مونچھوں کا موسم

پچھلے دنوں کسی کی دعوت پر اس کے گھر جانا تھا اور میں بازار سے کوئی پھولوں والا پودہ اس نیت سے خرید لایا کہ میزبان کے لئے لیتا جاوں گا۔ یہ پھولدار پودہ ایک گلابی رنگ کے پلاسٹک کے ریپر میں لپٹا ہوا تھا اور اس پر ایک گلابی رنگ کا ربن بنا ہوا تھا اور کچھ عبارت ڈینش زبان میں درج تھی۔ اس وقت تو میں نے غور نہ کیا۔ لیکن گھر آ کر اس عبارت کو پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا۔۔۔۔
خواتین میں چھاتی کے کینسر کی آ گاہی مہم ۔۔۔آپ بخوبی آگاہ ہوں گے کہ اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کینسر کی آگاہی کے حوالے سے مختص کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سیمینارز، واکس وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مقامی شاپنگ سینٹرز، میڈیکل سٹورز، ، ٹرانسپورٹ کے ادارے اس مہم میں بھر پور حصہ لیتے ہیں۔ اور اپنی دکانوں پر گلابی رنگ کا یہ ربن آویزاں کرتے ہیں۔ ۔۔۔اسی طرح ماہ نومبر مردوں کی صحت اور بالخصوص مردوں میں پراسٹیٹ کینسر کی آگاہی کے حوالے سے مختص کیا جاتا ہے۔

مردوں میں اس آگاہی مہم پھیلانے کا سہرا ایک آسٹریلیوی تنظیم مومبر فاونڈیشن کے سر جاتا ہے۔  اس تنظیم کے افراد نومبر کے آغاز سے ہی مونچھیں شیو کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور مہینے کے آخر میں ان مونچھوں کے مقابلہ جات منعقد کروائے جاتے ہیں اور اچھی ، خوبصورت مونچھیں انعام کی حقدار ٹھہرتی ہیں۔
اس تنظیم نے آغاز ماہ نومبر سے مونچھیں نہ کٹوا کر دوسرے مردوں کو آگاہی دینے کا جو سلسلہ آغاز کیا تھا اس کا دائرہ کار دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل چکا ہے ، یہ تنظیم دنیا کے اکیس ممالک میں آٹھ سو بتیس پراجیکٹس کو بھی  فنڈ کر چکی ہے، گلوبل جرنل کے مطابق مومبر موومنٹ دنیا کے سو بڑی غیر سرکاری تنظیمات میں شامل ہے۔

پاکستانی مردوں کے لئے سارا سال ہی مومبر ہوتا ہے، خود نہیں تو کسی ہمسائے کی مونچھیں دیکھ دیکھ کرہم ان مونچھوں کی علامتی اہمیت کو بھول چکے ہوتے ہیں ، اس لئے پاکستان میں نومبر کے مہینے کو مومبر موومنٹ کے حوالے سے کچھ خاص اہمیت نہیں ہوتی، ویسے بھی ہم یورپ میں منائے جانے والے دنوں کے حوالے سے جو عمومی رویہ رکھتے ہیں وہ یہی ہے کہ ماں، محبت اور باپ کا دن ایک دن ہی کیوں منائیں ، ہمارے لئے سارا سال ہی محبت ، ماں اور باپ کے لئے ہے۔ اور ٹھیک اسی طرح ہمارا مومبر مہینہ بھی اکثر کے لئے سارا سال ہی رہتا ہے۔ لیکن ماہ نومبر کی ماہ مومبر کے حوالے سے جو اہمیت ہے اس کےلئے  ان باتوں کا اعادہ کرنا جو مومبر فاونڈیشن کے چارٹر پر ہیں ، خاصا مناسب ہو گا۔۔۔ اس میں سب سے اہم بنیادی نقطہ ہے کہ اپنی صحت کے متعلق جانئے۔۔۔کیونکہ پاکستانی معاشرے میں مرد پر خاندان کا انحصار بہت زیادہ ہے، اس لئے اس کے صحت مند ہونے پر ہی خاندان کی کامیابی اور ترقی کا راز پنہاں ہے۔ ۔مندرجہ ذیل صحت کے قواعد پر نظر دوڑائیے

اپنے وزن اور قد کی مناسبت  کو یاد رکھئے۔ اس کی تشریح کے لئے باڈی ماس انڈیکس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یعنی آپ کا وزن آپ کے قد کے حساب سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔  

اپنی بڑھتی ہوئی کمر پر نظر رکھئے

آپ کا بلڈ پریشر کتنا ہے

کولیسٹرول کا لیول کیا ہے

شوگر تو نہیں ہو گئی؟

اپنی صحت کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے مندرجہ ذیل نکات سے مدد لی جاسکتی ہے

اپنے خاندان کے متعلق جانئے کہ کونسی بیماریاں آپ کی فیملی میں زیادہ ہیں، اور اگر  کوئی خاص بیماری جیسے شوگر آپ کی فیملی میں موجود ہے تو  ابتدا سے ہی احتیاط کا دامن تھام لیجئے۔

اپنی زندگی میں حرکت یا ورزش کو شامل کیجئے، ہفتے کے کم از کم تین دن آدھ گھنٹہ کی واک کا اہتمام کیجئے

سیگریٹ نوشی سے دامن چھڑا لیں تو کیا کہنے۔

اپنی نیند پر سمجھوتہ مت کریں۔ اور نیند پوری لیں۔
اپنی خوراک کو بہتر بنائیں اور کھانے سے پہلے ایک دفعہ سوچ لیں کے آپ کیا کھانے جا رہے ہیں، کیا اس کو صحت مند کھانا کہا جا سکتا ہے؟؟؟

تو اس نومبر میں اپنی مونچھوں کے توسط سب دوستوں کو پیغام دیا جاتا ہے، کہ کم ازکم سال میں ایک دفعہ اپنا مکمل میڈیکل ٹیسٹ کروایا جائے ، تاکہ کسی ناگہانی مسئلہ سے بروقت نمٹا جا سکے۔۔۔۔

اور آخری بات یہ کہ مسکرانا مت بھولیے۔۔۔ہر غم کو یہی کہیے

ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں۔
یہ بلاگ نیو نیٹ ورک پر چھپ چکا ہے۔ اس کا لنک یہ رہا ۔ مونچھوں کا موسم

کیا لکھنے والوں کے دن بھی بدلیں گے ؟؟

ابھی ایک اشتہار پر سے نظر گذری ، جو ایک شاعری کی نئی مطبوعہ کتاب کے بارے میں تھا، کتاب کا نام تھا بے رنگ لہو، شاعر کا نام محمد اعظم بابر، اشاعت اگست پندرہ ، ناشر بک کارنر جہلم اور ملنے کا پتہ صوفی چاٹ اینڈ دہی بھلےالبیگ پلازہ، ویلج ایڈ، جی ٹی روڈ لالہ موسی۔ ۔۔شاعر کے چند اشعار بھی اسی اشتہار پر درج تھے ، ان میں سے ایک کچھ یوں تھا
پوچھ میرے پیروں کے آبلوں سے
منزل تک پہنچنے میں کتنے زمانے لگے

ہو سکتا ہے کہ شاعر کو صوفی دہی بھلے فروٹ چارٹ سے بہتر کوئی سخن فہم کتاب بیچنے والا نہ ملا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے اس پھلدار کاروبار کا مالک شاعر خود آپ ہو۔
برصغیر کے اہل ہنر کی آشفتہ حالی اور آبلہ پائی کچھ نئی نہیں، قرض کی مئے کی عیاشی تو خیر کسی کسی کو میسر تھی، یہاں تو ضروریات زندگی اور ادویات کے لئے بھی بڑے بڑے نام امیر وقت کی چوکھٹ پر سرنگوں پائے گئے ہیں۔۔۔کیا کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب میرے ملک میں لکھنے والوں کا معیار زندگی بلند ہو پائے گا۔ فیصل آباد کا ناولسٹ جو زندگی کرنے کے لئے رکشہ چلاتا ہے اور فیصل آباد کے نواح کا ایک موچی جو کئی کتابوں کا مصنف ہے۔۔۔یہ خبریں ابھی بالکل تازہ ہیں، کیا اتنی کتابوں کے بعد ان کے مستقبل کا ستارہ جگمگا نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا بارہ کتابوں کے خالق کی زندگی میں کچھ بہتری آ نہیں جانی چاہیے تھی؟ مگر جہاں الفاظ کوڑیوں کے مول بک جائیں، جہاں جذبات کی قدروقیمت کا پھل صرف بیوپاری کی جھولی میں گرے وہاں لکھنے والے اور فنکار کی زندگی کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔۔
آج سے تیرہ سال پہلے میں اپنی پہلی کتاب کا مسودہ اٹھائے اردو بازار لاہور کی گلیاں چھان رہا تھا۔۔۔یہ کتاب زراعت کے مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لئے ترتیب دی گئی تھی اور  اس قسم کی کوئی دوسری کتاب مارکیٹ میں موجود نہ تھی۔ کچھ احباب کی مدد سے کتاب کا مواد اکٹھا کیا گیا۔ کمپوز کیا گیا گیا۔ اور چھپوانے کے لئے کسی پبلشر کی تلاش ہوئی ۔۔۔
ہر بازار کی طرح اردو بازار میں بھی خالصتا تاجر ہی بستے ہیں۔ ایک دو نے اس مسودے کو ایک نظر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ اور ایک دو نے کچھ اعزازی کتابوں کے عوض اس کو چھاپنے کا عندیہ دیا۔۔۔اور جس مہربان پبلشر نے اس مسودہ کی سب سے زیادہ قیمت لگائی وہ پچاس روپے فی صفحہ تھی۔ کتاب کے چار سو صفحات کی کل قیمت 20،000 روپے بنتی تھی۔ جو وہ مجھے یک مشت ادا کرنے کی آفر کر رہے تھے ۔ اس کے بعد وہ جانیں اور کتاب۔
اپنی محنت کے ساتھ ایسے سلوک پر میرا دل کھول اٹھا۔ یہ چار سوصفحات کیونکہ سوال و جواب کی صورت میں کمپوز ہوئے تھے ۔۔۔یعنی ایک سوال اور جواب میں چار مختلف آپشنز جن میں ایک درست ہوا کرتا ہے، اس لئے اس کا اصل مسودہ اٹھارہ سو صفحات پر پر کمپوز ہوا تھا، بعد میں کتاب کے صفحات کی ترتیب میں ہر صفحہ پر سوال و جواب کی تعداد بڑھا کر اس کے صفحات کم کئے تھے۔ تیرہ سال پہلے کمپوزرز آج سے زیادہ مصروف اور مہنگے ہوتے تھے، کیونکہ  کمپیوٹر ہر شخص کا ذاتی نہ ہوتا تھا۔ اور ہم ایسے طالب علم تو بس انہیں دور سے ہی دیکھتے تھے۔ اور ہاں مجھے یاد ہے کہ یونیورسٹی کے کمپوزنگ والے دکاندار سی ڈی پر میڑیل لینے کے بھی روپے چارج کیا کرتے تھے۔ ان حالات میں کمپوزڈ ہوئی کتاب کی اتنی کم قیمت سن کر میں لاہور کے اس مشہور پبلشر کے چوبارے سے میز پر دھری استقبالی چائے بھی چھوڑ کر چلا آیا۔
من پر ایک دھن سوار تھی کہ اس کتاب کو چھاپنا ہے اور ایک ماہ کے اندر چھاپنا ہے تاکہ امتحانات سے پہلے پہلے آ جائے۔کچھ کتاب چھپوانے  کی قیمت کے تخمینے لگوائے گئے اور سوچا گیا کہ اس کتاب کو خود ہی چھاپ لیا جائے۔ ایک کتاب کی چھپوائی پچیس سے تیس روپے میں پڑ رہی تھی ، یعنی پچیس سے تیس ہزار روپیہ ہی درکار تھا۔۔۔دوستوں اور بڑے بھائیوں سے ادھار لیکر اس کا پہلا ایڈیش چھاپا اور خدا تعالی کا شکر ہے کتاب کا رسپانس بہت اچھا تھا، ایک ماہ کے اندر دوستوں کا قرض اتار دیا۔ کتاب چل نکلی۔۔۔اور اب تک اس کے چھے ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اگر آپ کے پاس انوسٹ کرنے کو کچھ روپے ہوں اور لگتا ہو کہ آپ کی کتاب بک سکتی ہے تو بیچنے والے کو چالیس فیصد کمیشن دے کر بھی آپ کو مناسب منافع مل سکتا ہے۔وہ کتاب جس کا مسودہ بیس ہزار روپے قیمت پا رہا ہے، اوسط ہر ایڈیشن پر لاکھ روپیہ منافع دیتا ہے، لیکن کیونکہ لکھنے والوں کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہوتی اس لئے وہ پبلشر کے ہاتھوں لٹنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ہمارے اکثر پبلشرز مصنفین کا جائز حق دینے سے بھی کتراتے ہیں۔ کتاب بکنے والی ہو  اور مصنف اس کے حقوق بیچنے پر تیار نہ ہو تو رائلٹی کے نام پر پندرہ سے بیس فیصد پر گھیر لیتے ہیں، یعنی ایک ایڈیشن پر پندرہ سے بیس ہزار روپے مصنف کو ملیں گے۔۔۔ اورایسے معامالات میں چپکے سے  ایڈیشن کی تعداد اضافہ کردیتے ہیں۔ جیسے پندرہ سو کتابوں کا ایڈیشن چھاپ لیا۔ اور مصنف کو بتایا کہ ہزار کتابوں کا ایڈیشن ہے۔
اگر کسی نہ کسی طرح آپ ان کے چنگل میں پھنسے کو تیار نہیں، اور آپ چاہتے ہیں کہ خود سے پبلشر ہوں اور آپ کو کتاب بیچنے میں مدد مل جائے تو کتاب بیچنے کی پرسنٹیج چالیس سے پچاس فیصد پر لے جاتے ہیں۔ یعنی جو کتاب تین سو روپے میں بکے کی وہ بیچنے والے کو ایک سوبیس سے لیکر ڈیڑھ سو روپے میں ملے گی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ کتاب چھاپنے، لکھنے والے کا حصہ ڈیڑھ سو ہے۔ اس میں وہ رقم بھی شامل ہے جو اس کتاب کی اشاعت پر لگی ہے۔ اور دوسری طرف کتاب بیچنے والا کا منافع بھی ڈیڑھ سو ہے۔
قصہ مختصر دس بارہ کتابوں کی مصنف کی زندگی میں کوئی بہار آنے کی کوئی امید ہی نہیں۔ کتابوں سے آنے والی آمدنی سے گھر ، گاڑی بنانے کا خیال پاکستان ایسی سوسائٹی میں ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
اب ایسے ہی ہمارا پرنٹ میڈیا ہے ، جو اپنے منافع میں کسی کو شریک کرنے کا روادار نہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبارات میں سے چند ایک اعزازیہ کے نام پر لکھنے والوں کی اشک شوئی کرتے رہے ہیں، لیکن اردو اخبارات سوائے چند بڑے ناموں کے دو چار مضامین لکھنے والوں کو کسی قسم کا معاوضہ تو درکنار اعزازیہ دینے کے بھی روادار نہیں۔
لوگ اس آرزو میں لکھتے لکھتے بوڑھے ہو جاتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا ان کے لئے زندگی کی آسائشیں خرید پائے گا۔ اور جب ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا تو لوگ چور دروازوں کے متلاشی ہو جاتے ہیں۔ کسی سیاسی مافیا کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ اپنی سوچ، دلیل اور جذبات گروی رکھ دیتے ہیں۔ ۔۔آپ اردگرد نظر دوڑا کر دیکھ لیں، خوشامدی اور درباری قسم کے لکھاری ہر حکومت کی آنکھ کا تارہ رہتے ہیں۔ سرکاری عہدوں سے بھی نوازے جاتے ہیں اور پرائیویٹ ادارے بھی ان کی تحاریر کے اچھے دام دیتے ہیں۔
پاکستان میں فری لانسر لکھنے والوں کو اگر پتہ چل  جائے کہ ہمارے ورکنگ جرنلسٹ کی اکثریت کیا تنخواہ پاتی ہے تو وہ شاید اس خیال کو ویسے ہی جھٹک دیں کہ چند ایک مضامین کے بل بوتے پر اس خشک کنوئیں سے کچھ پانی نکال پائیں گے۔ ۔۔۔
 اور ان مثالوں کے برعکس اگر دنیا میں اخبار نویسوں، اور عام لکھنے والوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو تمام کمرشل اخبارات میں اپنے لکھنے والوں کو معاوضہ ادا کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ ابھی ایک مترجم دوست اور صحافی نے بتایا کہ اسے فری لانس ترجمہ کرنے کے لئے ، یعنی ڈینش سے اردو ترجمہ کرنے کے لئے فی لفظ 15 اوورے تقریبا ساڑھے چھ روپے پاکستانی ملتے ہیں۔ یعنی ایک پندرہ سو الفاظ کے مضمون سے 10،000 ہزار پاکستانی روپیہ کم سے کم معاوضہ ہو گا۔ اسی طرح اگر اخبار کسی فری لانسر کا مضمون پسند کرتا ہے تو ایک ہزار سے پندرہ سو الفاظ کا مضمون پندرہ سو سے پچیس سو کرون یعنی بائیس ہزار پاکستانی روپے سے لیکر سنتیس ہزار روپے تک ایک مضمون کے ادا کر سکتا ہے۔
اور ہمارے لکھنے والے ایک ماہ کی قلمی مشقت کے بعد بھی اتنا معاوضہ حاصل نہیں کر پاتے۔ لوگوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے اپنے حقوق کے جنگ لڑنے سے قاصر ہیں۔ ۔۔۔
ٹی وی چینلز کے آنے سے کچھ صحافیوں کے حالات بدلے ہیں لیکن اکثریت اب بھی اتنا معاوضہ نہیں پاتی جس کی وہ حقدار ہے۔ ایسے معاشروں میں لکھنے والوں کی کتابیں جوتوں کی دکانوں پر بٹیں یا دہی بھلوں کی ریڑھیوں پر فروخت ہوں، چہ معنی دارد۔۔۔۔
یہ بلاگ ڈان نیوز پر چھپ چکا ہے۔ لنک یہ رہا انمول الفاظ کوڑیوں کے مول

ڈنمارک میں ڈرائیونگ کی تقریب رونمائی



کل شام بروز اتوار کوپن ہیگن کے علاقے نیروبرو میں ڈنمارک میں ڈرائیونگ نامی کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ یہ کتاب ڈنمارک میں گاڑی چلانے کی ابجد کے متعلق معلومات پر مشتمل کتاب کا اردو ترجمہ ہے۔ 
افسوس کی اس کتاب کا پیش لفظ اس کتاب کے توسط آپ تک پہنچ نہیں پایا، آپ اسے صرف آن لائن ایڈیشن میں ہی دیکھ 
سکتے ہیں۔ کیونکہ آن لائن ایڈیشن دیکھنے کے لئے آپ کو فیس بھری پڑتی ہے اس لئے اس پیش لفظ کو یہیں لکھ رہا ہوں۔ 


ڈنمارک میں ڈرائیونگ ، میرے حصے کی شمع ہے، پاکستانی کمیونٹی کے لئے ایک چھوٹا سا تحفہ ہے، شاید کسی نئے آنے والے کی مشکل کو کچھ کم کر سکے، شاید کسی کی کچھ مدد ہو پائے۔ ان چند ابتدائیہ الفاظ کا مقصد یہ بتانا بھی ہے، اس ترجمہ کو کسی ادبی شاہکار کا ترجمہ نہ سمجھا جائے، ادبی پیرائے اور ثقیل الفاظ کی گھن گرج سننے کی آرزو نہ کی جائے، بلکہ ہم نے کوشش کی ہے اس کو سمجھانے والی آسان زبان میں لکھا جائے، انگریزی الفاظ کا باربار استعمال بھی اسی سہولت کے پیشِ نظر کیا گیا ہے، اسے میری کم علمی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر اورینٹیشن کے لئے مجھے اردو کا کوئی مناسب لفظ نہیں مل پا رہا تھا، سو اس لفظ کو جوں کا توں ہی رہنے دیا گیا، بہت سی مشکل اصطلاحات کا اردو ترجمہ ممکن تھا ، لیکن اس سے اس بات کا اندیشہ تھا کہ ہر کوئی اس کو سمجھ نہ پائے گا، انگریزی الفاظ کی مدد سے کوئی راہنمائی کرنے والا آپ کو کچھ سمجھانے کے قابل تو ہوگا، اس لئے کسی بھی قسم کے ادبی تجربات سے بھی پرہیزکیا گیا ہے۔
میں نے ڈرائیونگ کی تھیوری ایک پاکستانی سکول سے  پڑھی ہے، اس لئے کوشش کی ہے ان کی طرز پر کچھ اصطلاحات کو بیان کروں، لیکن اس بات کی کوشش کی گئی ہے ان مشکل اصطلاحات کے ساتھ انگریزی الفاظ کا ستعمال کر کے ان کو مزید واضح کیا جا سکے۔
میں اپنے دوست جناب ذیشان مقبول صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس ترجمہ کے لئے میرا نام انتخاب کیا، انہی کے توسط سے میں محترم اندریجہ سے ملا، اور اس کام کا آغاز ہوا، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اپنے دوست رانا محمد اکرام کی مدد کے بغیر یہ کام مکمل نہ کرپاتا، کتاب کی کمپوزنگ  اور پروف ریڈنگ کے لئے محترمہ ثانیہ رشید، اور حافظ زاہد صاحب کی نظر التفات اس سفر کا حصہ رہی۔
ا

ڈنمارک میں ڈرائیونگ ، میرے لئے اس نوعیت کے کام کی پہلی پرواز ہے، آپ کی آرا میرے لئے اس سفر کو بہت آسان کر سکتی ہیں۔ کتاب کے ترجمہ اور اصطلاحات کی بہتری کے لئے آپ کا فیڈ بیک اس کام کو مزید معیاری اور موثر بنا سکتا ہے۔ مجھے آپ کی ای میلز کا انتظار رہے گا۔

اور آج اس کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد جن احباب کی محبتوں کا مقروض ہوں، اس طویل فہرست میں سے کچھ نام یہ ہیں۔ 
محترم آندیجہ کا جس نے مجھے مترجم کا اعتبار سونپا۔

محترم عامر سہیل صاحب جنہوں نے ایونٹ کے لئے سنگ بنیاد رکھی
شیخ تنزیل صاحب کا جنہوں نے پروگرام کے جگہ لینے میں مدد کی 
رانا ندیم صاحب جنہوں نے کمپیرنگ کے فرائض سر انجام دئے
ملک راحیل صاحب کا جنہوں نے کچھ بنیادی اشیا لانے میں مدد دی 
طاہر عدیل صاحب، راجہ آصف صاحب جو جانثاروں کی طرح ساتھ رہے

حسن جنجوعہ صاحب کا جنہوں نے استقبالیہ کی ذمہ داری اٹھائی 
باو خالد کا جنہوں نے ریفریشمٹ کا اہتمام کیا 
عاصم ریاض کا جنہوں نے اچھی تصاویر مہیا کیں۔ 
میڈیا نمائیندگان ، ریڈیو پاک لنک ملک بوٹا، چوہدری لیاقت، ریڈیو سہارا طیب شاہ ، ریڈیو ہم وطن رضا مصطفے، سچ ٹی وی تنویر شاہ صاحب جنہوں نے پروگرام کو پذیرائی بخشی ، رضا مصطفے کا پھر سے بھی جو ساونڈ سسٹم بھی ساتھ لائے تھے
مہمانان گرامی اسسٹنٹ سیکرٹری پاکستان ایمبیسی کوپن ہیگن زین العابدین ،  ہر دلعزیز سیاستدان عباس رضوی، برادر محترم میاں منیر ، سید اعجاز شاہ صاحب، باشی قریشی صاحب ، نواز سندھو صاحب، محترمہ افشان بیگ صاحبہ، میاں طارق جاوید صاحب، میاں ضیا صاحب، میاں ظہیر صاحب ، ملک منور صاحب ،کہ آپ کے آنے سے ہمارے پروگرام کو چار چاند لگے۔ 

اپنے دوستوں کا جن کی اخلاقی مدد ہمیشہ میرے ساتھ رہی، محترم مظہر ہاشمی، آصف نور،عدیل آسی، آصف بلال،خالد وٹو، امتیاز ظفر، عظیم ، رائے مظفرسمیع اللہ، علیم ، کامران ، ثقلین، یسیین ، ڈاکٹر یسین ، اور دیگر شرکائے محفل کا جنہوں نے اس پروگرام کا انعقاد ممکن بنایا۔ 











اقتدار کا بھوکا عمران خان ؟


کیا یہ عہد خلافت میں امارت کے حصول پر مجلس شوری کی تقریب کا احوال ہے، جہاں دنیا کی طمع سے بے نیاز اصحاب با صفا سر جھکائے بیٹھے ہیں ، مسئلہ در پیش ہے کہ نیا خلیفہ کون ہو گا، کس کے کندھوں پر امارت اور خلافت کا بوجھ لاد دیا جائے گا، اور کون ہو گا جو اس سے انصاف کر پائے گا؟۔ اس لئے ہر کوئی ہچکچا رہا ہے۔ ۔۔۔ہر شخص اقتدار اور اختیار سے کنارہ کش رہنا ہی پسند کرتا ہے اور ایسے میں لوگوں کی نگاہ انتخاب کسی مرد قلندر پر پڑتی ہے۔ وہ مرد قلندر جو آج کے اس اجلاس میں بھی شریک نہیں اور باہر کسی بیاباں میں بکریوں کی گلہ بانی میں مصروف ہے۔ ایک آواز بلند ہوتی ہے۔ میرے خیال میں فلاں ابن فلاں کو بلا لیجئے ان سے موزوں شخص اس عہد میں کوئی ہو نہیں سکتا۔ اسی خیال کی تقلید میں کچھ اور آوازیں بلند ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مجلس شوری کسی گلہ بان کو امارت کے لئے چن لیتی ہے۔ اور وہ مرد درویش پھر بھی انکاری ہے کہ وہ اس بھاری بوجھ سے عہدہ برا ہونے کی استطاعت نہیں رکھتا۔۔۔اور بالآخر لوگوں کی آرا  کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔۔۔۔اور یوں مسلمانوں کا کوئی امیر چن لیا جاتا ہے۔

جب کبھی  پاکستان کے جغادری صحافی عمران خان کو اقتدار کے حصول کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ تو کسی خلافت و امارت کے انتخاب کے پرانے اجتہاد کہ مانگنے والے کو اختیار و امارت نہ دی جائے۔۔۔کہ برابر کے پلڑے میں رکھ دیتے ہیں اور فورا فرماتے ہیں چھوڑئے صاحب یہ تو اقتدار کا بھوکا ہے؟ سچ پوچھئے تو یہ ایسی ظالم دلیل ہے جس کے سامنے ہمارے مذہب پرست ذہن پر مارنے کی جا بھی نہیں رکھتے۔ کیا دیوانہ وار پچھلے دو عشروں سے پاکستان کے طول و عرض میں تلاطم برپا کر دینے والا عمران خان اختیار و امارت کا بھوکا ہے؟ وہ جو خود کو وزیراعظم کی کرسی پر دیکھنا چاہتا ہے۔ ۔۔۔اور اس کے اسی لالچ کیوجہ سے امیر وقت کو کتنی پریشانی کا سامنا ہے۔ ان کے بچوں، بہووں بیٹیوں تک کے خواب بادشاہی میں خلل پڑتا ہے۔
یہ طعنہ اور بھی شدت اختیار کر جاتا ہے جب دینے والا بھی ایسا ہو جس نے بیس پچیس سال حکومت کا مزہ چکھ رکھا ہو۔ وہ بڑے طمطراق سے کہے۔۔۔تمہارے لہجے میں کڑواہٹ کیوں ہے، تم اختیار کے لالچی شخص، تم اقتدار کے بھوکے وغیرہ۔ اور ابھی جو تازہ ہوا چلی ہے کہ عمران خان ناکامی کا دوسرا نام بنتا جا رہا ہے۔۔۔۔
جیسے دھرنا ناکام
الیکشن میں دھاندلی ثابت کرنے میں ناکام
چوہدری افتخار کے خلاف دلائل دینے میں ناکام
ایک سو بائیس کے الیکشن میں ناکام
خیبر پختون خواہ کو ماڈل صوبہ بنانے میں ناکام

یہ اقتدار کا بھوکا شخص جو ناکام بھی ہے کیا اس ملک کا آنے والا حکمران ہو سکتا ہے؟ جو اپنے اقتدار کی بھوک کی خاطر ریڈیو پاکستان پر حملہ کرواتا ہے، جو اس خوبصورت جمہوریت کے مقابل کسی ایمپائر کی انگلی کے اشارے کا منتظر ہے، جو جلسوں کے انتظامات اس لئے اچھے نہیں کرواتا کہ لوگ بھیٹر میں مر جائیں۔۔۔ایسا اقتدار کا بھوکا شخص کیا تمہارا حکمران ہونا چاہیئے۔ بولو میری بکریو۔۔۔۔۔۔

ویسے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ نظام سیاست میں کون ہے جو اقتدار کا بھوکا نہیں۔ اگر اس ترکیب کو تھوڑا شائستہ کر لیا جائے کہ کون ہے جو اقتدار نہیں چاہتا؟ کیا سیاسی پارٹیوں کا وجود ہی اس حصول کی طرف اشارہ نہیں کرتا کہ وہ ملک پر اپنی مرضی و منشا کے قوانین کی متمنی ہیں اور بالآخر اقتدار کی خواہشمند۔ کیا کروڑوں کے اشتہار اسی لئے چھپوائے نہیں جاتے؟ کیا جلسے جلوسوں کے ہنگامے اسی لئے برپا نہیں کئے جاتے؟اور کیا عمران خان واحد ایک شخص ہے جو ایسے کسی بھی عمل کا حصہ ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ اب کوئی شخص تمہاری آنکھوں میں کھٹکتا ہے اس لئے تمہیں اس بھوکے کی آنکھوں میں وحشت نظر آتی ہے۔

سیاست کے اس حجام میں سب ننگے ہیں۔سب ہی اقتدار کے خواہش مند ہیں، چاہے وہ ہمارے خلیفہ محترم ہوں یا عمران خان۔ مگر ایسی اصطلاحات کے ساتھ کھیل کر کسی کو نیچا دکھانا کسی کے نیفے کے نیچے وار کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کا مزیدار پہلو یہ ہے کہ ہم ایسی باتوں سے خوشی کشید کرتے ہیں۔۔۔جیسے جس سے بیوی نہ سنبھالی گئی وہ ملک کیا سنبھالے گا؟ جس نے یہودیوں سے چندہ لے لیا وہ مسلمان کیا ہوا؟ جس کے بچے باہر پڑھیں اسکو پاکستان کے نظام تعلیم سے کیا لینا؟ جس کا علاچ لندن میں ہو وہ پاکستان کے ہسپتالوں کو کیونکر سدھارے اور جو اقتدار کا بھوکا ہو ۔۔۔۔اب آپ ہی بتائے کہ اس بھوکے کے ساتھ اب کیا کیا جائے؟ 

ایک سیاہ سی کہانی

جہموریت اور سیاست کے عوامی انتقام کے بعد جمہوریت اور سیاست کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ ہر شخص بلا تفریق رنگ ونسل، مذہب و ملت، بلا تفریق ادارہ و درسگاہ اس پر سیر حاصل تبصرہ کر سکتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے جب سے ہمارے ہاں سیاسی ٹاک شوز نے میڈیا کی انڈسٹری میں پرائم ٹائم کی حیثیت حاصل کی ہے، جگہ جگہ خودرو قسم کے بے شمار تجزیہ نگار اگ آئے ہیں۔
اگر آپ کی آنکھیں شعلہ بار اور گفتگو دھوان دار ہے تو کسی میں مجال کہاں کے اس شمشیر بے نیام کے سامنے ٹھہر سکے۔۔۔آپ کی خاندانی شراقت و نجابت اپنی جگہ مگر جب آپ اس سیاہ سی حجام میں دستار اتار بیٹھے تو آپ کے کپڑے اترنے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ آپ غور کیجئے کہ جتنا کوئی دھڑلے دار ہے، اور اپنی گفتگو سے پیرانہ سال سیاستدانوں کے لہو میں ایسی روح پھونک دے کہ وہ باہم دست و گریباں ہو جائیں تواسی کی پتنگ ہواوں میں ہے۔۔۔اسی لئے ہمارے سیاسی ٹاکروں میں صحافی نہیں اینکر پرسنز نظر آتے ہیں۔
چلئے چھوڑئے ان کو تو شوبھا ہے کہ وہ اسی کام کے پیسے لیتے ہیں کہ بے رنگی کہانیوں میں کچھ مرچ مسالے اور کھٹہ میٹھا ڈال کر بیچیں۔۔۔لیکن ہمارے کچھ دوستوں کو بھی ایک ایسا ہی عارضہ آشوب چشم لاحق ہے۔۔۔غالب نے کہا تھا کہ

کم نہیں نازش ہم نامی چشم خوباں
تیرا بیمار برا کیا ہے گر اچھا نہ ہوا

ممکن ہے کہ ہمارے دوست، سیاسی تجزیہ نگاروں کے رنگ میں رنگے جاناغالب کے اسی شعر کی تشریح میں کرتے ہوں۔۔۔۔بہت کچھ ممکن ہے۔۔۔۔۔۔جیسا ہے آپ کچھ ایسے دوستوں سے گفتگو میں سر پھنسا بیٹھیں تو ان نشتوں کے درج ذیل مراحل ہوں گے ۔
پہلا مرحلہ
فلاں لیڈر سے زیادہ قابل کوئی اور ہو نہیں سکتا
قائد ثانی وغیرہ وغیرہ
اس کے مخالفین ۔۔سب سب کے نا سمجھ اور گھٹیا۔۔۔
جس سے ایک بیوی نہ سنبھلی وہ ملک کیا سنبھالے
یا دو رکعت بھول گئی امت کی امامت کیونکر کرے
یا جس کا اپنا سر گنجا ہو۔۔ملک میں ہریالی کسیے لائے
یا جس کا اپنا پیٹ موٹا ہو ملک کو سمارٹ کیسے بنائے؟
جس کے بچے ملک سے باہر ہوں وہ ملک میں اچھی تعلیم کیونکر بانٹے
وغیرہ وغیرہ

دوسرے مرحلہ ۔۔۔۔۔۔۔ جب کوئی ان کے دلائل سے اختلاف کرنے کی جسارت کر ییٹھے تو اس کے پرخچے ملائشیا کے گم شدہ طیارے کی صورت بہت دیر سے کسی اجنبی مقام سے ملتے ہیں
تمہیں کیا پتا۔۔۔
مجھے سب پتہ ہے
میں نے فلاں ابن فلاں کے ساتھ وقت گذارہ ہے
میرے پاس اندر کی خبر ہے
فلاں یہودیوں کا ایجنٹ ہے
فلاں قبضہ مافیا ہے
فلاں ککڑی چور ہے
فلاں شرابی ہے

یعنی مخالف کے لیڈر کی شان میں جو کچھ موزوں ہو سکے ارشاد کیا جاتا ہے۔ اور اگر گفتگو اس مرحلہ سے آگے بڑھے تو تیسرا مرحلہ کچھ یوں ہوتا ہے

میں تمہیں جانتا ہوں
تمہاری اوقات کیا ہے
تم دوپٹا اوڑھ لو
گھنگھرو پہن لو
تم جلسوں میں ناچنے والے
تم بریانی کی پلیٹ پر بکنے والے

اور گفتگو اس مرحلہ پر بھی موخر نہ ہو تو گفتگو کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ۔۔۔لوگ حسب استطاعت ایکدوسرے کو سبق سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

میں ایسے تبصرہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ گفتگو کر کے اپنا علم بڑھانے کا مشغلہ کب کا ترک کر چکا ہوں۔ لیکن ظالموں کو پتہ ہے میری ہمدردیاں کس کی طرف تھیں اس لئے وہ اب میں میرے قبلہ کی درستگی کے بارے فکر مند رہتے ہیں۔ ۔۔میری اصلاح کے لئے ملک کے نامی گرامی صحافیوں اور سیاستدنوں کی گفتگو کے ٹکڑے اور تراشے مجھے ارسال کرتے رہتے ہیں۔
میں پچھلے کئی ماہ سے ان دانشوروں کی زد میں ہوں، کروٹیں بدلتا ہوں، کوئی صورت بن نہیں پاتی۔۔۔۔۔۔۔کہ ان کی مدلل باتوں کا کوئی جواب پیش کر سکوں۔۔۔اور کچھ دن پہلے تو حجام کے دکان پر مونچھوں پر کنگھی کرتے ایک دانشور نے یہاں تک کہہ دیا۔۔۔۔باو جی تہانو کی پتہ سیاست دا ۔۔۔سارا دن تاں کتاباں چہ وڑے رہندے او۔۔۔۔۔۔۔



کہے ہے یا استاد ، یا استاد



آج بھی  انگلی کے گرد اس گرفت کا محسوس باقی ہے، جب پہلی بار ان ہاتھوں نے قلم تھاما، ۔۔سرکنڈے سے تراشی گئی قلم اور گاچنی سے دھلی تختی پر نو آموز کے نو مولود لفظ کیسے ہوں وہ حرف تو کب کے بھول چکے۔۔۔ان لہجوں کی شیرینی آج بھی محسوس کرتا ہوں۔۔جنہوں نے آڑھی ترچھی لکیروں کو الفاظ میں ملبوس کرنے کا ہنر بخشا۔۔۔
وہ میرے استاد جنہوں نے میری زندگی کی کایا پلٹ کر رکھ دی، میں دیکھتے ہوئے بھی اندھا تھا کیونکہ وہ تصاویر جو میرے اردگرد سجائی گئی تھیں ان تصاویر کے سب رنگ بے نام تھے، وہ منظر جو میرے اردگرد پھیلے تھے ان کی کیفیت اور ماہیت میرے لئے بالکل اجنبی تھی، کس چیز کو چھونا ہے، کس سے گریز کرنا ہے، کس کو کیا پکارنا ہے اور کس طرح سے پکارنا ہے۔۔۔وہ کیا نہیں ہے جو مجھے سکھایا گیا تھا۔۔۔ایک روتا ہوا بچہ جو اپنی ہر ضرورت کے لئے اس عجیب و غریب آواز کا محتاج تھا، پھر اپنی آشاوں کو بیان کرنے لگا تھا، کچھ بولنے لگا تھا۔۔۔۔۔اور پھر انتہائے کرم یہ ہوئی کہ لکھنے لگا تھا۔۔تو ان ساری نوازشوں کے پیچھے جو محسن تھے استاد کہلائے۔
محترم انور صاحب

مجھے وہ دن آج تک یاد ہے جب پہلی بار گاوں کے اسکول سے شہر سے سکول میں آیا پہلے ہی دن ایک ساتھی طالب علم سے جھگڑا کر بیٹھا اور جوابا اس کو کو کچھ گالیاں بھی دے ڈالیں۔۔کلاس کا مانیٹر مجھے پکڑ کر استاد صاحب کے پاس لے گیا کہ یہ بچہ گالیاں دیتا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ وہی ہو گا کہ استاد جی مولا بخش اٹھائیں گے اور ہماری خوب دھلائی کریں گے ۔۔
شفیع صاحب
یہ میری دوسری جماعت تھی، بستی بوسن حیات آباد سکول تھا جو اس وقت ایم سی ہائی سکول چیچہ وطنی کے اندر ہوا کرتا تھا۔۔۔اور آجکل کے ہیڈ ماسٹر کے کمرے کے پچھواڑے والے بلاک کے کونے والا کمرہ تھا۔۔۔محترم ریاض صاحب کرسی پر بیٹھے بچوں کے لئے سرکنڈے کی قلمیں تراش رہے تھے۔۔۔۔انہوں نے بچے کی بات سنی اور مجھے حکم دیا کہ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ جاو۔۔۔مجھے اس طرح کی کسی سزا کا پتہ نہ تھا جو کرسی پر بٹھا کر دی جاسکتی ہو ، بچوں کی قلمیں تراشنے کے بعد انہوں نے بڑی محبت سے مجھے مخاطب کیا۔۔۔بیٹا گالیاں نہیں نکالتے۔۔۔اور یہ کہہ کر جانے کا رستہ دکھا دیا۔۔میری لئے اس عمر کی سب سے بڑی حیرانی کا لمحہ تھا کہ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ بندہ استاد جی کے ہاتھ چڑھے اور بنا مرغا بنے یا مار کھائے واپس آ جائے۔۔۔۔کم از کم میرے لئے یہ سمجھنا دشوار تھا ، اس واقعے نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور آنے والی سکول کی زندگی میں استاد محترم کا یہ فقرہ مجھے راستہ دکھاتا چلا گیا، پھر ہمارا پالا ہمارے شہر کے بہترین خطاط جناب انیس اے سحر سے پڑا۔۔۔ان کی مسکراتی ہوئی آنکھیں ابھی آنکھیں بند کروں تو سامنے آ جاتی ہیں۔ آپ بخوبی آشنا ہیں کہ سکول میں مضامین کی ایک لمبی فہرست ہوا کرتی ہے ، ہمارے سکول کے زمانے میں قریبا نو مضامین ہوا کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سکول کے ہر سال میں سات یا آٹھ  اساتذہ سے واسطہ پڑتا تھا۔۔لیکن ان اساتذہ میں ہر استاد آپ کی زندگی کا حصہ نہیں بنتا، کچھ استاد آ کر پڑھاتے اورمضمون کی معلومات بھولنے کے ساتھ ہی بھول جاتے ہیں۔۔۔لیکن کچھ استاد زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ہر موڑ ہر چوک چوراہے پر راہنمائی کرتے ہیں۔اردو اگر ہمیں رانا ظہور علیخاں صاحب نے نہ پڑھائی ہوتی تو آج ہوسکتا ہے یہ عبارت آپ تک پہنچ ہی نہ پاتی، بیت بازی کے ذریعے جس طرح بال جبریل کے اشعار ہمارے ذہن کا حصہ بنا دیئے گئے یہ ان کی شخصیت کا ہی کمال تھا، انگریزی جو تھوڑی بہت ہم کو آتی ہے اس کا سارا کریڈٹ محترم شفیع صاحب اور حسین صاحب کے حصے آتا ہے، اور ہم سانئیس کے طالب علم جناب انور بی ایس سی کے توسط سے ہوئے۔۔۔کالج دور میں گورنمنٹ کالج ملتان جسے بوسن روڈ کالج ملتان بھی کہتے ہیں شعبہ اردو کے انعام الہی فاروقی صاحب سے کچھ محبتیں سمیٹیں۔۔۔
رانا ظہور علی خان 
اور پھر ہم یونیورسٹی آئے ۔ یونیورسٹی کی زندگی میں معلم سے زیادہ گرو کی ضرورت ہوتی ہے، بس ایسا راستہ دکھانے والا جو انگلی نہیں تھامتا بس اشارہ کرتا ہے۔ سچ کہیے تو اس دور میں میں نے کتابوں سے زیادہ استاد بنائے، جس نے کوئی تجربہ دیا اس کو استاد مان لیا۔۔نصابی علوم سے ہٹ کر بھی ہر وہ ہنر جو ہمیں نہیں آتا تھا، جس جس نے ہمیں سکھایا ہم سیکھتے چلے گئے۔
سیکھنے کا عمل زندگی میں کبھی نہیں رکتا، استاد بدلتے رہتے ہیں، کبھی انسان آسانی سے سیکھ جاتا ہے اور کبھی مشکل سے، کبھی ایک اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور کبھی ایک نقطےمیں ہی الجھ کر سمے کے سمندر میں غرقاب ہو جاتا ہے۔۔۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہم نے سیکھا کہ استاد صرف وہی نہیں جنہوں نے ہمیں کسی نصابی کتاب کو سمجھنے میں مدد دی بلکہ ہر وہ شخص جس نے زندگی کی کسی روش پر بھی کچھ اثر ڈالا استاد کہلانے کا مستحق ہے۔۔۔محترم انور مسعود صاحب جو اردو کے مشہور شاعر ہیں ان کا طرز بیان ہمیشہ سے میرا استاد رہا ہے، ایسے ہی آپ کی زندگیوں میں بے شمار لوگ ہو سکتے ہیں جن سے کبھی آپ سکول کے ماحول میں نہیں ملے مگر وہ آپ کو کچھ ایسا عطا کر جاتے ہیں جو زندگی بھر آپ کے ساتھ چلتا ہے۔۔۔اس اجنبی استاد کے فرمان کی طرح۔۔۔جو انیس سو چھیانوے میں ایک لمحے کے لئے کسی راستے میں ملا اور اس نے کہا۔۔۔بچے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ہم نے سوچا کوئی مانگنے والا ہو گا اور بہت بعد میں پتہ چلا کہ نہیں وہ تو دینے والا تھا۔۔۔اس ایک شعر سنایا اور پھر چلا گیا
راز حیات پوچھ لے خضر خجستہ گام سے
زندہ ہے ہر چیز ایک کوشش ناتمام سے

نوٹ۔

اساتذہ کرام کی یہ تصاویر انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں، اگر کسی کے پاس اچھی تصاویر ہوں تو مجھے بھیج کر شکریہ کا موقع دیں۔ 

زراعت کے لئے لکھئے ۔۔۔۔

دو ہزار نو کے قریب اس ویب سائٹ بنانے کا خیال آیا، سوچ یہ تھی کہ زراعت کے متعلق معلومات کو ایک جگہ پر اکٹھا کیا جائے، لوگوں کو زراعت کے لئے لکھنے پر مائل اور قائل کیا جائے۔۔۔۔۔۔پاکستان ایگری کلچرل آوٹ لک نامی کتاب کی طرز پر زراعت کے موضوع پر چھپنے والی تحاریر کو اکٹھا کیا جائے۔۔۔۔۔سوچ یہ بھی تھی کہ تین چار سال میں ہماری ویب اپنے پاوں پر کھڑی ہو جائے گی۔
آج چھ سال بیت گئے۔ ان مقاصد تک پہنچ ہی نہیں پائے جو سوچ کر ویب کا آغاز کیا تھا

اچھے لکھنے والے کہاں سے لائے جائیں۔۔۔سائنسدان صرف ریسرچ پیپر لکھنا چاہتے ہیں۔ عوام الناس کے لئے لکھنے کا کیا فائدہ؟
لوگ اخبار میں چھپواتے ہیں ویب پر چھاپنے کا کیا فائدہ؟
زرعی یونیورسٹی کے طالب علموں کے لئے ایک زرعی مضمون لکھنے کے مقابلے کا انعقاد کیا مگر ناکام رہے۔۔۔ایک پروفیسر صاحب کا کہنا ہے کہ لکھنے والے لوگ اب پیدا ہی نہیں ہوتے ۔۔۔یہ تو کاپی پیسٹ کی پیداوار ہیں؟

ہمارے پیاری ایگری ہنٹ پر بے شمار سائبر حملے بھی ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ہم نے کافی نقصان بھی اٹھایا۔ مگر آج ہم دوبارہ اس کو اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں غلطاں اور پیچاں ہیں۔۔۔۔

احباب کی طرف نگاہیں ہیں کہ زراعت کے متعلق اچھی اچھی تحاریر سے نوازیں۔۔۔
ہماری ویب ملاحظہ ہو
ایگری ہنٹ ویب


اگر فیس بک پر پسند کرنا چاہیں تو لنک یہ رہا
ایگری ہنٹ فیس بک