرز کے ساتھ اسطرح کے واقعات کے پیش آنا بڑ ے معمول کا واقعہ بنتا جا رہا ہے، اس دفعہ تو کیمرے کی آنکھ سے ایک شہادت موصول ہوئی ہے، وگرنہ اکثر اوقات اس بات کا کوئی ثبوت ہی نہیں ملتا اور کسی ڈاکٹرکو اپنی جہالت کے زعم میں پیٹ دیا جاتا ہے۔
اس طرح کے ڈرامے کرنے والے اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے ساری عمر اپنے عزیزو اقارب کا حال تک پوچھا نہیں ہوتا اور اچانک ہسپتال میں آکر ان کو لگتا ہے کہ یہ سب ڈاکٹر کی نااہلی کہ وجہ سے ہوا ہے ، اس معاملہ پر ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ معلومات کی کمی ہے۔ ادھ مرے مریض کو ایمرجنسی میں لاکر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ڈاکٹر ان کو زندہ کر دے گا، مگر ایسا نہیں ہوتا۔۔۔اور اس جذباتی لمحے میں ان کو سب سے بڑا مجرم ڈاکٹر ہی محسوس ہوتا ہے۔
اس طرح کے واقعات کسی قبائلی نظام کی نشاندہی کرتے ہیں، جہاں  طاقت کی لاٹھی سے سب انسانوں اور جانوروں کو ہانکا جاتا ہے
اور اگر کسی انسان میں کسی آزادی کی خو بو پائی جائے تو اس کو نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ اگلہ تھپڑ، اگلا دھکہ ، اگلہ مکہ کس کو پڑے کا ۔۔۔؟؟؟؟
کیا اتنے تماشائیوں میں کوئی گواہی بھی دے گا کہ ڈاکٹر پر زیادتی ہوئی؟ کیا ارباب اختیار اس دہشتگردی کو بھی مذاکرات سے حل کریں گے؟ کیا پاکستان کے پڑھے لکھے پروفیشنلز اس زیادتی کو صرف ایک آدمی سے زیادتی ہی گردانیں گے؟؟؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں