باغی ، غدار اور کافر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوشل میڈیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں غدار اور باغی قسم کے لوگوں میں کافی اضافہ ہوا ہے، لوگ اپنے پہلے فقرے کا آغاز ہی ایسے کلمات سے کرتے ہیں۔۔۔یہ ،وہ غدار ہے یا وہ باغی۔۔۔اس کی ایک بڑی وجہ اپنی رائے کی بھر پور آزادی کو گردانا جا سکتا ہے۔۔۔جن کی بات یونیورسٹی کی کنٹین والا کاکا بھی نہ سنتا تھا وہ بھی اپنے تبصرے حسن نثار یا طلعت حسین کی طرح اپنی فیس بک کی دیواروں پر رقم کرتے ہیں۔۔۔خدانخواستہ آپ ان سے کوئی دلیل لڑا بیٹھیں تو آپ کا ایمان اور اسلام دونوں خطرے میں پڑ سکتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آپ کوا پنی ذات کے بارے میں ایسے انکشافات بھی ہوں جن کا آپ کو چنداں پتہ نہیں ہوتا۔۔۔مثلا کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب کو سمجھانے کو من چاہا کہ جناب آپ کی خوشامد کی وجہ سے ارباب اختیار کی توجہ فلاں مسئلہ سے ہٹ رہی ہے اس لئے براہ کرم اور کچھ نہیں تو تھوڑی خاموشی ہی اختیار کرلیں تاکہ ایک حقیقی مسئلہ کی طرف سوچنے والوں کی تعداد بڑھے۔۔۔۔لیکن انہوں نے مجھے یاد دلایا کہ ان کو اچھی طرح یاد ہے دوہزار دو میں یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں ، فدوی نے کس طرح ایک پروفیسر صاحب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے تھے ۔۔۔اور مجھ ایسے آدمی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ کم ازکم اس موضوع پر کسی کو سمجھانے کی جسارت کروں۔۔۔
دائرہ اسلام سے لوگوں کو خارج کرنا تو کئی لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے، کیونکہ لوگوں کو مسلم اور غیر مسلم کے سرٹیفلیکٹ دینے کا حق جن اداروں اور مولویوں کو ہے ان سے ان کا بڑا قریبی تعلق ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک ایسی خطرناک دھمکی کا انکشاف ہوا کہ دل دہل گیا۔۔۔ایک صاحب نے دوسرے سے کہا۔۔۔ہم سے پنگا مت لیو صاحب ۔۔۔۔ایسا حال کریں گے کہ ساری عمر قسمیں اٹھاتے پھرو گے کہ تم مسلمان ہوں۔۔۔۔۔

ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ہمارا فلاں دوست جو اب امریکہ میں بستا ہے، وہ  اور اس کا سارا خاندان اب مرزائی ہو چکے ہیں۔ میری اس دوست سے اچھی خاصی ملاقات تھی اور امریکہ قیام کے دوران ایک دو دفعہ ایک مسجد میں اکھٹے بھی گئے تھے اور سچ پوچھئے تو مجھے پتہ بھی نہیں چلتا کہ مسلمان پکا ہے یا کچا۔۔۔اس لئے میں ایسی باتوں پر توجہ بھی نہیں دیتا لیکن اپنے دوست کے کہنے پر دوسرے دوست کے بارے سوچنے لگا کہ کیا واقعتا ایسا ہی ہے۔۔۔میں نے کہا میں اس سے پوچھوں گا تو بتانے والے نے بتایا کہ مت پوچھیں اور اگر پوچھیں گے تو وہ یہی کہے گا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔خیر یہ بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔۔چند مہنے بعد ایک دوست نے اطلاع دی کہ ہمارے فلاں آسٹریلیا والے دوست بھی مسلمان نہیں ہیں۔۔ان کا تعلق تو فلاں عقیدے سے ہے۔۔۔مجھے ایک دھچکا لگا ۔۔کہ آٹھ سالوں سے آشنائی ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ہمارے وہ دوست صحیح العقیدہ بھی ہیں کہ نہیں؟؟؟؟؟انہوں نے مزید اضافہ کیا ہے ان سے پوچھئے گا مت ۔۔۔ورنہ وہ تو یہی کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
قصہ مختصر جن باتوں کے لئے ملاقاتوں کی ضرورت ہوتی تھی اب سوشل میڈیا کے توسط بہت آسانی سے پھیلائی اور بڑھائی جا سکتی ہیں۔۔۔بس تھوڑا سا فوٹو شاپ پہ ہاتھ اچھا ہو تو جس کو جہاں مرضی سجایا جا سکتا ہے۔۔۔آپ کے سر پر پادری والی ٹوپی ڈال کر کسی نن کی باہوں میں رقص بھی کروایا جاسکتا ہے۔۔۔اور نہیں تو کسی متنازعہ مسجد کی دیوار کے باہر کسی سے بغلگیر۔۔۔۔۔
آپ کے غیر مسلم، باغی ، یا غدار ہونے میں کوئی کسر باقی نہیں اگر آپ کی جیب میں ایسے دلائل ہیں جو کسی کا منہ بند کر سکیں۔ ۔۔۔کیونکہ ایسی سازشیں اکثر بند منہ والے لوگ ہی کرتے ہیں۔۔۔آپ کسی دلیل کے منتظر ہوتے ہیں اور اچانک گلی کے کونے پر کوئی آپ کا سر پھاڑ کر بھاگ جاتا ہے۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں