پاکستانی سیاسی جماعتوں کا کوپن ہیگن میں مستقبل


پاکستانی سیاسی جماعتوں کا کوپن ہیگن میں مستقبل

پاکستان کی تقریباً ساری بڑی جماعتو ں کے نام لیوا  آپ کو کوپن ہیگن میں بھی  ملیں گے ۔شہر کے جتنے بھی چنیدہ لوگ ہیں وہ کسی نہ کسی پارٹی کے عہدیدار ہیں اور کچھ لوگوں کی تو اپنی سیاسی پارٹیاں ہیں۔  جو لوگ کوئی پارٹی نہیں بنا پائے انہوں نے کسی چھوٹی سی انجمن یا گروپ کی بنیاد رکھ دی۔ کچھ دوستوں کا ذوقِ سیاست مسجد کے منبر تک جا پہنچا ہے ۔ اور وہ مسجد کی پر امن کمیٹیوں میں بھی مضطرب بازاری سیاست کے مزے لینے سے باز نہیں آتے۔ غرضیکہ جن لوگوں کو بھی دوست رکھنے کا دعوٰی ہے وہ کسی نہ کسی پارٹی کے عہدیدار ہو ں گے۔
پچھلے دنوں سننے میں آیا کہ مسلم لیگ ق لیگ کے نام لیواوں میں دو مختلف دھڑے بن گئے اور انہوں نے اپنا اپنا صدر علیحدہ علیحدہ منتخب کر لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی چوہدری شجاعت کی منظوری لے آیا اور کسی کے پاس پرویز الہی کا پرمٹ ہے۔ ۔۔کسی کو کچھ نہ ملا تو  مشرف صاحب کے چاہنے والوں میں شامل ہو گیا-
کوپن ہیگن کے دوستوں کی ان سیاسی سرگرمیوں کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو لیکن تعارف کروانے میں سہولت رہتی ہے- مثلاً دیکھئے  کتنا بھلا لگتا ہے جب کوئی آپ کے نام کے ساتھ کہے یہ ڈنمارک میں مسلم لیگ کے صدر ہیں یا نائب صدر ہیں یا  پیپلز پارٹی  ڈنمارک کے صدر صاحب ہم میں موجود ہیں  یا پھر آل پارٹی مسلم لیگ ڈنمارک کے روح رواں حاجی فلاں فلاں ہمارے سامنے تشریف فرما ہیں۔ واقتا ً
 یہ تصور بہت بھلا ہے –
گذشتہ دنوں ایک صاحب سے ہم پوچھ بیٹھے کے کام کیا کرتے ہیں کہنے لگ اپنی ایک "فرم" ہے۔ پوچھا کے فرم میں کوئی کام بھی ہے کہ نہیں تو کہنے لگے آجکل معیشت کے برے حالات ہیں وغیرہ  وغیرہ۔۔۔ ۔۔ایسے ہی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے بڑے عہدیدار  سے جب میں نے پوچھا کے سچ بتائے کہ پاکستان میں اس پارٹی عہدیداروں کو پتا بھی ہے کہ نہیں کہ آپ ڈنمارک میں ان کے فرنچائز ڈیلر ہیں تو وہ صاحب  جاننے والا ہے۔ تو مسکرائے اور بولے یار میراایک ایم -پی-اے جاننے والا ہے۔ اس کے علاوہ تو ابھی کسی سے آشنائی نہیں ہے۔بہت سے گھاگ عہدیداروں  نے برس ہا برس خدمت کے بعد کچھ پاکستانی سیاسی مہروں اور عہدیداروں سے کچھ علیک سلیک کی ہے۔ اور اکژ ان کی دوستی پاکستان امریکہ جیسی ہی ہوتی ہے – فرمائشوں کے لمبی فہرست اور خدانخواستہ کوئی کام پڑ کائے تو ان کو دورہ پڑ جاتا ہے ۔
کوپن ہیگن کی ساری سیاسی جماعتیں مل کر ابھی تک کمپیوٹرائزڈ پاسپورٹ تک یہاں کے باسیوں کی رسائی ممکن نہیں کر سکیں ۔ مسائل  کی ایک طویل فہرست ہے جو ابھی حل طلب ہے ان کا ذکر کبھی اور کے لیے اٹھا  رکھتے ہیں ۔
جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ صرف اتنی سی ہے کہ ڈیڑھ ڈہڑھ اینٹ کی مسجدوں  میں بٹ کر کسی کا کچھ نہیں بننے والا۔ یہ لیگیں اور پارٹیاں نام اور تذکروں کی حد تک تو بھی ہیں لیکن اس بے لذت سیاست کے نام پر نئی دیواریں کھڑی کر لینا کوئی دانش مندی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کوپن ہیگن کی کوئی گلی ایسی نہیں جہاں سیورج لگوایا جانا ہے یا پھر بجلی کے کھمبوں کی حاجت ہے۔ میں پارٹیوں اور فرقوں میں بٹے پاکستانیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ہم غریب الدیار دوستوں کو پوری ذمہ داری اور ایمان داری سے ایک قوم کی طرح اس معاشرے کا اہم جز بنتے ہوئے اپنے وطن کے لیے صحت مند کردار ادا کرنا  ہے۔ اگر ہم یہاں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹتے چلے گئے تو ہم اسی بھیڑ چال کا حصہ ہوں گے جو سالوں سے دیس کی گلیوں میں جا  رہی ہے-
خدارا  ! اس سرمایہ کی طرف دیکھئے جو آپ نے مہذب قوموں سے سیکھا ہے۔ ایمانداری ،  حب الوطنی، اصول پرستی سے گندھا ہوا پورا ڈنمارک ہماری آنکھوں سے اندھی عینکیں  اتارنے کے لیے کافی ہے مگر  سیکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم  اپنے گرد چھوٹی چھوٹی دیواروں کو گرا کر صرف اور صرف  پاکستانی بن کر سوچیں-

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں