شاہراہیں بند کرنے کا ہڑتالی فیشن اور بے چارے مسافر

چیچہ وطنی میرا شہر ہے اور عید کی رات یہاں صرافہ بازار میں ایک بڑا ڈاکہ ڈالا گیا، بقول شخصے ڈاکو پولیس کی گاڑی اور وردیوں میں آئے اور انہوں نے چوکیدار کو بلایا اور سرزنش کی اور کہا کہ تم ڈیوٹی درست نہیں کر رہے اور کہا۔۔۔ بلاو اپنے دوسرے چوکیداروں کو ۔۔۔۔جب وہاں مارکیٹ کے باقی چوکیدار اکھٹے ہو گئے تو ڈاکووں نے ان کو باندھا اور گیارہ دکانوں کو لوٹ کر فرار ہو گئے۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے بیس سے پچیس کروڑ کے زیورات لوٹ لیے گئے۔۔۔۔۔انتظامیہ کی سستی کی جتنی بد تعریفی کی جائے اتنی ہی کم ہے۔۔۔اور جتنی زیادتی ان سناروں کے ساتھ ہوئی ان کا دکھ بھی ناقابل بیان ہے۔۔۔۔۔
آج اسی وجہ سے انجمن تاجران کے جیالوں نے چیچہ وطنی سے گذرنے والوں سبھی راستے بند کر رکھے تھے۔۔۔چیچہ وطنی لاہور ملتان ،بورے والا اور فیصل آباد تک جانے کاانتہائی اہم راستہ ہے۔۔۔اس لئے شادیوں کے اس موسم میں بے شمار بھولی بھٹکی گاڑیاں چھوٹی سٹرکوں پر دھول اڑاتی پھر رہی تھیں۔۔۔

مجھے بھی آج شام گھر سے خانیوال تک آنا تھا۔۔۔میں نے اپنا صبح کا پروگرام سہہ پہر تک موخر کردیا تاکہ اس ہڑتال کے اثرات کچھ کم ہو جائیں۔۔۔۔شام چار بجے رخت سفر باندھا تو سٹرکیں بدستور بند تھیں۔۔۔۔۔بارہ ایل کی نہر کے ساتھ سے ایک راستہ ملتان روڑ پر چڑھتا ہے۔۔۔گاڑی اس طرف موڑی تو آشکار ہوا کہ ساری ٹریفک کا رخ اسی سٹرک کی طرف ہے۔۔۔۔گاوں کی کچی سٹرکیں دو طرفہ ٹریفک کا بوجھ کیوں کر اٹھا سکتی ہیں اور وہ بھی ہم ایسی ٹریفک والے ملک میں جہان بڑی گاڑی کا مزاج راستے کے اصول متعین کرتا ہے۔
تقریبا ایک گھنٹے کی دھول خوری کے بعد ملتان روڑ تک واپس آئے اور دوبارہ اپنا سفر آغاز کیا ہے۔۔۔صد شکر کے راستے میں کسی اور کو ہڑتال مقصود نہ تھی اس لئے ایک گھنٹے کی تاخیر ہی سفر کا حصہ بنی۔۔وگرنہ جس طرح کے احتجاج ہماری سڑکوں کا حصہ ہیں۔۔وہاں گاڑی کے شیشے توڑ دئے جانا، موٹر سائیکل کو آگ لگا دینا وغیرہ معمولی باتیں تصور ہوتی ہیں۔
پولیس کا گاڑیاں نجانے کس حکم کی منتظر ایسے ہجوم کی حفاظت کرتی دکھائی دیتی ہیں۔۔۔لوگ ایسے احتجاج پر کیوں اتر آئے۔۔۔کتنے لوگوں کے ضروری کام ان ہڑتالوں کے چکر میں تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔۔لیکن اس نوع کی ہڑتالیں ہمارے ہڑتال کلچر کا حصہ ہو گئی ہیں۔۔۔سڑک سے گذرنے والے راہ گیروں کا قصور کیا ہے؟
کیا ان منتخب نمائندوں تک آواز پہنچانے کا کوئی اور موثر ذریعہ ہی نہیں؟؟؟ کیا اس قسم کی ہڑتال کے بغیر انتظامیہ کا کانوں پر جوں نہیں رینگتی؟؟؟کیا ہماری حکومتیں اتنی بے بس ہوچکی ہیں کہ لاشوں کو جب تک سر بازار نہ لایا جایا عدل کے ایوانوں میں کوئی زنجیر نہ ہلے؟؟؟اور ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جو ہم تو ڈوبے ہیں تم کو بھی لے ڈوبیں گے کی تفسیر ہو چلے۔۔۔اپنا کاروبار بند ہوا تو کسی اور کا کیونکر چلے؟؟کب کوئی درد کے ماروں کا درماں کرے گا اور کب ہماری معلومات علم کا شرف حاصل کریں گی؟؟؟؟ دھول مٹی، اندھے راستے، بے گوروکفن لاشے، ۔۔۔۔مرتی ہوئی قوم کا نوحہ ہیں۔۔۔کوئی سنے نہ سنے۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں