بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی

 تیری کہانی میری کہانی سے مختلف ہے
جیسے آنکھوں کا پانی، پانی سے مختلف ہے
جیسے بھاپ اور پانی ایک ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے محتلف درجہ حرارت رکھتے ہیں، میں ایسا ہی فرق پاکستان میں رہنے والے اور بیرونِ ملک بسنے والے پاکستانیوں میں سمجھتا ہوں، وہ لوگ جنہوں نے اپنی ذاتی زندگی کسی اور کے لئے قربان کر دی، وہ لوگ جو پاکستان میں رہنے والوں سے زیادہ ان کے متعلق فکر مند ہیں، وہ لوگ جو محنتی اور مخلص ہیں اور بغیر کسی تنخواہ کے پاکستان کی سفارت کاری کرتے ہیں۔۔۔۔اوور سیز پاکستانی ہیں۔
پاکستان میں بیٹھ کر یہ بات سمجھی ہی نہیں جا سکتی کہ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کی قربانی کیا ہے، اب جبکہ میں دو سال ملک سے باہر گزار چکا تو اندازہ ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کسی اور کے سکھ کے لئے مشکل زندگی کا انتخاب کیا، اس بات کی حقیقت ہر وہ خاندان سمجھتا ہے جس کا کوئی فرد روزگار کے لئے پاکستان سے باہر آیا ہے، میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ زندگی جو پاکستان میں اس کے بھائی بہن گزار رہے ہیں اس زندگی سے ہزار درجے اچھی ہو گی، پاکستانی شہریوں اور سبز پاسپورٹ کی عزت افزائی کی کہانی اپنی جگہ لیکن  وہ پاکستانی جو موسم کی سختیاں، وطن اور رشتہ داروں سے دوری، اجنبی لوگوں کا رویہ، روزگار کے مسائل،  اپنی عیدیں، شب راتیں، تہوار سارا کچھ قربان کر کے کسی اور کا گھر بناتا ہے، اور جب وہ اسی گھر کو پلٹنا چاہتے ہیں تو ائیر پورٹ کے باہر سے ہی پولیس کی وردی میں ملبوس غنڈے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور راوی کے پل پر اپنی جمع پونجھی سے محروم کر دیا جاتے ہیں
جیسی مشکل زندگی پردیس میں لوگ گزارتے ہیں اس کا بیان میرے بس سے باہر ہے
، پردیس کی زندگی کا تھوڑاسا اندازا ان مکئی کے بھٹے بھوننے والے افغانی یا پٹھانوں کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جو پنجاب کے مختلف شہروں میں سستے مکانوں میں دس دس لوگوں کے گروپوں میں رہتے ہیں یا سوچئے وہ سارے پیشے کہ جن کے اپنانے والوں سے آپ بات کرتے سے بھی اجتناب کرتے ہیں، ایسے سارے کام یہاں اکثر غیر ملکی ہی کرتے ہیں، وہ یہ سارے کام اس لئے بھی کرتے ہیں کہ ان کے پیشِ نظر ایک مقصد ہوتا ہے، کہ دو بھائی ہیں جن کو پڑھانا ہے، دو بہنوں کی شادی کرنا ہے، اور جن لوگوں کے حالات سدھر جائیں ان کا فیض گلی محلے سے ہوتا ہوا شہر والوں تک چلا جاتا ہے۔
اپنی ماں کا زیور یا بہن کا جہیز بیچ کر نوجوان پاکستان سے باہر نکلنے کی کیوں نکلتے ہیں اس کے لئے ہر شخص کی محرومیوں اور مجبوریوں کی اپنی علیحدہ داستان ہے، اور جیسے تیسے ان پتھریلی زمینوں میں وہ اپنی جگہ بناتے ہیں اس داستان کے لئے بھی کتا بیں درکار ہیں۔
لیکن اس بات سے کوئی صاحبِ ہوش انکار نہیں کر سکتا کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے دل پاکستان کے لئے دھڑکتے ہیں اور اکثریت پاکستان کے ساتھ مخلص ہے، اور ہر مشکل کی گھڑی میں ایک قوم کی طرح پاکستانیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں، ،
دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر پاکستانی سیاست میں پابندی کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سر آنکھوں پر، لیکن اربابِ اختیار کو چند باتوں پر دوبارہ غور کرنا ہو گا، سب سے اہم بات کہ کیا ان کو اب بیرون ملک پاکستانیوں کی مدد کی ضرورت ہے یا نہیں۔۔۔اگر یہ خیال غالب ہے کہ ہمیں اوورسیز پاکستانیوں کو ساتھ لیکر چلنا ہے تو زمینی حقائق کچھ اس طرح سے ہیں، دنیا کا کوئی ملک بھی اب پاکستانیوں کے لئے خوش آمدید کرنے والا نہیں رہا، جس طرح سے ستر کی دہائی میں لوگ سکینڈے نیویا منتقل ہوے، یا اس سے پہلے سے برطانیہ بھی پاکستانیوں کو سموتا رہا، یا بہت سے لوگ کینڈا چلے گئے، اب صورتِ حال بدل چکی ہے، جو آ گئے سو آگئے، نئے آنے والوں کے لئے حالات سازگار نہں رہے، سب سے آخری کھیپ گرین کارڈ ڈنمارک کی صورت میں ایک ہزار کے لگ بھگ پاکستانی ڈنمارک آئے ۔غیر قانونی طور پر آنے والوں کی تو خیر بات ہی الگ ہے، اب باوجود اعلی تعلیم کے آپ کا نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، کینڈا کی شہریت کے لئے درخواست بھیجنا ہی مشکل ھوتا جا رہا ہے، قصہ مختصر آنے والے دنوں میں بہت زیادہ پاکستانیوں کے باہر آنے کے امکان بہت حد تک کم ھو چکے ہیں۔
اب رہی بات ان لوگوں کی جو پرانے رہنے والے ہیں تو پاکستان میں پیدا ہونے والوں کی آخری نسل کی فصل پک چکی ہے، برطانیہ ، امریکہ، کینڈا، میں چوتھی، پانچویں اور سکینڈے نیویا میں دوسری، تیسری نسل کے پاکستانی آ چکے ہیں، بیرونِ ملک پیدا ہونے والے بچوں میں اردو سیکھنے، پاکستان اور اس کے مسائل کو سمجھنے کا وقت نہیں، انہوں نے اصول پسند معاشرے میں جنم لیا ہے اور وہ اپنی بات دلائل سے کرنے کے عادی ہیں، ان میں یہ خیال جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ پاکستان نے برے تعارف کے سوا ان کو اور کچھ نہیں دیا۔ اس نسل میں پاکستان کے محبت تو ہے لیکن اتنا جذباتی عنصر مفقود ہے جتنا دیس کی مٹی کا مکینوں کے ساتھ ہوتا ہے۔  ان میں اکثریت اب پاکستان پلٹنا بھی نہیں چاہتی۔
دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں پر پاکستانی سیاست میں داخلے کا راستہ اگر قانون روکتا ہے تو میں ہرگز اس کی حمایت نہیں کرتا، ایک سچے، کھرے پاکستانی کو ہی پاکستان کا نمائندہ ہونا چاہیے، اس پابندی کا مقصد اگر اس چور دروازے کو بند کرنا ہے، جس کے ذریعے من چاہے دوہری شہریت کے حامل لوگ امپورٹ ہو جاتے ہیں تو بھی یہ سر آنکھوں پہ ہے۔۔لیکن یہ ضرور سوچا جانا چاہیے کہ اس ٹوٹتی ہوئی تسبیح کے دانوں کو کیسے جوڑا جائے، پاکستان میں رہنے والے مانیں یا نہ مانیں گذشتہ دو سالوں کے تجربے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہاں جن لوگوں نے دس، بیس برس بتائے ہیں وہ اب کندن ہو چکے ہیں اور ان کے تجربات کا فائدہ ملک وقوم کو ضرور اٹھانا چاہیے۔ اگر دوسری اور تیسری نسل کے پاکستانیوں کو پاکستان سے جوڑنا ہے تو بیرونِ ملک پاکستانیوں کو اسمبلیوں میں نمائندگی ضرور ملنی چاہئے، اس کے ایک یا دو مخصوص نشتوں کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے، کلیدی وزارتیں نہ سہی اوورسیز پاکستانیوں کی وزارت تو کسی ایسے شخص کے لئے مختص کی جا سکتی ہے جس نے پندرہ، بیس سال وطن سے باہر گزارے ہیں۔
،   




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں