تقریر کے اشعار

صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے
خاک ایسے جینے پر یہ بھی کوئی جینا ہے
بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں
اور یہ قصیدہ گو فکر ہے یہی جن کو
ہاتھ میں علم لیکر تم نہ اٹھ سکو لوگو
کب تلک یہ خاموشی چلتے پھرتے زندانو
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
اپنے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
میں خا ئف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہو ں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زندان کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹاہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح کہوں
تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
یہ ملیں یہ جاگیریں کس کا خون پیتی ہیں
بیرکوں میں یہ فوجیں کس کے بل پر جیتی ہیں
کس کی محنتوں کا پھل واشنائیں کھاتی ہیں
جھونپڑوں سے رونے کی کیوں صدا ئیں آتی ہیں
جب شباب پر آکر کھیٹ لہلہا تا ہے
کس نے نین روتے ہیں کون مسکراتا ہے
کاش تم کبھی سمجھو کاش تم کبھی جانو
*****
بولنے پہ پابندی سوچنے پہ تعزریں
پاؤں میں غلامی کی آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرف آخر ہے بات چند لوگوں کی
دن ہے چند لوگوں کا رات چند لوگوں کی
اٹھ کے درمندوں کے صبح و شام بدبو بھی
جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدبو بھی
دوستوں کو پہچانو دشمنوں کی پہچانو
*****
لائسنسوں کا موسم ہے کنونشن کو کیا غم ہے
آج حکومت کے در پر ہر شاہین کا سر خم ہے
*****
عام ہوئی غنڈا گردی چپ ہیں سپاہی با وردی
شمع نوائے اہل سخن کالے باغ نے گم کردی

دشمنوں نے جو دشمنی کہ ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خا شی پر س لوگ زیر عتاب
اور ہم نے تو بات بھی کی ہے
مطمئن ہے ضمیر تو اپنا
بات ساری ضمیر ہی کی ہے

شاعر حبیب جالب 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں