ابھی تو لکھنا سیکھ رہا ہوں

میرا نام محمد رمضان رفیق ہے، ضلع ساہیوال کی تحصیل چیچہ وطنی سے تعلق ہے اور گذ شتہ پانچ برسوں سے کوپن ہیگن ڈنمارک میں مقیم ہوں، میں نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم ایس سی آنرز تک تعلیم حاصل کی، اور زراعت کے متعلق سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں سات سال کام بھی کیا۔ اردو میں لکھنے کا آغاز ایف ایس سی کے دور میں کیا، ،
پہلی صنف جس پر زور آزمائی کی وہ شاعری تھی، بے شمار شعر جوڑے، نظمیں لکھیں، حتی کہ ایک دیوان سا ترتیب دے لیا، پھر جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں داخلہ ہوا، حلقہ ارباب ذوق فیصل آباد اور سوسائٹی آف ایگریکلچرل رائیٹرز کی محافل میں شریک ہوا تو سمجھ آ گئی کہ شاعری اپنے بس کی بات نہیں۔۔۔جامعہ کے بین الکلیاتی تقریری مقابلہ جات کے توسط نثر لکھنے کا ایک موقع ہاتھ آیا تو پھر اس سے خوب فائدہ اٹھایا، تقاریر لکھنے کی معراج یہ تھی کہ ایک مقابلہ میں دس مقررین میں سے چھ کی تقاریر میں نے لکھیں، موضوع کچھ اس قسم کا تھا کہ انقلاب قلم سے نہیں تلوار سے جنم لیتے ہیں ۔ جامعہ کہ آخری سالوں میں تحریر سے تقریر تک کے نام سے ان پرانی تقاریر کا مجموعہ چھاپا بھی گیا، اور اب ان میں سے کافی ساری تقاریر میرے اردو بلاگتحریر سے تقریر تک پر موجود بھی ہیں۔ اسی اثنا میں زراعت کی بنیادی معلومات کو سوال و جواب کی صورت مرتب کیا ، اس کتاب کا نام بیسکس آف ایگریکلچر ہے۔ یہ کتاب اب اپنے چھٹے ایڈیشن پر ہے۔ کچھ عرصہ بعد زراعت کے متعلق اہم تحاریر پر ایک اور کتاب ترتیب دی اس کا نام ، پاکستان ایگریکلچرل آوٹ لک ہے۔ لاہور باغ جناح میں بطور زراعت آفیسر کام کرنے کا اتفاق ہوا اور باغ جناح کے درختوں، پودوں، بیلوں کے ناموں اور ان کی چند بنیادی معلومات پر ایک کتابچہ فلورا آف جناح گارڈن لاہور ترتیب دیا۔ ابھی حال ہی میں ڈنمارک میں ڈرائیونگ کے نام سے ایک کتاب جو کہ ڈنمارک میں ڈرائیونگ کے امتحان کی عملی کتاب کا ترجمہ ہے ۔
زراعت کی معلومات پر مشتمل ویب ایگری ہنٹ، اردو تحت اللفظ کی ترویج کے لئے جذبہ ریڈیو، پھلدار پودوں کی آبیاری کے لئے پھل زندگی کے لئے، سائنسی مضامین کی اشاعت کے لئے لائف سائنس انٹرنیشنل جرنل، اور اپنے شہر چیچہ وطنی میں فری ڈسپنسری کئیر ویلفئیر سے منسلک ہوں۔ 
کالم لکھنے کے حوالے سے انگلش میں آرٹیکل لکھنے کا آغاز 2006 میں خبریں کے انگریزی اخبار کے ایک رسالے وزٹا سے کیا، بعد میں کم علمی  اور غیر مستقل مزاجی کے ہاتھوں خود ہی اس راستے سے فرار حاصل کر لیا ۔ اب پھر سے اس  بلاگکے توسط لکھنے کا آغاز کیا ہے، بھلا ہو  ڈان اردو بلاگ کا جنہوں نے میری تحاریر کو جگہ دی۔ جب نیو نیٹ ورک نے بلاگ آغاز کیا تو میرے دوست شہباز سعید آسی صاحب مجھے یہاں بھی کھینچ لائے۔ فروری دوہزار سولہ میں اردو بلاگرز کی منتخب تحاریر کو اکٹھا کر کے بے لاگ-اردو بلاگرز کی منتخب تحاریر کے نام سےشائع کرنے کا اعزاز بھی میرے حصے آیا ۔
پاکستان کے لکھنے والوں میں سے کم ہی ایسے ہوں گے جن کو نہ پڑھا ہو۔  ہر لکھنے والے کی طرح میری خواہش ہے کہ میری تحریر کو پڑھنے والے بے شمار ہوں۔۔ لیکن ابھی  تو لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ 

4 تبصرے:

  1. ایڈیٹر صاحب۔
    آپ کا کافی سارا لکھا پڑھا آج۔
    کافی سارا باقی ہے۔
    مجھے علم نہیں تھا کہ آپ اتنے عرصے سے باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں۔
    وہ تو بس آج اچانک الٹے پلٹے سرچ ورڈ ٹائپ کرتا ٓآپ کی سائٹ پر آن ٹپکا۔
    خوشی ہوئی۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. جناب ج۔ب صاحب۔۔۔تشریف آوری کا شکریہ۔۔۔آپ کا بلاگ دو دفعہ پڑھنے کی جرات کی ہے، سچ پوچھیئے تو جیسے کوئی کم عمر بڑی عمر کے لڑکوں کے ساتھ کھیلنے سے ڈرتے ہوئے ہوئے اپنے ہی گھر کے آگے کوئی رونق سی لگا لیتا ہے، بس ایسا ہی میرا حال ہے۔۔۔آپ کی تحریر بہت خوبصورت ہے۔۔۔اور مجھے لگتا ہے کہ آپ اس عمر سے بہت آگے گذر گئے ہیں جہاں لوگوں کو مشوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ۔۔۔یہ تعارف فیڈرل یونین آف کالمسٹ کی متوقع کتاب کے لئے لکھا گیا ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. پہلی بار آپ کے بلاگ پر آمد ہوئی اور احساس ہوا کہ بہت دیر میں پہنچا کیوں کہ آپ تو ماشاء اللہ 2001 سے لکھ رہے ہیں۔ لکھتے رہیں، خوش رہیں :)

    جواب دیںحذف کریں
  4. زراعت میرا موضوع نہیں ہے، بس پودوں اور درختوں سے انس اور دلچسپی ہے، اب ایک نئی ہابی کے تحت لاہور کی سڑکوں کنارے اگے درختوں پر کبھی بور یا پھول آتے دیکھ کر یونہی شوق ہوتا ہے کہ ذرا ان کا نام تو گوگل کیا جائے۔ یونہی بدھا ٹری کو ڈھونڈتے اور اس سے متعارف ہوتے آپ کے باغ جناح کے درختوں سے متعلق کالم سے ہوتے ہوتے یہاں پہنچ گئے۔ خوب لکھتے ہیں، لکھتے رہیے، بانٹتے رہیے
    ہما

    جواب دیںحذف کریں