اٹھو کہ وطن کی مٹی پکارتی ہے

اے خاک نشنیو اٹھ بیٹھو کہ وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جب
تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو کہ وطن کی مٹی پکارتی ہے، اٹھو کہ اس دھول سے پھول اگ آئے ہیں، جس کو میرے باپ نے اپنے لہو سے سینچا تھا، اٹھو کہ ریگ زار جستجوئے آزادی کی دھوپ پھانکنے والے سپاہی پکارتے ہیں کہ
تیرے صوفے ہیں افرنگی ، تیرے قالین ایرانی
کہ لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اے بے سمت اور بے رہبر قوم کے بہادو نوجوانو اٹھو کہ پھر تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں، اٹھو کہ آج ہمیں اپنا منصب پہچاننا ہے، اٹھو کہ ہم طے کریں کہ اپنی زندگی شکوہ ظلمت شب کی نذر نہیں کر دیں گے۔
اٹھو کہ آج فیصلہ کا حق ہمارے ہاتھ میں ہے۔
جامعہ زرعیہ کے ایوانوں میں مسکراہٹوں کے پھول کھلانے والو۔ یہ دھرتی آج تم سے اپنے احسانوں کا صلہ مانگتی ہے، کیا تم بھی اپنے پیش رووں کی طرح کاغذ کے ایک پرزے کو سر کا تاج بنا کر روزگار کی گردش میں گم ہو جاو گے؟ یا پھر تمہارے جفاکش ہاتھ دھرتی کے سینے کو چیر کر اناج کے خوشے نکالیں گے، تمہارے پسینوں کے پانی سے فصلیں لہلہائیں گی، تمہاری نگاہوں کی دور اندیشیوں سے نئے اناج اور مئیووں کے در وا ہوں گے۔ تمہاری سوچ اور بصیرت اولاد آدم کے سر سے قحط کا خوف اتار پھینگے گی۔ آو آج فیصلہ کریں کہ ہم بانٹیں گے دھرتی کا غم ، پھولوں کو تقسیم کریں گے، کانٹوں کو تقسیم کریں گے، پم کھلائیں گے نئے پھول، ہم بسائیں گے نئی بستیاں، آو طے کریں کہ ہم وہ کریں گے جو ہم سے پہلے نہیں کر پائے۔
سامعین محترم
میں اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ ایک انقلاب کی آہٹ محسوس کرتا ہوں، منتظر زیدی کا جوتا بش کے منہ پر نہیں بلکہ ہر طاقتور کے منہ پر تھا جو کمزوروں کو اپنی جنگ میں جھونک دیتا ہے، شاہزیب کے قتل پر عوامی شور کی بیداری کی پہلی لہر سمجھتا ہوں۔ پروٹوکول کے راستے میں کھڑے ہو قافلے کا رخ موڑے والے اسلام آباد کے شہریوں کو ہراوال دستے کے پہلے سپاہی سمجھتا ہوں، کراچی کے گٹروں کے ساتھ وزیراعلی کی تصویر بنانے کے عمل کو ہوشمندی کی جانب ایک قدم گردانتا ہوں، ملاوٹ کی فیکٹریوں پر اقرار حسین کا ہر حملہ میرے پاکستان کے چہرے کو ایک روشنی پخشتا ہے، گندگی فروشوں پر لاہور کی فوڈ اتھارٹی کی جنگ ایک روشن راستے کی نشاندہی کرتی ہے۔
جناب صدر
جتنی ہمارے لہو کی ضرورت آج ہے اتنی کبھی نہ تھی، بلوچستاں کی بے چینیوں کے پیچھے کارفرما ہاتھ کونسے ہیں؟ سرحد کے چمنستانوں میں بارود بانٹنے والے کس ریاست کے طالب ہیں؟ پنجاب کی سڑکوں پر دہشت گردی کے مظاہرے کس بات کے مظہر ہیں؟ آج ہمیں ہر محاذ پر دشمن کا سامنا ہے، دنیا ہمیں ناکام ریاست قرار دلانے کے درپے ہے۔ اقوام عالم کی زبان پر بھارتی سفارت کاری کی بولی ہے۔ ہمارے علم انگریزوں کی کتابوں کے کتبے ہیں۔ ہمارے ذہن شورش اغیار کی آوازیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہماری معیشت امداد اور بھیک کی منتظر ہے۔ ہمارا ادب ایس ایم ایس کی غلاظتوں میں گم ہو گیا۔ ہمارا مزاح تھیٹر کی غلیظ جگتوں کی نذر ہو گیا۔ ہمارا معاشرہ اپنی تصویر ڈھونڈتا ہے، ہماری معاشرت رشتوں کی پہچان کھونے لگی، اور ہمارے کھلیان بھوک اگانے لگے۔
کہ اب اٹھو کہ وطن کی مٹی پکارتی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں