گجر کا ڈیرہ ۔۔۔۔۔۔زرعی پوسٹ

گجروں نے پاکستانی فلموں کے علاوہ جن کاموں میں بہت نام کمایا ہے اس میں دودھ اور دودھ دینے والے جانوروں سے محبت ہے، آج صبح اپنے دوست ٹیپو گجر سے شکوہ کر رہا تھا کہ ہمارے گھر میں جو دودھ آ رہا ہے وہ مجھے دودھ لگتا ہی نہیں، وہ مجھے اصلی دودھ اور اصلی گجر دکھانے لے گئے، بھینسوں کے باڑے کے باہر ایک بڑا پتیلہ پڑا تھا، میں اس پتیلے میں پڑے دودھ کو دھیان سے دیکھ رہا تھا کہ ٹیپو نے کہا اندر آ جاو جناب نگ چیک کرو۔۔۔۔۔یعنی اندر آ جاو وہاں موسم گرم ہے۔ میں بھینسوں کے پاس چلا گیا تین دودھ دوہنے والے دودھ دھونے میں مصروف تھے، اور ایک نوجوان ان کی نگرانی پر معمور تھا جس نے گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا، اس نوجوان کا نام عثمان گجر تھا، اس کے ساتھ ایک اور مہمان بھی نظر آئے پتا چلا کہ وہ صاحب لاہور سے دودھ لینے کے لئے آئے۔ ایک من دودھ ۔۔۔۔۔
میں نے دودھ دوہنے والوں کی ایک دو تصاویر بنائی تو عثمان نے اپنے پاس موجود گائے دیکھنے کی بھی ترغیب دی ۔۔۔گجر صاحب کی خواہش تھی کہ میں ان کے جانوروں کی اس وقت تصاویر بناتا جب جانور نہائے ہوئے ہوتے ، لیکن ہم سب اس بات پر متفق ہو گئے کہ بھینسیں نہانے کے بعد مزید کالی ہی لگیں گی تو ایسے ہی ٹھیک ہے۔
بعد میں ڈیرے کے مالک چوہدری منیر گجر صاحب سے ملنے کا بھی موقع ملا، بڑی محبت سے ملے اور جانوروں کے کاروبار اور دودھ کے حوالے سے میرے علم میں اضافہ کیا۔
یہاں ان کے پاس ساٹھ ستر دودھ دینے والی بھنیس تھیں اور زیادہ تر بارہ سے چودہ لیٹر اوسط روزانہ دودھ دینے والیں تھیں۔
میرے استفسار پر پتہ چلا کہ ایک مناسب بھینس کی قیمت اب سوا لاکھ روپے سے آغاز ہوتی ہے، گجر صآحب کا کہنا یہ بھی تھا کہ اس کاروبار میں اب جھوٹ اتنا ہے کہ کسی دھیمے مزاج کے بندے کا یہ کام نہیں رہا کہ اس مشکل کاروبار کو چلا پائے۔۔۔
آئیے گجر صاحب کے ڈیرے کی سیر کرتے ہیں۔


ٹیپو گجر اور عثمان گجر 







چوہدری منیر گجر آف چیچہ وطنی




ٹیپو گجر دوستوں کے ساتھ 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں