ظالم لوگ

گروہوں، قبیلوں، ذاتوں، فرقوں میں بٹے ہوئے ہم دھرتی کے ظالم ترین لوگ ہیں شاید جن کی نظر میں کوئی بھی متفقہ معتبر نہیں، ہمارے لئے محترم ہمارے نشان اور ٹھپوں والے لوگ ہیں اور باقی کے سب کیڑے مکوڑے، کم ذات اور کمینے۔ ارے لوگو کیا ہو گیا ہے تم کو، ہر بات میں سازش کیوں ڈھونڈنے بیٹھے ہو، ہر کسی کو پیلی آنکھوں سے کیوں دیکھتے ہو؟ ہر کوئی تہماری نظر میں برا کیوں ہے؟ خود کو کب سے اتنا مستند سمجھ لیا کہ اپنی رائے سے متصادم کسی رائے کو سننا ہی نہیں چاہتے، اپنے نظریے کے علاوہ کچھ سننا بھی گوارہ نہیں۔ ہر کسی کے بارے بات کرتے ہوئے لفظ یوں چباتے ہو کہ معنی کو پسینہ آ جائے، اور گفتار کا غازی وہی ٹھہرے جو اس سے بہتر منہ توڑ فقرہ اختراع کرے۔
کچھ ہوش کے ناخن لو اہل وطن، ان نوکیلے ناخنوں سے ایک دوسرے کے چہروں پر خراشیں ڈالتے ڈالتے تم نے اپنا کیا حال کر لیا ہے، آج وطن عزیز میں کسی شعبہ کی بات کر لی جائے ہر عہدہ تمسخر کا نشانہ بنا ہوا ہے،

، صحافی لفافہ ، جج بکاو، آفیسر راشی، ملا بے ایمان، سائنسدان کافر،سیاستدان نااہل، استاد بے ادب، شاگرد بھگوڑا، عوام تماش بین، راہگیر نوسرباز، ہمسائے بے شرم، معاشرہ بے رحم۔۔۔۔۔۔اور کل کسی نے لکھا کہ فکری کھسرے۔۔۔۔۔۔اللہ والو کس راہ چل پڑے ہو؟  اچھا استاد کدھر گیا جس کے جوتوں کو سیدھا کرنے والے مقدر کے سکندر ٹھہرتے تھے، لکھنے والے کا منہ بند کرنے کے لئے پھانسی گھاٹ سجائے جاتے تھے، اور لوگ دوسروں کے احترام میں اپنی نماز کی ترتیب بدل دیتے تھے۔

ایک مسلسل تکلیف ہے ہے مجھ ایسے بنا قبیلے والے ایک شخص کو، میں کسی پارٹی میں ہوتا تو میری بے سروپا بات پر بھی دف بجائے جاتے، اور اب شور میں اپنی بات کسی تک پہنچانا کتنا مشکل ہو گیا ہے، سب سے پہلے لوگ رابطہ تلاش کرتے ہیں کہ جو بات میں کررہا ہوں اس کا مخرج کون سا قبیلہ ہے، اگر اس کا تعلق ان کے اپنے گروہ سے ہے تو واہ واہ وگرنہ اس سچ کی گواہی کون بنے۔

ہر کسی موت پر مسلمان اور کافر کے فتوے کیوں بٹنے لگ جاتے ہیں، میری پسند کے سب لوگ مسلمان اور میرے سب مخالف کافر ، مردود، خدا بھی میرا اور اس کے سبھی فیصلے بھی میرے حق میں، ایسا بے دریغ مذہب کا استعمال تو کبھی نہیں دیکھا ہے، اور ظلم کی حد تو یہ کہ فتوے بانٹنے والے ایسے ہیں جن کو کوئی چیز بھی سلامتی بانٹنے والے اسلام سے نہیں ملتی،

باتوں کا شور اسقدر بڑھ گیا ہے کہ لوگ کردار بھول چکے ہیں، وہ سچا مسلمان ہے کہاں جس کی ہیبت سے پہاڑ رائی ہوا کرتے تھے، جس کا قول صادق تھا، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے لوگ محفوظ تھے، لیکن اب گلے کے زور پر پرکھ لیجئے تو سب مسلمان ہیں اور کردار کے کھوٹے اور قول کے جھوٹے لوگوں سے دنیا بھری پڑی ہے۔

حد تو یہ ہے لوگ اس بات پر بھی ناراض ہوئے جاتے ہیں کہ ہم ایسے لکھنے والوں کے قلم ان کی خواہشوں کی ترجمانی کیوں نہیں کرتے، اگر ایسا کچھ سرزد ہو جائے تو ان کی سوچ سے مطابق نہیں رکھتا تو ہمارا لکھا ہوا سطحی اور بے معنی،

اور انتقام لینے کی عادت ایسی در آئی ہے کہ دشمن کا کلیجہ چبائے بغیر چین نہیں پڑتا، یہاں یہ سروکار نہیں کہ خود کس مشکل میں گرفتار ہوں گے، بس یہی سوچ یہ ہے دوسرے کو تکلیف پہنچائی جائے،

اور ہر شخص جو ہمارے قبیلے سے باہر ہے گٹھ مٹھیا اور منحنی ہے، اس کا دنیا سے گذر جانا مر جانا ہے، اور ہاں اس مرجانے کے بعد اس کو جنت ملے گی یا عذاب کا حق دار ٹھہرے گا یہ فیصلہ بھی ہم کریں گے، ایدھی کی موت پر بھی فتوے بٹنے لگے تھے، اس کی آخرت کا فیصلہ کئی لوگ خود سے کئے بیٹھے تھے، ایسے ہی ڈاکٹر رتھ کی موت پر اشکبار پاکستانیوں کو کئی لوگ بتانے آئے تھے کہ تمہارے مذہب پر نہ مرنے والا تمہاری دعا کا بھی حق دار نہیں، ابھی کل ہی سٹیفن ہاکنگ کی موت پر بھی اسی طرح کی عجیب و غریب باتیں فضا کا حصہ ہیں۔ اگر ہم کچھ دیر کو خاموشی اختیار کریں اور اپنے مخالفین کی موت پر احترام اور رواداری کو شیوہ کریں تو کیا امر مانع ہے؟

ہمیں ایک بات شدت سے سمجھنا ہے کہ ہمارے عقیدے کے علاوہ بھی کوئی عقیدہ دنیا میں ہو سکتا ہے،ہمارے سوچ سے الگ سوچ والے لوگ بھی دنیا میں بستے ہیں، اور ہر چیز کو طے کرنے کا پیمانہ ایک نہیں ہو سکتا، ہاں دین کی اہمیت سے انکار کس کو ہے لیکن دین کی اساس کو سمجھے بنا ہی دنیا کی سائنس کو کیونکر سمجھا جا سکتا ہے۔

کسی کی سائنسی عظمت کو ، کسی کی فکری محنت کو، کسی خیال رعنا کو، روایت سے ہٹی ہوئی سوچ کو ، سمجھنے کے لئے اپنی سوچ  میں وسعت اور فکر میں محنت کی ضرورت ہے، جس نے خود سے کسی ایجاد کی دریافت کا سامان نہیں کیا، وہ اس ریاضت سے بے خبر ہے جو ایک نیا جہان بنانے کے لئے درکار ہوا کرتی ہے۔ ایدھی پر تنقید کرنے کے لئے ایدھی کی محنت کے برابر کام کیجئے پھر کہیے ہاں اس کا کام کم تھا، اپنی زندگی کا سکھ آرام تج کر لوگوں کے نام اپنی سانس سانس کر کے کہیے ہاں میری قربانی فلاں کی محنت سے زیادہ ہے؟ ہر کسی کی عظمت کو یک جنبش قلم رد کر دینے سے، کسی کی عمر بھر کی ریاضت سے ایک لمحے میں انکاری ہو جانے سے بھلا کس کے قد کاٹھ میں کمی آتی ہے؟

اے کاش ہم اپنے مخالف کی عظمت کو تسلیم کرنے کی خو اپنا لیں تو شاید اپنی سمت بھی طے ہو پائے، شاید ہم خود بھی کوشش کرنے والے بن جائیں۔ کسی خود سے برتر کی عظمت مان کر دیکھئے آپ خود کو کتنا بڑا محسوس کریں گے۔ ہم سب کچھ نہیں جانتے ابھی ہمیں بہت کچھ جاننا ہے، ۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں