این سی سی کی واپسی ؟

ہمارے کالج کے دور میں این سی سی کے نام  سے ایک فوجی تربیت کالجز کے طلبہ کی زندگی کا حصہ تھا، فوجی لباس میں ملبوس کالجز کے طلبہ اپنے کالج کے ساتھ ساتھ ایک یا دو ماہ کی اس تربیت میں حصہ لیا کرتے تھے، اس تربیت کا مقصد سیلف ڈیفنس، ابتدائی طبی امداد ، جنگی حالات میں بہتر نظم و نسق، اور ہتھیار چلانے کی بنیادی مہارت ہوا کرتا تھا،  گو کہ یہ تربیت آپشنل تھی پھر بھی اکثریتی طلبہ اس ٹریننگ میں حصہ لیا کرتے تھے، اس کی ایک وجہ بیس اضافی نمبروں کی اٹریکشن بھی تھی، لیکن نوے کی دہائی میں بڑھنے والی نسل ایک رومانس کے سائے میں پل کر جوان ہوئی ہے جس میں فوج سے محبت اور فوج میں جانے کی آرزو شامل ہوا کرتی تھی، اور این سی سی جیسی تربیت اس شوق کو اور بھی مہمیز دیتی تھی اور ہم جیسے نوجوان این سی سی جیسی تربیت کو بہت جذباتی انداز میں لیتے تھے۔ 
 
عہد این سی سی کی واحد یادگار
اس تربیت کی جو باتیں اب ذہن میں باقی رہ گئی ہیں ان میں پریڈ گراونڈ کی چپ، راست ، چپ راست کی صدا، پیٹ اندر چھاتی باہر کی کمانڈ، دائیں مڑ ، بائیں مڑ کی بھول بھلیاں، رئٹائرڈ فوجیوں کی گرجتی برستی آوازیں جن میں کبھی کبھی کچھ مقامی گالیوں کی بھی آمیزش ہوا کرتی تھی، ایک ساتھ بازو اور قدم ملانے کی جستجو، ابتدائی طبی امداد کے شکستہ اور چکنا چور فریچکر، اور نہ بھولنے والے لمحے جس میں ایک خودکار رائفل سے فائرنگ رینج میں گولی چلائی گئی تھی۔ 
اس ساری مشقت سے جو ہنر حاصل ہوا اس کانام عزم ہے، ایک جذبہ جو اپنی قوم کے لئے قربان ہونے اور حالات کے سامنے سینہ سپر ہونے کا درس لئے ہوئے تھا، اسی لئے ہمارے زمانے کے مشہور ترین ڈرامے بھی فوجی کردار اور فوجی کہانیاں لئے ہوئے تھے۔
لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا، شاید یہ سوچ لیا گیا کہ قوم کو اس قسم کی تربیت کی ضرورت ہی نہیں رہی، یا شاید باہر کی دنیا میں اپنا امیج اور سافٹ بنانے کے لئے اس مشکل زندگی کو عام لوگوں سے دور کر دیا گیا۔ ہو سکتا کہ کچھ وسائل کے مسائل بھی آڑے آئے ہوں، لیکن میں پورے وثوق سے سمجھتا ہوں کہ این سی سی جیسی تربیت ہماری کالج کی زندگی کا بہترین اثاثہ تھی، اور اگر اس پر کچھ وسائل خرچ بھی ہوتے ہوں تو بھی ہماری قوم اب جس مشکل کی گھڑی میں کھڑی ہے اس کو پھر سے اسی تنظیم کے بندھن میں بندھنے کی ضرورت ہے۔ 


ایسی تربیت جو طالب علموں کو کسی بھی مشکل سچوئشن میں مشکل فیصلے آسانی سے لینے میں مدد دے، ایسی تربیت جو جنگ جیسی صورت حال میں  زندہ رہنے اور ایک دوسرے کا مددگار بننے کا حوصلہ بخشے، جو معمولی زخموں کی مرہم پٹی سے لیکر بڑے ذخموں کا مرہم بننے والوں کو ایک بنیاد مہیا کر سکے، 
اور جب ہتھیار اٹھانے کی نوبت آ پہنچے تو کسی سے پوچھنے کی حاجت نہ ہو کہ ہتھیار کو کاندھے کی کس ہڈی کا سہارا دیا جاتا ہے اور کون سی آنکھ بند کر کے نشانہ باندھا جاتا ہے۔


اور اب وہ وقت ہے جس میں ہمیں ایسی تربیت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور ایسی تربیت دنیا کی قوموں کے لئے کچھ نئی بھی نہیں،ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کینڈا کی فوج کی طرف سے ملٹری کا بنیادی کورس کرنے والے طلبہ کے دو تعلیمی کریڈٹ دینے کا اعلان کیا گیا۔
اسی طرح برطانیہ بھی یونیورسٹی طلبہ کے لئے عملی فوجی تربیت حاصل کرنے اور ان کو ریزور فورس کے طور پر استعمال کئے جانے کے لئے پر کشش بناتا ہے

انڈیا میں پہلے سے ہی بنیادی ملٹری ٹریننگ کالجز کی تعلیم کا حصہ رہی ہے ، اور پچھلے کچھ سالوں میں اس کو سیاسیتدانوں کی طرف سے  مزید پذئرائی بھی ملی ہے۔
اسرائیل ایسی تربیت کے لئے سب سے آگے ہیں جہاں ہر اٹھارہ سالہ نوجوان کو لازمی ہے کہ وہ بنیادی فوجی تربیت حاصل کرے، اور اس طرح کی تربیت اس کی آنے والی زندگی اور نوکری پر براہ راست اثرانداز ہوتی ہے۔


 پاکستان کے تعلیمی ادارے جس قسم کی دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہیں  ایسے میں این سی سی طرز کی عملی تربیت دوبارہ سے طالب علموں کی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے
آپ کے علم میں ہو گا کہ فنوں حرب سیکھنے سے آدمی کو عملی طور پر بہادری اور خدشات کا حساب کرنے میں مدد ملتی ہے، اگر آپ کو اسلحہ کی طاقت اور اپنے جسم کی صلاحیتوں کے موازنے کا احساس نہیں تو آپ کا ہراگلہ قدم کسی بھی اندھیرے میں ہو گا، اس لئے ضروری ہے کہ آپ کو انسانی جسم کی کوتاہیوں، اور مختلف حالات میں ان خامیوں پر قابو پانے کی صلاحیتوں سے آشنائی دی جائے۔ 
وہ صدمہ جس سے ہماری قوم باربار گذر رہی ہے، وہ حملہ جو ہمارے کمزور اور ناتواں دستوں پر باربار ہو رہا ہے، بہت ضروری ہے اس کمزوری کو طاقت میں بدل دیا جائے، وہ بازو جو دشمن سے نبرد آزما ہونے کے لئے کافی ہیں مگر ان کو بس ایک ادراک کی روشنی درکار ہے، 
این سی سی کی تربیت ایسی ہی روشنی ہو گی جو ہمارے طالب علموں کو مشکل حالات میں دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ بخش سکتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کو اس قابل کر سکتی ہے جو کسی زخمی کو ابتدائی طبی امداد دے کر اس کی زندگی بچانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ جنگ اب صرف سپاہ کی نہیں سارے پاکستان کی ہے اس لئے اس جنگ کی تیاری بھی سب کو ہی کرنا ہو گی، اور سکول اور کالجز کے لیول پر بنیادی عملی تربیت اس تیاری کی پہلی سیڑھی ہو گی۔

نوٹ، یہ بلاگ ڈان نیوز پر چھپ چکا ہے، اس کا لنک یہ رہا ، http://www.dawnnews.tv/news/1032360/21jan2016-ncc-kitni-madadgaar-ramzan-rafique-bm


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں