زیورچ کی سیر

سوئٹرزلینڈ کا مشہور شہر زیورچ سفر کرنے والوں کے لئے ایک جانی پہچانی منزل ہے۔ دنیا کے امرا اپنے دولت کو ٹھکانے لگانے سوئٹرزلینڈ کے اسی شہر کا رخ کرتے ہیں۔ سوئٹرزلینڈ کے شہروں کو دیکھ ایک خاص قسم کی نفاست کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بالکل جیسے مغل پورہ سے آدمی کینٹ کے علاقہ میں داخل ہو جائے۔ زیورچ سنٹرل سٹیشن کے سامنے بہنے والی نہر کے ساتھ دو تین گھنٹے پیدل چلنے سے زیورچ شہر کی جو تصویر میرے کیمرے پر بنتی ہے وہ پیش خدمت ہے۔

زیورچ سنٹرل سٹیشن
یہ سوئٹرزلینڈ کا سب سے بڑا ٹرین سٹیشن ہے۔ جہاں روزانہ 2915 ٹرینیں چلتی ہیں۔ اس کا شمار دنیا کے مصروف ترین ریلوے اسٹیشنز میں بھی کیا جاتا ہے۔  کیونکہ ہم نے اپنی گاڑی کی پارکنگ سنٹرل اسٹیشن کے پاس ہی کی تھی اس لئے میرا پہلا اسٹاپ ریلوے اسٹیشن ہی تھا۔ زیورچ میں پارکنگ کے حوالے ایک بات بڑی اہم ہے کہ عوامی پارکنگ کے لئے سفید لائنز مختص کی گئی ہیں۔ اگر پارکنگ کے جو چوکور ڈبہ بنایا گیا ہے یا حاشیہ لگایا گیا ہے اگر اس کا رنگ سفید ہے تو اس کا مطلب ہے وہاں کوئی بھی گاڑی پارک کر سکتا ہے۔ جبکہ نیلی لائنوں کا مطلب ہے کہ صرف رہاشی لوگ ہی گاڑی کھڑی کر سکتے ہیں۔ رنگوں کی یہی ترتیب اٹلی میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ جبکہ سکینڈے نیویا میں پارکنگ کے ایسے رنگوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ عمومی طور پر معلومات پارکنگ بورڈ پر ہی لکھی ہوتی ہیں۔ خیر زیورچ ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے ایک بات مجھے مختلف یہ بھی لگی کہ ٹرین کی پٹڑیوں اور سڑک میں کچھ خاص فاصلہ نہیں تھا۔ عمومی طور پر ٹرین ٹریک کو سڑک سے ہٹ کر بنایا جاتا ہے ہے۔ لیکن اس کے ایک طرف کے ریلوے ٹریک عام گاڑیوں والی ٹریفک کے بالکل ساتھ تھے۔

سوئس نیشنل میوزیم
ریلوے اسٹیشن کے بالکل سامنے سوئس نیشنل میوزیم کی عمارت آپ کو اپنی طرف کھیچتی ہے۔ 1898 کی بنی ہوئی یہ عمارت اپنے خوبصورت میناروں اور طرز تعمیر کے علاوہ یورپ میں تقافتی تاریخ کے فن پاروں کا عظیم ورثہ لئے ہوئے ہے۔

کینال ٹور
بہت سے یورپی شہروں کی طرح زیورچ کے بیچوں بیچ بھی ایک نہر بہتی ہے۔ عمومی طور پر ایسی نہروں پر کشتی کا ٹور سود مند ہوا کرتا ہے۔ لیکن جس وقت ہم کشتی کے پاس پہنچے اس دن کسی ناگہانی مسئلہ کی وجہ سے کشتی کا ٹور منسوخ ہو چکا تھا اس لئے ہم نے اس نہر کے کنارے کنارے چلنے کو ہی غنیمت جانا۔ زیورچ شہر کے کلیساوں کے مینار نہر کنارے پرشکوہ عمارتوں کے جلووں میں دربانوں کے سے کھڑے تھے۔ نہر کنارے ریستوران سیر کرنے والوں سے بھرے پڑے تھے۔ گوکہ سویٹرزلینڈ میں کھانا پینا اور قیام سب کچھ ہی مہنگا ہے مگر پھر بھی اتنی تعداد میں سیاحوں کی موجودگی لوگوں کی آسودگی کی غمازی کرتی ہے۔ نہر پر تھوڑے تھوڑی فاصلے پر پل بنائے گئے تھے۔ ان پلوں پر جالیوں میں دل جلوں نے تالے باندھ رکھے تھے۔ نہر کنارے کا یہ سفر کسی یوٹوپین فلم کا حصہ لگتا ہے جس میں خوش اور خوشگوار لوگ بستے ہیں۔ اس سارے ماحول میں آسودگی ، اطمینان اور امارت رچی بسی ہوئی تھی۔

گروس منسٹر چرچ
نہر کے ساتھ چلتے جائیں تو گروس منسٹر چرچ کے مینار بھی آپ کو متوجہ کرتے ہیں، اس کا شمار شہر کے چار بڑے گرجا گھروں میں ہوتا ہے۔ یہ چرچ گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی میں بنایا گیا ہے۔

فراومنسٹر چرچ
نہر کے کنارے پرانے شہر کو چلتے آئیں تو پرانی عمارتوں کے درمیان اس خوبصورت چرچ کے مینار نمایاں نظر آتے ہیں۔ یہ چرچ آٹھویں صدی عیسوی میں آغاز ہوا۔ اس حوالے سے بھی اس چرچ کو تاریخی اہمیت حاصل ہے۔

ٹاون ہال
جرمن اور سوئس زبان میں ٹاون ہال کے لئے راٹ ہاوس کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جس کا مطلب مشورہ کی جگہ ہے۔ کیونکہ ڈینش میں بھی تقریبا یہی الفاظ استعمال ہوتا ہے اس لئے مجھے اس لفظ کی سمجھ ہے۔ نہر پر سے گذرتے ہوئے اس نام کے ایک سٹاپ پر نظر پڑی لیکن مجھے کوئی بھی عمارت ٹاون ہال کے شایان شان دکھائی نہ دی۔ اس سٹاپ اور عمارت سے آگے گذر گیا اور سوچتا رہا کہ ٹاون ہال کہیں اور ہو گا۔ واپسی اسی راستے سے گذرا تو بلڈنگ کے دروزے پر ٹاون ہال کی تختی نظر آئی۔ مجھے اس عمارت نے اتنا متاثر نہیں کیا۔ بس ایک عام سی عمارت لگی کیونکہ عممومی طور پر یورپی شہروں میں ٹاون ہال کی عمارتیں اپنا آپ دکھاتی ہیں اور دیکھنے والے کو دور سے ہی دکھا دیتی ہیں کہ میں ٹاون ہال ہوں۔
کھانے والی گلی
اسی نہر کے متوازی ایک دو پیدل چلنے والی گلیاں ہیں، جہاں کھانے کے بے شمار ریسٹورنٹ ہیں۔ ان سب ریسٹورنٹس میں بہت رش تھا، کچھ ریسٹورنٹس کے بارے لائیو گانے والے اپنے ہنر کا مظاہرہ بھی کر رہے تھے۔ انہی ریسٹورنٹس کی بھیڑ میں ایک ترکش قسم کا بھی ریسٹورنٹ نظر آیا لیکن اس رات ہم اپنی یونیورسٹی کے سنئیر ڈاکٹر افضل کی مہمان تھے اس لئے آج کی رات ہمیں کھانے کی تلاش لاحق نہ تھی۔

رائن فالز
زیورچ سے قریبا آدھ گھنٹے کی ڈرائیو پر رائن فالز موجود ہیں۔ ان کو یورپ کی سب سے بڑی آبشار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ہم نے زیورچ کے ٹور کا آغاز انہی آبشاروں سے کیا تھا۔ یہاں سیاحوں کا جم غفیر اس منظر کا حصہ تھا۔ ان سیاحوں میں غیر ملکی سیاحوں میں ہندوستانی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ شاید کچھ سوئٹرزلینڈ میں ہندوستانی کا کوئی مقدس مقام ہے جو اتنی کثیر تعداد میں ہندوستانی یہاں موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی بڑی وجہ تقریبا تین درجن گانے سوئٹرزلینڈ میں فلمائے گئے ہیں۔ ان میں کچھ گانے اس جھیل پر بھی فلمائے گئے ہیں۔
خیر ہم نے کشتی لی اور آبشار کے عین درمیان میں موجود ایک چٹان پر جانے کا عزم کیا۔ تیز لہروں، میں کشتی ران بڑی مہارت سے اس چٹان پر لے جاتے ہیں۔ اس کے اوپر صرف چار پانچ لوگوں کے کھڑے ہونے کی ہی گنجائش ہے۔ اور چوٹی پر ایک سیکورٹی پر معمور شخص لوگوں کی رفتار اور موجودگی کے وقت کو مانیٹر کرتا ہے۔ آبشار کے اس شور میں عام دن کی زندگی کا شور سنائی نہیں دیتا اور انسان چند لمحوں کے لئے ہی سہی دنیا اور مافیا سے بےخبر ہو قدرت کی اس صناعی کے حسن میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ آپ لاکھ دور کھڑے دور سے اس آبشار کو تکتے رہیں لیکن جو مزا اس کے پاس جا کر اس کی پھوار میں کھو جانے میں ہے وہ لذت بھرا لمحہ ہی اس سارے سفر کا حاصل ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں