دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ نہ لگا


اس لئے حالتِ مسمار میں رکھی ہوئی ہے
زندگی شاخ نے دیوار میں رکھی ہے۔

اکثر یہ شعر مجھے پاکستان کی صورتِ حال پہ صادق لگتا ہے۔اس حالتِ مسمار کی وضاحت کے لئے کسی مہربان نے کہا تھا کہ

دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ نہ لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ سہارا نہ دے مجھے۔

ہماری بنیادوں کا کھوکھلا پن لوگوں کے لئے سوالیہ علامت ہے۔گزشتہ دنوں جاوید چوہدری صاحب اس کھوج میں تھے کہ ایک ویٹرس لیڈی گاگا عروج تک جا پہنچی ہے، اور دیگر بیشمار چھوٹے چھوٹے کا موں سے وابستہ رہ کر بھی شہرت کے آسمان تک پہنچے۔ آخر ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوتا۔پاکستانی گریجویٹ ایسے چھوٹے چھوٹے کام کرنے میں خجالت کیونکر محسوس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔اِس ساری بات کو سمجھنے کے لئے دیوارِخستہ کو ایک دھکے کی ضرورت ہے، کیونکہ
کانپتے ہاتھوں سے ٹوؔ ٹی ہوئی بنیادوں پہ جو بھی دیوار اٹھاو گے وہی کج ہو گی۔
پا کستان کے اکثر لکھنے والے یورپ کے متعلق بہت سی خوش گمانیوں کا شکار ہیں، سنی سنائی کہانیوں اور چند روزہ سیروتفریح میں یورپ کے بودوباش کا اندازہ تو کیا جا سکتاھے، لیکن کوئی قابلِ عمل نسخہ حاصل کر لینا ۔۔دلی دور است کی تعبیر ہوا کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ لمبے عرصے کی ریاضت ہے، کم از کم دو سال اور وہ بھی ایسے عملی سال جن کو آپ نے اپنے ہاتھوں سے تراشا ہو۔۔۔ نا کہ پشتنی روپیہ پیسہ اجاڑہ ہو۔ خیر آمدم برسرِمطلب۔۔۔۔۔۔احباب اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ کی اچھائیوں میں بنیادی محرومیوں کے خاتمے کا مساواتی درس جو ہما رے دین کے نورانی قاعدے میں تھا، اس پر پوراعمل کیا جاتا ھے۔ اور ہمارے ہاں الکاسب حبیب اللہ کی سچائی ہوتے ہوئے بھی لوگ اللہ کے دوستوں کو کمی کمین جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایسے دوغلے معاشرے میں ایک پڑھے لکھے شخص سے جسمانی مشقت کی توقع کیونکر کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں جو تفر یق طبقاتی تقسیم نے پیدا کی ہے ، بڑے بڑے دانشور اس کو جمع کرنے سے قاصر ہیں۔
دوسری اہم ترین بات معاوضہ ہوا کرتا ہے، کہ آپ نے جو کام کیا ہے اس کی اجرت کیا پائی۔۔۔۔یورپ میں جن کاموں کو ماٹھا کام کہا جاتا ہے، جیسے ہوٹل میں برتن دھونا، صفائی کا کام، اخبار پہنچانا، پیزا ڈلیوری۔۔۔۔۔گھنٹوں کے حساب سے اگر آمدن کا حساب لگائیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک مزدور کرسی پر براجمان شخص سے زیادہ کماتا ہو۔ ہمارے پاکستانی بھائی جو یہاں علم کی دولت سمیٹنے آتے ہیں ان میں سے اکثر شام میں یا چھٹی کے دن کام کر لیں تو اپنا گزارہ کر سکتے ہیں، تھوڑی ہمت رکھنے والے پاکستان میں اپنے گھرانوں کو بھی سپورٹ کر لیتے ہیں۔۔۔لیکن اگر آپ پاکستان میں کسی کو تعلیم اور جاب ساتھ ساتھ چلانے کا مشورہ دیتے ہیں تو زمینی حقائق آپ کے سامنے ہیں کہ کام اور کام کے اوقات مقرر نہیں، اکثر احباب کہتے ہیں کہ دفتر جانے کا وقت تو طے ہے لیکن آنے کا نہیں۔۔کیونکہ جب تک صاحب اور سیٹھ دفتر میں ہیں، دفتر کھلا ہے۔۔۔چلیں یہ فرض کر لیں کہ آپ کا پالا کسی مہربان سے پڑگیا ہے تو آپ کمائیں گے کیا۔۔۔۔ایک چھوٹی موٹی جاب آپ کو کیا دے سکتی ہے۔۔۔۔کوئی کتنا ہی دم مار لے، سانسوں کی ڈور تھامتے تھامتے دم پھول جاتا ہے، ۔۔۔۔۔۔
پیارے جاوید چودھری صاحب! یہ کہانیاں جن میں ایک ویٹر نامی گرامی سنگر بن جاتی ہے اور ایک برتن دھونے والا ہوٹل کا مالک بن جاتاہے، ۔۔۔۔۔یہ سب متوازن معاشروں کی کہانیاں ہیں اور پاکستان کے لئے سیٹھ لوگوں کی
زبان کا چسکہ کہ جن کے تڑکے کے ساتھ وہ پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہڈیوں سے گودا چوس سکیں، ان کو رات گئے تک دفتر میں بٹھا سکیں،ان کی صلاحیت کا ناجائز فائدہ اٹھا سکیں۔
اس بدنظمی کو متوازن کرنے کے لئے ہماری معاشرتی تقسیم کی بنیادوں کو از سرِنو تعمیر کرنا ہو گا۔۔۔۔انشاء اللہ آنے والے دنوں میں کوشش کروں گا کہ بساط بھر یورپی نظام سے پاکستان کے لئے قابلِ تقلید عوامل کی نشاندہی کر وں۔
والسلام 

گزشتہ سال کی اچھی خبر



حا دثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ رکے نیہں حادثہ دیکھ کر۔


یاد وطن


بسم اللہ الرحمن الرحیم 

"یاد وطن" 


بہت دفعہ قلم اٹھاتا ہوں اور بھول جاتا ہوں کے کہانی کا آغاز کیا تھا۔ وہ سارا ماجرا کیا تھا جولکھنا تھا اور وہ کون لوگ تھے جو میرے مخاطپ تھے ۔ دیس سے باہر ہوں لیکن دیس اپنے دل میں بسا ہےکبھی لگتا ہی نہیں کہ وطن سے باہرہوں- -ـ--------- لگتا ہے کہ اس چوک کے بعد جو پہلا اشارہ ہے اس سے دائیں ہاتھہ جو پہلی گلی ہے وہیں اپنا گھر ہے- گھرکا ٹی وی، انٹرنیٹ، اخبار، اور ریڈیو سب پاکستان کی گلیوں سے جڑے ہوئے ہیں- وہی سارے سیاسی مزاکرے جو لاہور کی بیھٹکوں میں سنا کرتے تھے اسی ذائقے کے ساتھہ جلوہ گرہیں وہی مزدوری کے جھنجھٹ، کہ صبح گھر سے نکلو اور شام گھر کو لوٹو ، گھر کے مسائل، اچھی ذندگی کے آنے کے خواب، سارا کچھہ اسی تابانی سے جلوہ گر ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ پاکستان سے اتنی دور نکل آتے ہیں- ہاں جب ٹیلیفون کے بل پرپاکستان کی کالز کی رقم پڑھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ اس جگہ سے ذرا دور ہے جہاں من بسا ہے- کبھی کبھی "بے وفا" دوستوں کی یاد احساس دیلاتی ہے-اب تو اکژ ایسا ہوتا ہے کہ ٹیلیفون کی گھنٹیاں دوستوں کے دلوں پر دیتی ہیں اور چپ چاپ پلٹ آتی ہیں پھر وہاں سے کوئی سندیسہ، کوئی ای میل، کوئی میسج یا "مس کال"بھی نہیں آتی- جب کبھی یاد کی چبھن سے بے قرار ہم فون کر لیں تو کر لیں اعلی عہدوں اور مصروف زندگی کی دوڑ جتیتے احباب ہمارے خطوں(ای میل)کا جواب بھی نہیں دیتے- ان کی مصروف زندگیوں میں تارکینِ وطن دوستوں کیلئے اب کوئی وقت نہیں رہا –شاید انہوں نے یہ طے کر لیا کہ یہ لوگ ہماری زندگی سے چلے گئے - ہماری زندگی کے بوجھ کو ائیر پورٹ کی دیوار پیچھے پھینک کر وہ اپنے فرض سے ادا ہو گئے اور اب جس ------------- دن دوبارہ ان کے دروازوں پر دستک دیں گے تو جدائی میں بیتے ایک ایک لمحے کی داستان کہہ سنائیں گے اور اگر کبھی ملاقات نہیں ہو 
گی تو وہ اپنی خاموش یک طرفہ محبت کی آگ میں جلتے جلتے اپنی اپنی زندگی گذارتے رہیں گے

کبھی کبھار تو "یاد وطن" کا سارا چہرہ پرانے دوستوں کی"دشمنیاں" کِر کرا کر دیتی ہیں اور دل بے اختیار چاہتا ہے کہ کا ہے کو جائیں وہاں لوٹ کر کیا پڑا ہے وہاں ----------- بے رحم حکمران، بے حس عوام ، بے بس نظام ------بے وفا دوست ، یہاں ایک آسرا تو یے کہ "مارا دیا رغیر میں اپنے وطن سے دور"------------------------ !

مگر حالات کی تلخی میں اگر کچھ سیکھا ہے تو عاجزی سیکھی ہے – برداشت کی حد ہے کہ اب ظبط کرنا چاہتے ہیں – ہمارے غرور اور گھمنڈ میں اب "مان" کی طاقت بھی نہیں رہی – ایک اچھی یاد کی طرح کسی خوبصورت خواب کیطرح وطن کی یادیں گدگداتی ہیں- ایک مسکراہٹ لبوں پہ کھیل جاتی ہے- ایک آنسو پلکوں کے کناروں تک آتا ہے اور پلٹ جاتا ہے- سوچتا ہوں وہ کیا خواب تھے جنہیں ڈھونڈنے نکلا ہوں وہ کیا لوگ تھے جنہیں گنوایا ہے-

وطن کے خوش قسمت لوگو! غریب الدیار لوگوں تمہیں یاد کرتے ہیں – ان کی گفتگو کی ہر تان میں تم ہو! ان کی پریشانی کا ہر تار تم سے جڑا ہے- ان کی خوشی کی ساری کرنیں تمہاری خوش بختی سے پھوٹتی ہیں محمد رمضان رفیق

جاوید ہاشمی -سالگرہ مبارک

جاوید ہاشمی -سالگرہ مبارک
نو جوانوں کی سی امنگ ترنگ رکھنے والا جاوید ہاشمی  آج تحریک کے کاروان کا حصہ ہےِ، اور سمجھتا ھے کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔
،محترم عرفان صدیقی صاحب http://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=12-30-2011/Pindi/images/06_03.gif نے دو چار دن کی قلمی مشقت کے بعد یہ نتیجہ اخز کیا ہے کہ ـ۔ایک بات طے ہے کہ ہاشمی کو کارکنوں کی وہ بے لاگ محبتں نہ مل پائں گی جنہیں وہ روتا بلکتا چھوڑ آیا ہے۔ ۔۔۔۔۔انہی کے توسط سے یہ بھی پتہ چلا کے ھاشمی کے جیل جانے کے عرصے میں ان کا، ان کے مہمانوں کا اور جیل والوں کا کھانا ۔۔۔۔جو کسی دعوت سے کم نہ ہوتا تھا میاں صاحب کے گھر سے جاتا تھا۔۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔پرواز میں کوتاہی اور اتنی  دیر تک ن لیگ کو جھیلنے کی وجہ اب کچھ کچھ سمجھ میں آتی ہے۔
دوستو !!!!
ایک بات کو میں بھی حتمی سمجھتا ہوں کہ
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کھہن پہ اڑنا
منزل کٹھن یہی ہے ، قوموں کی زندگی میں

انسان کی زندگی کے مشکل فیصلو ں میں سے بڑا اور مشکل فیصلہ اپنی سابقہ روش میں اصلاح کا ہوا کرتا ہے۔ آزادی کی خواہش کے باوجود جمود انسان کو جکڑے رکھتا ہے۔ اور جب خواہش عمل کا جامہ زیبِ تن کرتی ھے تو ایک جھٹکے سے آدمی جمود کی قید سے آزاد ہوتا چلا جاتا ھے، اور اپنے گرد جمی ہوئی کائی اور دھول سے نجات پا لیتا ھے۔ گو کہ اپنے من میں ڈوبنے اور اپنے پیکر کو پا لینے میں وقت تو لگتا ھے مگر آدمی کے ہاتھ اپنی اصل تصویر لگ جاے تو پھر تاویلں اور
دلیلں اپنے معنی کھو دیتی ھہں اور آدمی کو صاحب حال کر دیتی ھیں۔
جاوید ہاشمی نے طرزِ کہن کو خیر باد کہا ھے کہ وہ باخبر ہے کہ ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نیہیں آ ہوِ تاتاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس تعلق کی سب سے خوبصورت بات یہ ھے کہ وہ پاکستان  کے لئے میدان میں ا یا ھے۔ ۔۔۔۔ویسے تو یہی وہ فقرہ ھے جس کی حرمت کو سب سے زیادہ پا ما ل کیا گیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پا کستان کے وسیع تر مفاد میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن خدا کرے کے سچے آدمی کو سچ نبھانے کی توفیق ملے۔۔۔۔۔۔
اکتیس دسمبر کو جاوید ھاشمی چونسٹھ و یں سال میں داخل ہو جا ئیں گے۔ یہ ان کا تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کے بعد پہلا جنم دن ہو گا۔۔۔۔۔۔میں سبھی دوستوں سے، تحریک کے کا ر کنوں سے التماس کرتا ہوں کہ جاوید ھاشمی کو محبتوں اور مسکراہٹوں کا تحفہ ضرور پیش کریں تاکہ ہم یہ رقم کر سکیں کہ سچ اور سچے کو چاہنے والے کبھی کم نہیں ھوتے۔
جاوید ھاشمی صاحب۔۔۔۔۔۔ھمیں آپ سے محبت ھے، خدارا اس کرپٹ نظام کے خاتمے کے لئے آگے بڑھیں اور پرانی رفاقتوں کو قومی مفاد کے راستے میں حائل نہ ہونے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدا کرے کے نیا سال آپ کے لئے کامرانیاں لے کر آے۔ 

میرا،تیرا اور ھمارا پا کستان

میرا،تیرا اور ھمارا پا کستان

اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا کے مصداق دل کہیں سے کاغز ،قلم ڈھو نڈھ لایا ہے۔ کچھ باتیں جو قطرہ قطرہ اکٹھی ہو کر بد بو دار لہروں میں ڈھلنے لگی ہیں کہ میرے ملک کی سیاست پر چھاےء ہوے سیاسی سامریوں کے سحر میں الجھے ہوے بے شمار کاتب اور ان کے اپنے ہی لفظوں کی سیاہی میں غرقاب بھیانک چہرے مجھے اس خوف میں مبتلا کیے ہوے کہ کہیں سارے گلستان پر ان کی سیاہی کا رنگ نہ چڑھ جاے۔ وہ جن کے لفظو ں سے لاہوری کھابوں اور چھچھوڑی بوٹیوں کی بو آتی ھے اب وہی وقت کے دانشور ٹھرے۔ سارے باتوقیرلفظوں کی حرمت دربار جاہ و حشمت میں ڈھیر کر کے آقاوں کے لبوں پر بکھرتی مسکراہٹوں کے طالب اپنے لیے بھی ویسے ہی مخملی لفظوں اور تعریفوں کے خواہاں ہیں۔ لعنت ہے جھوٹوں پر، ان لوگوں پر جنہوں نے اپنے زور قلم سے صرف قصیدے تراشے ۔ جنہوں نے سب اچھا ھے کی گردانو ں میں کسی صاحب ہوش کو اقتدارکی مسند تک پہنچنے نہیں دیا۔ میں واشگاف لفظوں میں بوسیدہ نظام حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں۔ ان سیاسی گدھوں اور ِگدھوں کو خبردار کرتا ھوں، جنہوں نے اپنی ھر باری میں میرے پاکستان کی مشکلوں میں اضافہ کیا۔ میں اپنی 30 سالہ زندگی کی ساری بصیرت کے ساتھ سمجھتا ھوں کہ ن لیگ یور پیپلزپارٹی کا خاندانی نظام اب ختم ہونا چاہیے۔ یہ لوگ ناکام لوگ ہیں ان کا ماضی اور حال چلا چلا کر کہتا ھے کہ یہ آنے والے سو سال تک بھی تبدیلی نہیں لاءیں گے۔ اب اس کے بعد میرے پاس پاکستان کی بہتری کے لیے کوئی سوچ ہے تو وہ ایک متبادل سیاسی قوت یا نظام ہے۔ اور فی الوقت عمران خان ایک بہترین متبادل، متوازن اور متوازی امیدوار کی طور پرابھر رہا ہے۔ احباب کو خان سے شکایتں ہیں اور ان کے چاہنے والوں سے بھی۔ وہ ایسی کتابی اصطلاحات کا سہارا لیکر تحریک کو ناکام قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو ابھی پاکستان میں وارد ہی نہئں ہو یں۔ سوال بے شمار ہئں جن کا جواب ایک ہی ہے کہ وہ جو 62 سالوں میں نہ ہو پایا اس کی امید اس کی حکومت آنے سے پہلے تو مت لگاو۔ میں پاکستان میں خاندانی نظام سیاست کی بساط لپیٹنے کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔یہ آصفہ بنت زرداری کا نہیں عارفہ کریم کا پاکستان ہے، یہ بلاول،حمزہ،اور مونس کے غلاموں کا نہیں،یہ میرا،تمہارا اور ہمارا پاکستان ہے۔ یہاں اب تبدیلی آے گی ضرور آے گی۔انشاءاللہ۔ ............

ما در ملت

ما در ملت
انیس سو ستا سٹھ کا سال، جولائی کا مہینہ، کراچی شہر کے وسط میں چھ لاکھ لوگوں کا ہجوم۔۔۔۔۔۔سبھی دفاتر، کارخانے اور دوکانیں بند ہیں۔۔۔۔۔۔ روشنیوں کے شہر پر موت کی تاریکی کا راج ہے۔ ریڈیو پاکستان نے قومی سطح پر چھٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سر نگوں کر دئیے گئے ہیں۔ لوگوں کا ہجوم بڑے بے ہنگم انداز میں مزارِ قائد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سرکا ر ہجوم کو روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن لوگ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ پولیس لاٹھی چارج کر تی ہے۔ آنسو گیس پھینکتی ہے۔ ہجوم کی بھیگتی آنکھیں اور بہنے لگتی ہیں۔ پولیس عوام کو للکارتی ہے۔ مگر فضا میں دبی دبی آہوں اور کھلی کھلی سسکیوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دیتا۔ پوری کائنات کا ذرہ ذرہ ماتم کنعاں ہے اور کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔کہ آج ایک قوم کی ماں مر گئی۔ آج محترمہ فاطمہ جناح اس دُنیا سے رُخصت ہو گئی۔
انا للہ و انا علیہ راجعون
آج وہ بہن مر گئی۔ جس نے جناح نام کے دیوانے میں وہ ہمت اور تقویت پیدا کی کہ وہ قائدِ اعظم ہو گیا۔
آج وہ دیوی روٹھ گئی۔ جس نے اپنی جوانی کے سونے اور بڑھاپے کی چاندی کو اس قوم کے نام قر بان کر دیا۔
آج وہ آنکھ بند ہو گئی۔ جس نے بنگال و آسام کی وادیوں میں خونِ مسلماں کی ارزانیوں پر اشک فشا نیا ں کیں۔
آج وہ ماں مر گئی۔ جس نے آزادی کے خواب کو اپنی گو د میں کھلا یا تھا اور اپنی آنکھوں سے لہو پلایا تھا۔
آج وہ عورت مر گئی۔ جس نے مسلمانانِ ہند کے ماتھے پر آزادی کا جھو مر سجا نے کے لئے ایک عورت کے نازک خوابوں کو ابدی نیند سلا دیا تھا۔
آج وہ آواز تھم گئی۔ جس نے فوجی آمریت کی چکی میں پستی ہو ئی عوام کے حق میں آخری آواز اُٹھائی تھی۔
اب رہیں چین سے دنیا میں زمانے والے
سو گئے خواب سے دنیا کو جگانے والے
مر کے بھی مرتے ہیں کب مادرِ ملت کی طرح
شمع تاریک فضاؤں میں جلانے والے
یہی وہ عورت تھی کہ جب گرہستن بنی تو اپنے خا نسا ماؤں کے بیٹو ں کو ہسپتال میں خود لیکر جاتی رہی۔جو داعی بنی تو بنگال اور آسام کی سرحدوں سے بے نیاز سارے ہندوستان میں بنگال ریلیف فنڈ کیلئے چندہ اکٹھا کرتی رہی۔جو مدبّر بنی تو یوں کہ ان کے گلے میں سلمیٰ ستاروں کی مالا ڈالی گئی تو کہا ’’تم لوگ دولت کا ضیاع نہ کرو‘‘ جو راہبہ بنی تو کہا ’’یہ میری زندگی نہیں بلکہ میری زندگی کی ہر سانس میرے وطن میری قوم کے نام وقف ہے۔جو مفکّر بنی تو امریکی امداد کے خلاف یوں گویا ہوتی ہے کہ ’’مسلمان بھکاری ہو گئے ہیں انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے شرم محسوس ہو نی چاہیئے۔جو مبلغہ بنی تو گداگروں کو بھیک دینے والوں سے کہتی ہے میری قوم کو گداگر نہ بناؤَ۔جو سپہ سالار کا روپ دھارا تو 65کی جنگ میں یوں للکارتی ہے ’’پاکستان ہمیشہ کامیاب رہے گا گولیاں ہمارے عزائم کو نہیں دبا سکتیں‘‘۔جو مجاہدہ بنی تو کراچی سے لیکر راس کماری تک قائد کے قدم سے قدم ملا کر چلی۔جو غازی بنی تو گولیوں کی بوچھاڑ میں ہندوؤں اور انگریزوں کے خلاف جلسوں میں ڈنکے کی چوٹ پر شریک ہوتی رہی۔ جس نے اقبال کی تصویر کائنات میں یوں رنگ بھر ا کہ ممتا کے لفظ کی ساری مٹھاس اس کے نام میں سمٹ آئی۔جس کے ممتا بھر ے بہناپے نے محمد علی جناح میں وہ روح پھونکی کہ وہ دیوانہ وار آزادی کے آخری چودہ سالوں میں روزانہ چودہ گھنٹے کام کرتا رہا،اور ایک پل کے لئے بھی نہیں تھکا۔جس نے مسیحائی کا لبادہ اوڑھا تو آٹھ سال غریبوں کے لئے دستِ ابن مریم کی تفسیر بنی رہی۔جس نے شمع زیست کو اپنے ملک کی آزادی کے لئے اس طرح پگھلایا کہ آزادی ء پاکستان کے پروانوں نے اس کی لَو میں کسی بات کی پرواہ نہ کی۔جس نے ملتِ اسلامیہ کی بکھری ہوئی بہنوں کو یوں مجتمع کیا کہ وہ آزادی کے پرچم کو لے کر کبھی جلوسوں میں لاٹھی چارج کے سامنے سینہ سپر ہوئیں، اور کبھی کسی صغریٰ کو یوں کبریٰ کیا کہ اس نے سیکر یڑیٹ کی عمارت سے انگریزی جھنڈا اتار پھینکا۔اور پھر تاریخ پاکستان نے وہ پلٹا کھایا کہ سیاسی شا طروں کے نر غے میں آکر مادرِ ملت سیاست کی بساط کا ایک مہرہ بنی اور شطرنج کے اس کھیل میں دھاندلی نے وہ دُھند مچائی کہ ماں کو صرف 29ہزار حلالی ملے۔مگر چشم فلک گواہ ہے جب جب منکرین آمریت پہ گو لی چلی تب تب ماں نے کہا خونخوارو!۔۔۔۔۔دولت کے پرستارو!
دھرتی ہے یہ ہم سب کی
اس دھرتی کو نادانو
انگریز کے در بانو
صاحب کی عطا کر دہ
جاگیر نہ تم جانو
کیوں چند لٹیروں کی پھرتے ہو لئے ٹولی
بچوں پہ چلی گولی ماں دیکھ کے یہ بولی
یہ دل کے میرے ٹکڑے یوں روئیں مرے ہو تے
میں دور کھڑی دیکھوں یہ مجھ سے نہیں ہو گا
آج 31جولائی ہے، مادرِ ملت کا جنم دن۔۔۔۔ یوم تجدید عہدِ وفا منانے والو! اب کس کا جشن مناتے ہو اس تن من کا جو دو نیم ہو یا اس ملک کا جو تقسیم ہو! یا اس قائد کا جس کو ہم نے اعظم تو بنا دیا مگر اس کی ایمبو لینس ائیر پورٹ سے چار میل پر بے سہارا کھڑی رہتی ہے۔ اور وہ محسنِ پاکستان اسی بے چارگی کے عالم میں دم توڑ دیتا ہے۔ یا اس مادر ملت کا جسے ہم نے ما درِ ملت تو کہہ دیا مگر محققین کی زبانیں کھلتی تو پتہ چلتا ہے کہ نو جولائی 1967کو محترمہ فاطمہ جناح اپنی طبعی موت نہیں مری بلکہ کسی کرائے کے قاتل نے ان کا گلہ گھونٹا تھا۔جانے حقائق کیا ہیں! لیکن بحیثیت قوم ہم ایک مردہ قوم ہیں کہ فاطمہ جنا ح اپنے کتے ’’زرعون‘‘ کو دیکھ کر کہتی تھی کہ ’’کتاّ وفا دار جانور ہے اپنے محسنوں کو نہیں بھلاتا مگر ہم اپنے محسنوں کو بھول گئے ہیں‘‘ اور آج بھی ہماری آنکھیں دھندلکوں سے پار نہیں دیکھتیں۔
ارے آج کا دیس میرا دیس سہی مگر یہ وہ وطن نہیں، جس کا خواب لیکر چلے تھے یار کہ مل ہی جائے گی منزل کہیں نہ کہیں۔خوابوں کے گھروندوں کی چھتیں گر چکیں کہ آج میرے دیس میں سر فروش نہیں وطن فروش جنم لیتے ہیں۔مگر سوچنا یہ ہے کہ اب کہاں سے وہ نسخہءِ کیمیا ڈھونڈا جائے۔۔۔جو ڈوبتی نبضوں میں زندگی بھر دے۔۔۔۔۔

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(مخالفت)
گلستانِ سوچ میں ایک پھول کھِلا۔ اک نئی روح نے جنم لیا ،جس نے اقبال کے شاہین کا نام پا یا۔ خودی جس کا زیور اور خوداری، جس کا پیر ہن ہو نا تھا۔ ۔۔لیکن اب وہ پیر ہن بالِ جبریل اور ضرب کلیم کے لفظوں میں ہی کہیں کھو گیا ہے۔ اک موہوم سی امید کے سہارے میں اقبال کے شاہین کے دل پہ دستک دیتا ہوں، اُس کے ضمیر کو آواز دیتا ہوں لیکن۔۔۔
جناب صدر! لاشیں کہاں بو لتی ہیں۔۔۔ مجھے ضمیر کے مقبرے سے اپنی صدا کی باز گشت سنائی دیتی ہے، کہ آج کا نوجوان، کھو یا گیا ہے جس سے جذبِ قلندرانہ ، نہ حیرتِ فارابی، نہ تب و تابِ رومی، نہ جستجو ئےِ غزالی، عقل کا ہے اندھا ،لباس کتنا عالی، کہ جس کے صوفے ہیں افرنگی، قالین ایرانی۔۔۔۔۔ ہا ئے تن آسانی ، ہائے تن آسانی، جو ساز کا ہے دیوانہ، سوز سے ہے بیگانہ، ٹو ٹا ہے ایشیا میں سحرِ فرنگیانہ، کہاں گیا وہ اس کا اندازِ دلبرا نہ ۔ ارے
یوں ہاتھ نہیں آتا ،وہ گوہرِ یک دانہ
یک رنگی و آزادی اے ہمتِ مردانہ
یا سنجر و طغرل کا آئینِ جہانگیری
یا مردِ قلندر کے انداز ملوکانہ
یا شرعِ مسلمانی یا دیر کی دربانی
یا نعرہءِ مستانہ، کعبہ ہو کہ بت خانہ
کہ میرا نوجوان تھا کبھی افسرِ شاہانہ۔ آج گلی گلی میں دیوانہ۔۔۔ دیوانہ ۔۔۔جی ہاں جناب صدر!
اقبال کا شاہین آج ناپید ہے۔کِشتِ ویراں کی نمی میں کمی نہیں آئی لیکن ابھی وہ گلِ مراد نہیں کھِلا، کہ جسے آزادی کے جوُڑے میں سجایا جاتا۔ وہ خوشحالی نہیں آئی کہ جس کا جھومر بنا کر ماتھے پہ ٹکایا جاتا، گو کہ کبھی کبھار غیرت کے تلاطم سے ابھر کر اُس نے حیدری نشان کو سینے کا ہار بھی کیا۔ آب و گِلِ ایراں تو وہی رہی، لیکن عجم کے لالہ زاروں سے کوئی رومی نہ اٹھا۔ کہ
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کہ جسے ستاروں پہ کمندیں ڈالنا تھیں ،آج آسماں نے اُسے ثر یا سے زمین پر دے مارا ہے۔تقدیر سے پہلے خودی کو بلند کرنے والا، آج فلم ، سٹیج، ڈراموں اور کلبوں میں اپنا مقام تلاش کرتا ہے۔ آسمانوں پر اپنی منزل رکھنے والا، آج بازارِ حسن کے سب سے اونچے چو بارے پہ ملتا ہے۔ جہاں اقبال کا یہ شاہیں ،تماش بینی کا لبادہ اوڑھے رقص و سرود کے مزے لینے میں مصروف نظر آتا ہے تو مجھے کہنا پڑتا ہے کہ:
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم ِ شاہبازی
جنابِ صدر! طرزِ کہن پر اڑنے اور آئین نوسے ڈرنے کی تفسیر لیکر آج وہ مشرقی روایات پر شر مندہ اور مغربی تہذیب پر شاداں و فرحاں ہے۔ آدابِ فر زندی کی شقوں پر کچھ یوں پورا اترا ہے کہ آدھی نسل ’’ممی ڈیڈی‘‘ بن کر رہ گئی ہے۔ مغربی تہذیب کے آلودہ معاشرے نے اسے وہ ذوقِ یقین بخشا ہے کہ مشرقیت کی ساری زنجیریں توڑ کر آج وہ دفعہ 44کی پرواہ کئے بغیر کسی ’’بلو اور چھنو‘‘ کی آنکھوں میں ڈوب گیا ہے۔ آج نگاہِ مسلماں کُند ہو چکی ہے۔ آج بت ہیں جماعت کی آستینوں میں۔ آج رہ گئی رسمِ اذاں ،روحِ بلالی نہ رہی۔ آج تلواروں کی چھاؤں میں سجدہ کرنے والوں کی آنکھیں جلوہءِ دانشِ فرنگ سے خیرہ ہو چکی ہیں۔آج کوئی بن قاسم، کوئی طارق نہیں۔آج اقبال کا شاہین اپنے آباء کی بہادری کی داستانیں سینے سے لگائے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فر دا ہے۔ کہ
شاہیں کا جہاں ممو لے کا جہاں ہے
ملتی جلتی ملاسے مجاہد کی اذاں ہے
ہر طرف پھیلی اس کی ہی فغاں ہے۔ لیکن میرانو جواں کہاں ہے۔۔۔ میرا نوجواں کہاں ہے۔۔۔ کہ وہ تو سگریٹ اور چرس کے دھو ئیں میں کہیں کھو گیا ہے۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے اس کا یوں گھیراؤ کیا ہے کہ صدائے
لا ا لہ دب کے رہ گئی ہے۔اورایسے حالات میں
؂ مرہمِ اشک نہیں زخمِ طلب کا چارہ
خوں بھی روئے تو کس خاک پہ سج دھج ہو گی
کانپتے ہاتھوں سے ٹوٹی ہوئی بنیادوں پر
جو بھی دیوار اٹھاؤ گے وہی کج ہو گی

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)

آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے(قرارداد)

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
جی ہاں صاحبِ صدر! آج کا نوجوان اقبال کا شاہین ہے کہ اسکے پاس مشامِ تیز بھی ہے، گفتارِ دلبرانہ بھی اور کردارِ قاہرانہ بھی۔۔۔۔، کیونکہ میرا اور اقبال کا ایمان یہی کہتا ہے کہ’’کم کوش ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی‘‘ اور وہ لوگ جن کو آہِ سحر بھی نصیب ہو، اور سوزِ جگر بھی، وہ زندگی کے میدان میں کبھی نہیں ہارتے۔ مانا کہ مصائب کڑے ہیں ،مانا کہ اسباب تھوڑے ہیں۔ مانا کہ آج دھرتی ماں مقروض ٹھہری۔ ارے مانا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یہاں چھا گئے۔ ارے ما نا کہ ترقی کی رفتار کم ہے ۔ ارے ما نا کہ یہاں بھوک بھی ہے اور افلاس بھی۔ ارے مانا کہ یہاں بم بھی پھٹتے ہیں ۔ ارے مانا کہ شمشیر و سناں آخر ہو گئی اور طاؤس و رباب اوّل ٹھہرے ۔ ارے سب مانا۔ لیکن میرے غازی علم دین نے ایسے ہی حالات میں جنم لیا تھا۔ میرا جناح پونجا پھولوں کی سیج سے نہیں اگا تھا۔ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کا نعرہ لگانے والے آسائشوں کے پالے ہوئے نہیں تھے۔
صاحبِ صدر!
گوہر اور جوہر حالات کی بھٹی میں جل کر کند ن ہوئے ۔ارے نسل تو اس وقت بھی عیاش تھی، قوم تو اس وقت بھی کمزور تھی، بھوک اور افلاس تو تب بھی تھی، لوگ تو تب بھی مرتے تھے۔ لیکن اقبال کے شاہین نے ،اس مشکل کی گھڑی میں گھروں میں روٹیاں نہیں بانٹیں ،بلکہ ایک فکری انقلاب بر پا کیا ،کہ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس ذوقِ یقیں کا، جو پیدا ہو جائے تو غلامی کی زنجیریں کٹ جا یا کرتی ہیں۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس سوچ کا جوآدمی کو ہزار سجدوں سے نجات بخشتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس تصور کا، جو نوجواں کو اتنا عظیم کرتی ہے کہ منزل خود انہیں پکار ا کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس جذبے کا ،کہ جہاں صلہءِ شہید ، تب و تابِ جا ودانہ ہوا کرتا ہے۔ اقبال کا شاہین تو نام ہے اس اڑان کا، جہاں عشق کی ایک جست سبھی قصے تمام کرتی ہے۔ اقبال کا شاہین۔۔۔جو خاکی تو ہے ’’خاک سے پیوند نہیں رکھتا‘‘۔ جو ’’زہر ہلاہل کو قند نہیں کہتا‘‘ اور جو رہے ۔۔۔۔آتشِ نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش ‘‘ اور۔۔۔’’ جہاں ہے جس کے لئے وہ نہیں جہاں کے لئے‘‘ اور اقبال کا شاہین تو نام ہے اس قوت کا کہ:
دونیم جس کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ جس کی ہیبت سے رائی
ارے
دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد الٰہی
اور
آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
جنابِ صدر!
مرد حالات کے تھپیڑوں سے ڈر کر چوڑیاں نہیں پہن لیتے ۔ بھوک کے ڈر سے مردار نہیں کھاتے کہ’’شاہین کاجہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔۔۔۔سر چھپانے کے ڈر سے اپنا منہ مٹی میں نہیں ٹھو نستے ۔کہ ’’شاہیں کے لئے ذلت ہے کارِ آشیاں بندی‘‘دوسروں کے سر سے کلاہ نہیں اتارتے کہ’’شاہین حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہو تا‘‘۔ارے اقبال کا شاہین تو وہ ہے جو جھپٹنے اور پلٹنے کا گُر جانتا ہو، جو جینے کیلئے مرنے کا ہنر جانتا ہو۔
اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اتنا بلند حوصلہ ہے کہ دشمن کی ہر گولی کا جواب ایک غوری سے دے سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اور نگزیب حفی کی صورت اہلیانِ یورپ کی 210ملین روپے کی انعامی رقم واپس کر سکتا ہے ۔ برطانیہ کی سکونت کو ٹھوکر مار سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نو جوان ’’ڈھولا کے ڈھول‘‘ سے پلٹ کر سہارا فاؤنڈیشن کی بنیاد یں رکھ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان اتنا ’’مال و مال‘‘ ہو گیا ہے ،کہ صغریٰ شفیع ہسپتا ل کی بنیادیں اپنے لہو سے سینچ سکتا ہے۔آج میرے دیس کا نوجوان گیند بلے کو چھوڑ کر سسکتی ،بلکتی انسانیت کیلئے کوئی شوکت خانم بنا نے کی سعی رکھتا ہے اور آج میرے دیس کا نوجوان دنیا کی سب سے زیادہ ایمبو لینسوں پر مشتمل ٹرسٹ اپنے ہی خون پسینے کی کمائی سے چلا سکتا ہے۔ ارے مانا! کہ ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر شہید ہونے والے پرانے ہو گئے۔ ارے مانا کہ غداروں کو مارنے کے لئے اپنے ہی طیارے زمین میں گھسا نے والے پرانے ہو گئے۔ارے سب مانا ۔۔۔۔۔۔مگر ربّ احد کی قسم:آج بھی میرے دیس کا ہرنوجوان اپنے وطن کی ناموس کے لئے اپنے لہوکی آخری بوند تک بہا سکتا ہے۔ ارے ہم سب کچھ سہی۔ ۔۔لوٹے بھی سہی، لٹیرے بھی سہی ، لیکن’’کتابِ مقدس‘‘ کی قسم جب آج بھی کوئی ہماری غیرت کو للکارتا ہے تو ایک ہی رات میں 9چوکیاں فتح ہو جایا کرتی ہیں۔ آج بھی کوئی ایک پر تھوی بنا تا ہے تو دو غوری میدان میں آتے ہیں۔ کوئی ایک دھماکہ کر تا ہے تو جواب پانچ سے ملتا ہے۔ارے ہم آج بھی زندہ ہیں، کیونکہ ہماری سوچ زندہ ہے اور جس کی سوچ زندہ ہو، وہی اقبال کاشاہین ہے ،اور آج میرے دیس کا ہر نوجوان اقبال کا شاہین ہے۔اور میرا ایمان کہتا ہے، کہ
ہمارا قافلہ جب عزم و یقین سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑ نے دے
مجھے یقین ہے کہ چشمہ یہیں سے نکلے گا

یہ مملکت تو سب کی خواب سب کا ہے

یہ مملکت تو سب کی خواب سب کا ہے

جناب صدر! کوئی بھی مملکت زمین سے نہیں اگتی، زمین پر پائی جاتی ہے۔ اور کسی مملکت کو پانے کیلئے زنجیروں کو چھوڑنا پڑ تا ہے۔ تقدیروں کو موڑنا پڑ تا ہے ۔ شمشیروں کو توڑنا پڑتا ہے۔ پھر مملکتوں کے چہرے نمودار ہو تے ہیں۔ یہ ہماری مملکت خوابوں کی سر زمین ہے۔
جی ہاں جنابِ صدر! یہ مملکت تو سب کی ہے خواب سب کا ہے! یہ خواب ہے اس بہن کا جس کے بھائیوں کو نیزوں کی انیوں پر اچھالا گیا۔ یہ خواب ہے اس باپ کا، جس کے بڑھاپے کے سہارے کو کِر پانوں نے چیر ڈالا۔ یہ خواب ہے اس ماں کا، جس کی مامتا کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ یہ خواب ہے میرے اقبال کا جو نیل کے ساحل سے
تا بخاکِ کاشغر، مسلمانوں کو جسدِ واحد بنانا چاہتا تھا۔ یہ خواب ہے قائد کا ،جس کی آنکھیں نیند سے اس لئے روٹھی رہیں کہ ان آنکھوں میں پاکستان کا خواب آبسا تھا۔ یہ خواب ہے اس بچے کا ،جس کی غلیل نے انگریزی جہازوں پر شستیں باندھی تھیں۔ یہ خواب ہے اس بچی کا، جو گڑیوں کی شادی میں انگریزی ٹائی والے گڈے نکا ل باہر کرتی ہے۔ یہ خواب ہے اس بخت نامہ کا جو آخری ہچکی سے پہلے اپنے لہو سے آزادی کا لفظ مکمل کر تی ہے۔ یہ خواب ہے ان شہیدوں کا، جنہوں نے اپنے لہو کی بوند بوند وطن کی ناموس پر وار ڈالی اور پھر بھی ان مردانِ با صفا کی با ز گشت فضائے بسیط اب بھی گو نجتی ہے۔
کہ شہرِ جاناں میں باصفا رہا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمِیں قتل ہو آئیں یارو چلو!
جنابِ صدر! یہ مملکت ہم سب کی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کےُ سکھ ہمارے سکھ۔۔۔۔۔۔ اس کے دکھ ہمارے دکھ، لیکن یہ کس طرح کی محبتیں ہیں ، محبتیں ہیں کہ چاہتوں کے سراب موسم کا سلسلہ ہے، کہ وطن کے ہر نئے افق پر ہر نیا شخص یہی سوال دہراتا ہے۔
ابھی چراغِ سرِ راہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیءِ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دید ہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
کہ، یہ وہ وطن تو نہیں، جس کی آرزو لیکر ہم چلے تھے ۔ یہ وہ وطن تو نہیں، جس کی خاطر میرے آباء نے قر بانیوں کی تاریخ رقم کی تھی۔ یہ وہ وطن تو نہیں، جو خوابوں کی سر زمین تھا۔ یہ وہ وطن تو نہیں جو اسلام کی تجربہ گاہ ہو نا تھا۔ آج ہر کوئی طعنہ بکف اپنے وطن کے گلے میں جوتوں کے ہار پہنا نے پر تلا ہو ا ہے۔ ہر شخص یہی کہتا ہے
میرے دیس میں دھوکا ہے
میرے دیس میں ڈاکے ہیں
میرے وطن میں ناکے ہیں
مسجدوں میں بم دھماکے ہیں
چوری یہاں، لوٹ یہاں ، مار یہاں،کساد یہاں، فساد یہاں،غرضیکہ ہر برائی یہاں۔
یہ وہ سحر تو نہیں جسکی آرزو لیکر
چلے تھے یا ر کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
معزز سامعین! یہ مملکت سب کی ہے اور سب میں مَیں بھی شامل ہوں اور آپ بھی۔۔۔ کیوں کہ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ! آپ ایک ستارہ ۔۔۔ میں ایک ستارہ ، پھر کیوں میرے دیس میں اجالا نہیں، پھر کیوں یہ خوابوں کی بستی بے خواب پھرتی ہے۔ پھر کیوں یہاں اناج کی بجائے کانٹے بوئے جا رہے ہیں۔ پھر کیوں یہاں لیلۃ القدر کی بجائے بسنت کی رات منا ئی جاتی ہے۔ پھر کیوں یہاں نسلِ نو کے ہاتھوں میں کتابوں کی بجائے کلاشنکوف ہے۔
یہ وہی دیس ہے، جس کیلئے قر بانیاں تو دی گئیں لیکن اس کو سنبھا لا نہیں دیا گیا۔ جس میں قوانین تو بنائے گئے، عمل درآمد مفقود ہو گیا۔ جس میں زمینیں تو بٹیں لیکن جاگیرداروں کے حصے میں آئیں۔ جس میں کارخانے تو لگے ، لیکن سر مایہ داروں کے پیٹ بڑھے ۔ جس میں انصاف تو ملا، لیکن صرف نوٹ والوں کو ،اور تب تک یہاں اندھیرا ہی رہے گا، جب تک ہم اپنے خواب علیحدہ رکھیں گے۔ اپنی سوچ علیحدہ رکھیں گے۔
شکوہ ء ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
ہم اپنے حصے کی شمع ہی جلا تے جاتے
آئیے مل کر وعدہ کریں کہ اس دیس کیلئے کچھ اچھا کریں گے ۔ گلے نہیں کریں گے بلکہ صلے کی توقع کے بغیر وطن کیلئے جئیں گے اور وطن کے لئے مریں گے ۔

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

قوموں کے ما بین تنازعات کا حل بات چیت ہے جنگ نہیں

آدم نے بہشت کے میوے کھا کر غلطی کی ، اس غلطی کے نتیجے میں اسے جنت بدر کر دیا گیا۔زمین پر آکر مسائل نے جنم لیا یہ مسائل الجھتے گئے تو تنازعات بن گئے۔ قابیل نے ہا بیل کو قتل کیا تو دنیا میں جنگ کی آہ وفغاں شروع ہو گئی۔ کہیں گھوڑا آگے بڑ ھانے پر 40نسلیں تباہ ہو ئیں تو کہیں پانی پلانے پر تنازعہءِ لا حاصل نے جنم لیا۔ فر عون خدائی دعوے کے ساتھ اپنے جنگی جرائم کو جنم دیتا رہا اور تنازعات در تنازعات بنتے گئے ۔مسائل کے ریشم زلف یار کی طرح الجھتے گئے۔ جنگ نسل در نسل وراثت کا حصہ بنتی گئی۔ غریب کی کٹیا کا تیل لٹتا رہا۔ کئی جوانوں کی جوانیوں کے گلا ب مر جھا گئے۔ سہاگ لٹتے رہے۔ عصمت گری کا بازار گرم رہا۔ اور پھر فاران کی چوٹیوں سے اک نور ہویدا ہوا۔ جس نے خاندانی دشمنیوں کو، نفرتوں کے جلتے الاؤ کو، مذاکرات کی سیج پر بیٹھ کر صلح حدیبیہ کی گتھی میں اس طرح سلجھا یا کہ تاریخ کو خود پر رشک آنے لگا۔
جنابِ صدر ! اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیں ، قتل کا بدلہ قتل، چوری کا بدلہ ہاتھ کاٹنا۔ کسی نے آنکھ پھوڑی تو آنکھ پھوڑ دو۔ پتھر کا جواب پتھر سے دینا ممنو عات تو نہیں ہیں مگر میرے نبی ؐ کا اسوہ بھی نہیں ہیں۔ آخری خطبہ کے موتع پر فر ماتے ہیں۔کہ تمہارے لئے دوسرے مومن کے مال و جان کو حرام قرار دیتا ہوں۔ قتل کا بدلہ قتل جو زمانہ جاہلیت میں رواج تھا۔ آج اس کو ختم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے میں اپنے چچا زاد ابنِ ربیعہ کا خون معاف کر تا ہوں۔
جناب والا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ مذہب تو امن لیکر آیا ہے۔ یہ تو صلح کا پیغام لا یا ہے۔ اجڑے دلوں کو ملانے آیا ہے ۔یہ کائنات کیلئے وجہِ رحمت ہے اگر کوئی قتل کرے تو صلہ قتل ہی ہے مگر عظیم وہی کہلاتا ہے جو مذاکرات کی میزپر دشمن کیلئے معافی کا اعلان کرے۔ تاریخ عالم اٹھا کر دیکھئے کہ دنیا کا پہلا تحریری معاہدہ حلف الفضول کے نام سے عہدِ نبویؐ میں ہی لکھا گیا ۔
آج اقوام عالم کے مسائل کا جائزہ لیجئے ۔ سرحدوں کا مسئلہ، آزادی کا مسئلہ، آزادیءِ نسواں کا مسئلہ، وسائل کا مسئلہ، قبائل کا مسئلہ، دین و لادینیت کا مسئلہ، نئی ٹیکنا لوجی کے حصول کا مسئلہ۔۔۔۔۔۔۔ اور کچھ اسلحے کے سوداگر، رات کے اندھیروں میں ہینڈ گر نیڈ اور بم بیچنے والے ہر مسئلے کو جنگ سے حل کر نا چاہتے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے آج
؂کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دھول کی چادر
اڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق
بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو
لہومیں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
کیا یہ پھر ہلاکو خاں کی طرح کھو پڑیوں کے مینار بنا نا چاہتے ہیں۔ کیا پھر بغداد کی وادیاں لہو رنگ ہو نے کو ہیں۔ کیا یہ پھر ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تاریخ رقم کر نا چاہتے ہیں ۔کیا پھر ورلڈ وار آرڈر کی آڑ میں 35لاکھ معصوموں کا خون ہونے کو ہے۔ کیا کسووو میں اجتماعی قبروں کی دریافت نے ان عقل کے اندھوں کی آنکھیں نہیں کھولیں۔ کیا یہ جنگ سے مسائل حل کرنے والے عراق کی تقلید کر نا چاہتے ہیں۔ کیا یہ بھی روس کی طرح ٹو ٹ کر بکھر نا چاہتے ہیں۔
ان نا سمجھی کی تفسیروں سے میں یہی کہوں گا کہ یہ آخر کیوں بستیوں کو اجاڑ نے پر تلے ہو ئے ہیں۔ معصوموں کے لبوں سے مسکراہٹیں چھیننا چاہتے ہیں۔ کب تک یہ لوگ بہنوں کی ردا ؤں کو نو چتے رہیں گے، کب تک عزتوں کو نیلام کر تے رہیں گے۔کب تک راقمِ تاریخ کو خون کے آنسو رلاتے رہیں گے۔ الجنت تحت ظلال السیوف کے نعرے لگانے والے فتح مبین کو یاد کیوں نہیں کرتے۔ فتح خیبر کے موقع پر آنحضور ؐ علیؓ سے فر ماتے ہیں اگر کوئی ایک شخص بھی بات چیت سے اسلام لے آئے تو سو سرخ او نٹوں کے ملنے سے زیادہ بہتر ہے۔
؂یہ کون لوگ ہیں نوکیلے ناخنوں والے
جو بے گنا ہ لہو کا خراج لیتے ہیں
سنوارتے ہیں جو بارود کے دھویں سے نقوش
درند گی کی ہوس میں اجاڑ دیتے ہیں
ضعیف ماؤں کے آنسو ، ہر ایک موڑ پہ آج
امیر شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں۔
جناب والا! جب 40برسوں کی لڑائیاں سمٹتی ہیں تو با ت چیت سے۔ جب کبھی جنوبی کوریا اور شمالی کوریا ملے ہیں تو بات چیت سے۔ جب کبھی یونان متحد ہوا تو مذاکرات کی میز پر۔ جب کبھی دلوں میں کینے مٹے تو بات چیت سے ، جب کبھی محبتیں بڑھیں تو بات چیت سے، جب کبھی پھول مسکرائے تو بات چیت سے، جب کبھی پاکستان بنا تو جنگ سے نہیں بات چیت سے اور جب کبھی تنازعات کی دیوار برلن گری تو بات چیت سے۔جزائر آسڑیلیا کے مسائل حل ہوتے ہیں تو بات چیت سے،کفار اور مسلمانوں میں کوئی معاہدہ ہوا تو بات چیت کے ذریعے۔
؂اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
جنابِ والا! سر درد کے دو حل، دو گولی ڈسپرین یا دو گولی 12بور۔ جواب آپ بخوبی جانتے ہیں آرام دونوں گولیوں سے آ جاتا ہے۔ آپ کیسا علاج چاہتے ہیں۔ دو گو لی ڈسپرین کا یا دو گولی بارہ بور۔

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل(مخالفت)

تدبیر بدل دیتی ہے قسمت کے مراحل(مخالفت)
اے ابن آدم اک تیری چاہت ہے اک میری چاہت ہے۔ ہو گا تو وہی جو میری چاہت ہے۔ پس اگر تو نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے تو میں بخش دو ں گا تجھ کو جو تیری چاہت ہے۔ اگر تو نے مخالفت کی اسکی جو میری چاہت ہے تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں وہ جو تیری چاہت ہے۔ اور پھر وہی ہوگا جو میری چاہت ہے۔
جنابِ صدر! میں تو ایک ہی بات کہتا ہوں ۔ تدبیر کے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے ۔۔۔کہ ہر تدبیر، تدبر کے زعم میں حرفِ غلط کی طرح مٹ جاتی ہے۔ قسمت کی بساط پر تقدیر کے پیادے تدبر و تدبیر کے شاہوں کو شہ مات کرتے آئے ہیں۔ تدبیر تو تقدیر کے منہ میں پانی کا آخری گھونٹ ہے۔ جب شہر کا ہر شہری آگ کے انگارے دینے سے منکر ہو، اور سورج سوا نیزے پر آکر شا ہ شمس کے لئے گو شت کا ٹکڑاپکا جائے، تو تدبیریں ہار جا یا کر تی ہیں۔ جب شداد اپنی رعنائیوں کے ساتھ حور و بہشت کے تصور کو لے کر ایک ارضی جنت تخلیق کرے اور اس کے دروازے میں ہی ڈھیر ہو جائے تو تدبیریں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں۔جب نو ح ؑ کی بستی والے کشتی کو گندہ کر نے کی تدبیر کرتے ہیں، تو ان کی تدبیروں کو اپنے منہ اسی غلا ظت سے دھونے پڑتے ہیں۔ اور جب برادرانِ یوسف ؑ اپنے بھائیوں کو چاہ میں پھینکا کرتے ہیں، تو جبرائیلؑ کے پر کی ضرب سے سبھی تدبیریں دو نیم ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی ہٹلر ،دنیا فتح کرنے کا گھمنڈ لے کر میدان میں اتر تا ہے ،تو اس کی ساری تدبیریں نا ر منڈی کی بندر گاہ پر منجمند ہو جا یا کرتی ہیں۔ جب کوئی خر ناٹ سپیرا اپنی رسیوں کو تدبیرِ جادو گری سے سانپوں میں ڈھال دے، تو حکم خدا وندی سے عصائے موسیٰؑ ان سبھی تدبیروں کو نگل جاتا ہے۔ ارے تدبیر کے پجاریو، آنکھیں کھولو! فر عون کی لاش پکار پکار کے کہتی ہے۔۔۔ تدبیرکے پر جلتے ہیں تقدیر کے آگے۔
ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب 313نے 1000کو مار بھگا یا تھا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،جب سپر پاور امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر لمحوں میں خاک کر دئے گئے۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں ،کہ تورہ بورہ کی پہاڑیا ں توزمین بوس ہو گئیں ،مگر بن لادن کا پتہ نہ چلا۔ ارے کہاں تھیں تدبیریں، جب سکیورٹی کے باوجود مجاہدوں نے بھارتی پار لیمنٹ پر حملہ کیا تھا۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج تو:
بھوک چہروں پہ لئے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھر تے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ آج بھی روز مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ:
ماں کو تلاش رزق نے رستہ بھلا دیا
بچی ٹھٹھر کے رات کے سائے میں مر گئی
ارے کہاں ہیں تدبیریں، کہ آج بھی جتوئی سے صدا آتی ہے کہ اس دیس میں تدبیریں مر چکی ہیں۔ ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ روز دس بچے بسوں تلے کچلے جاتے ہیں۔ارے کہاں ہیں تدبیریں کہ
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دئے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا

سیر ت النبیؐ

سیر ت النبیؐ
میدان عرفات میں ایک لاکھ 24ہزار لوگوں کا جمِ غفیر ہے ۔ داعیانِ اسلام جگہ جگہ سے جوق در جوق جمع ہیں۔ ان کے سینوں میں ایمان کی شمع فروزاں ہے۔آنکھوں میں محبت کے الاؤ روشن ہیں، کہ اتنے میں ایک آواز سارے ماحول پر چھا جاتی ہے!
لوگو! آج تمہارے رب نے تم پر تمہارا دین مکمل کر دیا۔ آج نہ کسی گورے کو کالے پر فوقیت ہے نہ کسی عربی کو عجمی پر، فوقیت ہے تو صرف تقوی کی بنیاد پر۔لوگو! تم پر تمہارے مسلمان بھائیوں کا مال حرام ہے۔لوگو! غلاموں سے برتاؤ کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ صحرائے عرب سے اٹھی یہ آواز’’َ بلغو عنی ولو آیہ‘‘ کے رومال میں لپٹ کر چار دانگِ عالم تک پہنچی ۔ پھر امیرانِ عرب ریشمیں قبائیں اتار پھینکتے ہیں۔ پھر رئیسانِ عرب شراب و شباب کو خود پر حرام کر لیتے ہیں۔ پھر سفیرانِ عرب اپنے گھروں میں کوڑے لٹکا دیتے ہیں،کہ جو نماز نہیں پڑھے گا واجب سزا ٹھہرے گا۔پھر مرغانِ چمن صلوا علیہ والہ کا گیت الاپتے ہیں۔پھر خاک نشینانِ عرب قیصر و کسریٰ کے محلوں پر یورش کرتے ہیں۔پھر
سار بانِ عرب دنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ پھر کعبے کو صنم خانے سے پاسبان مل جاتے ہیں۔ پھر مسلمان جذبہءِ شبیری کا علم لیکر یوں کفر سے بر سرِ پیکار ہوتے ہیں ،کہ اندلس کے ساحلوں سے یہی صدا ابھرتی ہے کہ
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
اور پھر جب نگاہِ مسلماں تلوار ہوتی ہے تو۔۔۔دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں۔۔۔ کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں ۔اور پھر
نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھا یا ہم نے
زیرِ خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
جنابِ صدر!
میں کیاکہوں کہ فرشتے تو فرشتے ،خود خدائے پاک کہتا ہے ’’صلوا علیہ و الہ‘‘ ،میں کیا کہوں کہ بلغ العلی بکمالہ ،کہ وہ پہنچے کمال کی بلندیوں پر ، میں کیا کہوں، کہ کشف الدجا بجمالہ ، میں کیا کہوں کہ حسنت جمیع خصا لہ،ٖمیں کیا کہوں کہ
یا صاحب الجمالِ ،و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نورا لقمر
میں کیا کہوں کہ
تیرے آنے سے رونق آگئی گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربانی
تیرا نقشہ ،تیرا جلوہ، تیری صورت ،تیری سیرت
تبسم ،گفتگو ،بندہ نواز ی، خندہ پیشانی
میں کیا کہوں کہ
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صو تِ ہادی
عرب کی زمین جس نے ساری ہلا دی
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
اِدھر سے اُدھرپھر گیا رخ ہوا کا
میں کیا کہوں کہ آپ بولیں تو بات بنتی ہے۔میں کیا کہوں کہ ان کی جادو گری کے ڈر سے لوگ شہر چھوڑ یں،اور حسنِ سلوک سے پلٹ آئیں۔میں کیا کہوں کہ جس نے عرب کے پہلو انوں کوعکاظ کے میلوں میں چت کیا تھا۔میں کیا کہوں کہ جس نے وادیءِ طائف میں پتھر تو کھائے لیکن بد دعائیں نہیں دیں۔میں کیا کہوں کہ گر وہ شہر فتح کر ے تو اک اک گھر کو’’ جائے امان‘‘ قرار دے دے۔ میں کیا کہوں کہ جو ’’فجار‘‘ کے لڑاکوں کو ایک چادر کے چاروں پلوؤ ں پر اکٹھا کر دے۔ میں کہا کہوں کہ جو شعبِ ابی طالب کی گھا ٹیوں میں’’ صبر و رضا‘‘ کی مثالیں قا ئم کر دے۔
میں کیا کہوں کہ
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیا ں سن کر دعائیں دیں
ارے میں کیا کہوں کہ میرے لفظ قاصر ہیں۔ارے میں کیا کہوں کہ
تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا
ہو گئیں زندگیاں ختم ،قلم ٹوٹ گئے

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں (قراداد)

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں (قراداد)
جنابِ صدر!سہارے زندگی ہیں کیونکہ دیوار کیلئے در سہارا۔۔۔۔۔در کیلئے گھر سہارا گھر کیلئے سر سہارا۔۔۔۔ سر کیلئے دھڑ سہارا بلکہ میں تو کہتی ہو ں کہ ۔۔۔زندگی سہاروں سے جنم لیتی ہے۔۔۔تخلیقِ آدم کی کہانی نغمہءِ الست کے سہارے کی محتاج ہوئی۔ پیدائش نوع انسانی ماں اور مامتا کے توسط سے جنم لیتی ہے۔پھول اور پھل ثمر ہیں اس درخت کے وجود کا جس کے سہارے یہ تتلیوں اور خوشبوں کو مسحور کرتے ہیں۔پرندے پروں کے سہارے۔۔۔۔سنگ و خشت دروں کے سہارے۔۔۔۔گھر گھروں کے سہارے۔۔۔دل دلبروں کے سہارے۔۔۔رنگ رنگت کے سہارے۔۔خوشبو پھول کے سہارے۔۔۔اور زندگی خدا کے سہارے
جنابِ والا!
سہارا استعارہ ہے پیار اور محبت کا، کہ جب باپ بوڑھا ہو جائے تو جوان اولاد سہارا کہلایا کرتی ہے۔سہارا نام ہے بھائی چارے اور اخوت کا، کہ تمام مسلمان ملک اسلامی سربراہی کانفرنس کی لڑی میں پرو ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بنا کر تے ہیں۔سہارا نام ہے اس حوصلے کا ، اندلس کے ساحلوں پر کھڑے طارق کی فوجوں کو وہ تقویت سونپ دیتی ہے کہ وہ اپنی کشتیاں جلا دیتے ہیں۔سہارا نام ہے اس سعی کا جو سندھ کے ڈاکوؤں کے مقابلے میں بن قاسم کو حجاز سے بر صغیر کھینچ لاتی ہے۔سہارا نام ہے اس تسلسل کا کہ جس کے سہارے محمود غزنوی ہند وستان پر 17حملے کرتا ہے۔سہارا نام ہے اس فضائے بدر کا کہ جب 313ہزاروں کے مقابلے میں آکھڑے ہوتے ہیں۔سہارا نام ہے اس صبر کا ۔۔۔کہ جب پر وانے کیلئے، چراغ اور بلبل کیلئے پھول بس اور صدیق کیلئے اللہ کا رسولؐ بس ہو،۔۔۔ حضورؐ پوچھیں کہ صدیق گھر میں کیا چھوڑ آ ئے ہو تو صدیق کہیں اللہ اور اس کے رسول ؐ کا نام۔سہارا نام ہے اس اعتماد کا جب حضرت موسیٰ کی والدہ ان کو نیل میں بہا دیں اور موسیٰ فر عون کے محل میں پرورش پائیں۔سہارا نام ہے اس غیبی مدد کا جو شداد کو بحری بیڑے کی تباہی کے بعد بچ کر جزیروں میں پرورش پا ئے اور با لآ خر ایک ملک کا بادشاہ بن جا ئے۔
ارے سہارا تو وہ سہارا جو ابراہیم کے آگ میں گر نے سے پہلے اس کو گلزار کر دے۔ارے سہارا تو وہ سہارا جو یوسف کے چاہ میں گر نے سے پہلے جبرائیل کے پروں کی صورت نمودار ہو ا کر تا۔ارے سہارا تو وہ سہارا ،جو صلیب پر سے عیسیٰ کو زندہ سلامت اٹھا لیا کرتا۔ارے سہارا تووہ سہاراہے، کہ میرا رسولؐ صدیقؓ سے کہے، غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے ،جوحضرت علی کو ہجرت کی رات آنحضورؐ کے بستر پر سلا تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہاراہے جو ابر ہہ کے ہاتھیوں کو پرندے کے ہاتھوں موت بھیجتا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے،جو ابراہیم لودھی کے ایک لاکھ لشکر پر بابر کے 10ہزار کو فتح دیا کرتا ہے۔ارے سہاراتو وہ سہارا ہے جو در یا ئے نیل میں راستے بنا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا
جو عصا ے موسیٰ بن کر سا نپوں کو نگل جا یا کر تا ہے۔ارے سہارا تو وہ سہارا ہے، کہ شہادت کی آرزولیکر میرے جوانوں کو ٹینکوں کی باڑوں کے آگے لٹا دیتا ہے۔ارے حسبی اللہ کی قسم سہارا تو وہ سہارا ہے کہ نبی مکرم کہیں،اگر تم میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند رکھ دو تو بھی اپنا دین نہیں چھوڑوں گا۔
ارے تم کہتے ہو سہارے۔۔۔ استقامت چھینتے ہیں ، میں کہتا ہوں کہ زندگی تو چلتی ہی سہاروں کے ذریعے ہے۔
جنابِ صدر! آئن سٹائن کا نظریہ کہتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز دوسری چیز کے دم سے ہے۔ ہم اگر سفر کر رہے ہیں تو اس جگہ کے مقابلے میں جو ساکن کھڑی ہے۔اور مسلمانوں کو جب عضوِ واحد کہا جاتا ہے تو یہ بھی کہا جاتا کہ ہر عضو دوسرے عضو کو سہارا دیتا ہے۔ جب دل کی بات ہو تی ہے تو لہو ’’دماغ‘‘ کے حکم سے جگہ جگہ پہنچتا ہے۔جب زندگی کی بات چلتی ہے تو غدائی چکرسے لیکر فضائی چکر تک ہر چیز ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہے۔جی ہاں یہی سہارے ہیں جو زندگی دیتے ہیں۔ جو زندگی دیتے ہیں، خوشیاں با نٹتے ہیں، اور حوصلہ سوپنتے ہیں ۔۔۔کہ طے کر لیا سمندر اللہ کے سہارے۔

نظامِ ہستی نکھر رہا ہے(مخالفت)

نظامِ ہستی نکھر رہا ہے(مخالفت)

نہ پوچھ شہر میں رونق ہے ان دنو ں کتنی
دھواں دھواں کہیں بارود کی نمائش ہے
سجے ہوئے کس راہ میں سر بریدہ بدن
کہیں متاعِ دل و جاں کی آزمائش ہے
اور کچھ لوگ دلائل کے دھند لکے میں یہ ثابت کر نا چاہتے ہیں کہ نظامِ ہستی نکھر رہا ہے۔ ذرا حالات و واقعات کا جائزہ لیجئے۔ہر صبحِ نو! ہر نو مولود کے سر پہ قر ضوں کا بار بڑھا جاتی ہے۔ ہر گزر تا دن، ہر جھکتی کمر کے جھکاؤ میں ایک انچ کا اضافہ کر رہا ہے۔بجٹ قانون کی ہر شق غریب کے سر پہ تا زیانہ بجاتی ہے، اور بھوک کی بلبلاہٹ سے آہِ سرد کی بجائے تیشہء فر ہاد کی صدا آتی ہے۔انصاف کو صلیب و دار کے موسم نے بیچ چوراہے سینے سے لگا لیا اور اس کی آخری ہچکی سے غریب کے لہو کی بو آتی ہے۔خلوص و وفا کے رشتوں کو سنگِ دُشنام کے ڈا ئنا مائٹ سے اڑا دیا گیا۔ اور اسی ارضِ پاک پر جسے ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کے لہوؤں سے سینچا تھا آج
ڈری ڈری ہوئی ماؤں کے بے صدا نوحے
قضا سے مانگ رہے ہیں نفس نفس کا حساب
گلی کے موڑ پہ رُک رُک کے سوچتی بہنیں
نہ جانے کب سے کھڑی ہیں کہ ابرِ خوف چھٹے
چھٹے یہ ابر ! یہ انبوہء خلق ِ شہر ہٹے
ہٹے یہ خلق! یہ صدیوں کا راستہ جو کٹے
تو ماں کے دودھ کا کوئی نشان تلاش کریں
صدرِ محترم!
ہر نیاآنے والا دن پرانے دن کے خون سے رنگین ہے ۔ہر نئی صُبح دھند کے دھند لکوں میں کھوئی ہوئی ہے ۔،ہر پیدا ہونے والے بچہ 25ہزار کا مقروض ہے۔ پوری قوم کے سر پر جنگ کاعذاب مسلط ہونے کو ہے ،اور دھرتی ماتا کے جگر گوشے نوکیلے نا خنوں سے بے گناہ لہو کا خراج لے رہے ہیں۔ تلواریں بیچ کر مصّلے خرید ے جا چکے ہیں۔جہادِ افغانستان کا نعرہ لگانے والے بنجر پہاڑوں میں غرق ہو گئے۔ بن لادن کے پر وانوں کو تورا بورا کے ویرانوں میں بھی پناہ نہ مِلی۔بھارتی پار لیمنٹ میں فائر نگ کے بعد واجپائی دوستی کا جنازہ نکل گیا۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ساتھ تہذیب و تمدن کی دیوی بھی زمین بو س ہو گئی۔بارود کی پلیٹوں میں کھا نا بٹا۔ارے یہ تو کچھ بھی نہیں۔ابھی چند روز پہلے آپ کے اِسی نظام ہستی نے مینارِ پاکستان سے چھلا نگ لگا کر خود کشی کر لی۔جنابِ صدر! آئیے میرے ساتھ اپنے ان ذی شعور بھا ئیوں سے ذرہ پوچھیں تو سہی۔
کہاں رکے گا لہو کا یہ بے اماں سیلاب
بکھر کے راہ میں بہے گا کہاں کہاں سیلاب
اُداس بہنوں کی چادر کے خوں فشاں پُر زے
سیاہ پو ش یتیموں کی ہچکیوں کے بھنور
عذابِ شب سے فقط اذنِ خواب مانگتے ہیں
غریب ماؤں کے آنسو ہر اک موڑ پہ آج
امیرِ شہر سے اپنا حساب مانگتے ہیں
جنابِ والا!
میں آپ کی موجودگی میں جھوٹ کے سر پر دلائل کا تاج سجا کر عوام کے سامنے پیش کر نے والے اپنے ان دوستوں سے سوال کر تا ہوں کہ دہکتے سورج کی تپش تلے! اپنے وزن سے دو گنا بار اٹھانے والی اور رات کی تاریکی میں اپنے لختِ جگر کو لوری سنانے کی بجائے ، دیئے کی روشنی میں چر خہ کاتنے والی ماؤں کی بے خواب آنکھوں میں سجے سوال انھیں کیوں دکھائی نہیں دیتے۔سرحد پار سے آنے والی چرس اور پاؤ ڈر کے نشے میں ڈوبی نو جوان لاشوں پر بے سہار ا بہنوں کے بین انہیں کیوں سنائی نہیں دیتے۔قوم کی باگ دوڑ سنبھالنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اقبال کے دیے ہوئے قلم کی بجائے روسی ساخت کی کلا شنکوف کو یہ نظامِ ہستی کو نکھارنے کا ذریعہ کیوں سمجھتے ہیں۔بھو ک سے نڈھال ننگے نونہالوں کے حیات کے لےئے، ایک ایک لقمے پر جھپٹنے کو یہ لہو گرم رکھنے کا بہا نہ کیوں سمجھتے ہیں۔
جنابِ والا! آج انھیں ان سب سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔۔۔میں تو بس اتنا ہی کہوں گا
یہی سحر ہے تو کیونکر حیات گزر ے گی
نہ جانے کون سی مقتل میں رات گزرے گی

محسنِ انسانیتؐ

محسنِ انسانیتؐ

چودہ سو برس پہلے فاران کی چوٹیوں سے ایک نور ہویدا ہوا
 جس نے سسکتی ،زندہ درگور ہوتی، بنتِ حوا کو وہ عظمت بخش دی، کہ لوگ اس کے قدموں میں جنت تلاش کر نے لگے۔ اپنی چادریں لٹکا کر بازار میں گھو منے والے مظلوموں کی حمایت کیلئے ’’حلف الفضول‘‘ کے بندھنوں میں بندھنے لگے۔ جب بیت اللہ کی تعمیر کرنے والے، حجرِاسود کی تنصیب پر تلواریں سو نتنے والے تھے، تو ایک محسن نے ،سبھی قبائل کو چادر کے چاروں کونوں پر اکٹھا کر دیا۔
پھر چشم فلک نے دیکھا ،کہ عرب کے آنسو تھم گئے۔ عجم کی قسمت سنور گئی، ایک غلام کے قدموں کی چاپ عر ش پر سنائی دینے لگی۔ فارس کے اجنبی اہل بیت میں شامل ہو گئے، ابی ذوئیب کی بیٹی کی بیمار سواری، سبھی تندرست جانوروں سے آگے نکل گئی۔ ننگے بدن طواف کر نے والوں کو ’’احرام‘‘ نے ڈھانپ دیا ۔ جاہلیت کی پکاریں، حرّہ کے میدانوں کو چھوڑ کر رشتہءِ مواخات میں گندھ گئیں۔ پانی پینے پلا نے پر جھگڑنے والے، اپنی زندگی کی آخری سانسوں کا آخری پانی ایک دوسرے پر نچھاور کر نے لگے۔ کاہنوں، اعرافوں اور نجومیوں میں الجھی انسانیت ،خیر کم من تعلم القران کی داعی ہو گئی۔ ستو اور آٹے کے بنے ہوئے خداؤں کے سامنے جھکنے والوں کو سجدوں کی معراج مل گئی۔ دشمنوں کے اعضا ء کاٹ کر ہار بنانے والے معاف کر نے کو افضل ما ننے لگے۔کہ و ماارسلنک الا رحمۃ للعالمین کے نزول نے یا ایھا المدثر، یا ایھا المزمل کے پردوں میں چھپے پیامبر کو محسن انسانیت ؐکا روپ دے دیا تھا۔
عقل والو! آج اس بھر ے مجمع میں ببا نگِ دہل اعلان کرتا ہوں، علی وجہہ البصیرت کہتا ہوں، کہ حضرت محمدؐ    محسن انسانیت ہیں ، کیونکہ آج کا جدید معاشرہ، جو کبھی کمیو نزم، کبھی فا شزم، اور کبھی لبر لزم کے نعروں میں ڈوب کر، جو آزادی، جو حق، انسانوں کو آج دینا چاہتا ہے ،وہ محسن انسانیتؐ نے آج سے 14سو سال پہلے اپنے خادم، زیدؓ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا کر دے دیا تھا۔ حضرت محمدؐ   محسن انسانیت ہیں کہ مملکتوں کی افواج کو، صبر و تحمل کی جو تلقین آج کی جاتی ہے،محسن انسانیتؐ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر وہی تربیت بر سوں پہلے خود آغاز کی تھی۔ حضرت محمدؐ محسن انسانیت ہیں، کہ یورپ جن اولڈ پیپلز ہوم کو آج ختم کر نا چاہتا ہے، ان کی جڑیں تو محسن انسانیتؐ نے اسی دن کاٹ دی تھیں، جب کہا تھا کہ باپ کی طرف محبت کی ایک نگاہ سے دیکھنے والے کو مقبول حج کو ثواب ہے۔ آپ محسن انسانیت ہیں ،کہ بیٹیوں کو زندہ در گور کر دینے والے، آپ کے طفیل بیٹیوں کی کفالت سے جنت کمانے لگے۔ آپ  محسن انسانیت ہیں ،کہ بحیرہ، سائبہ اور وصیلہ کا نام لیکر عورتوں پر حلال جانوروں کا گوشت حرام قرار دینے والے، اپنے مکر وہ فعل سے باز آگئے۔ آپؐ محسن انسانیت ہیں، کہ قیدیوں کے جسم میں لوہے کی کنگھیاں پھیر دینے والے قیدیوں سے حسن سلوک سے پیش آ نے لگے۔
جی ہاں معزز سامعین:
علم پھیلا آپؐ کے دم سے۔۔۔
ادب پھیلا آپ ؐکے دم سے۔۔۔
عقل پھیلی آپؐ کے دم سے۔۔۔
معاشرت کا شعور پھیلا آپؐ کے دم سے۔۔۔
عورت مقدم ٹھہری آپؐ کے دم سے۔۔۔
مرد معتبر ٹھہرا آپؐ کے دم سے۔۔۔
آقا کا تصور بدلا آپؐ کے دم سے۔۔۔
ارے وارثت طے پا گئی۔۔۔ سخاوت وطیرہ ٹھہری۔۔۔ امانت شعار ہو گیا۔۔۔ دیانت چلن بن گئی ۔۔۔صداقت سبق۔۔۔ اخوت عزم۔۔۔ لیاقت سلیقہ۔۔۔ خوش اخلاقی لبادہ۔۔۔ ارے صرف تب ہی نہیں، آج بھی اور کل بھی، یہ ساری کرنیں اُسیؐ کے دم سے پھوٹی ہیں۔ یہ ساری ضیا اُسیؐ ستارے کی ہے۔ جو صاحب الجمال بھی ہے، سید البشر بھی۔ مِن و جہک المنیر بھی ہے، لقد نور القمر بھی ۔جو ایک شخص کی عزت کوپوری انسانیت کی عزت سے تعبیرکرتا ہے۔ جو ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل کہتا ہے۔ ارے وہی ہے محسنِ انسانیت ’’نبیءِ آخر الزماںؐ‘‘  اہل علم تو اس باب کا دروازہ یو ں بند کر تے ہیں۔ کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔

میری رسمیں محبت کی تعلیم دیتی ہیں(قرارداد)

میری رسمیں محبت کی تعلیم دیتی ہیں(قرارداد)
عرب کا تپتا صحرا۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف ریت ہی ریت۔۔۔۔۔۔ سخت گرمی کا موسم۔۔۔۔۔۔ کچھ غلام اک آدمی کو تپتی ریت پر گھسیٹ رہے ہیں۔ اس کے جسم پر کوڑے بر سا رہے ہیں، اس کو ننگی گا لیاں دے رہے ہیں اور اس’’مجبور‘‘ اور مقہور آدمی کی زبان پر ایک ہی صدا ہے۔ ’’احد‘‘۔۔۔’’احد‘‘۔۔۔’’احد‘‘۔ اتنے میں تپتی ریت کی تپش سے جل کر ۔۔۔ ریگزار میں ایک گرم لہر آئی۔ چند بگولے اٹھے۔۔۔چند ساعتیں رکیں اور فضا میں کچھ لفظ ٹھہر گئے اور میرے کان میں کہا رسمِ الفت کی قسم جب تک اس جسم میں جان ہے، جب تک ان رگوں میں خون بہتا ہے ،جب تک یہ سانس سلامت ہے، محبت کی قسم یہ رسم باقی رہے گی، میں خدا کو ایک کہتا رہوں گا محمدؐ کو نبی مانتا رہوں گا۔
صاحبِ صدر!
میری رسمیں محبت کی تعلیم دیتی ہیں ،کیونکہ رسم ایک سلیقہ ہے ،رسم ایک طریقہ ہے ،رسم ایک قسم ہیں، رسم ایک رشتہ ہے، رسم ایک خوبصورتی ہے، رسم ایک رابطہ ہے، رسم ایک ایسا رواج ہوا کرتا ہے ، جسے لوگ اپنے معمولات میں شامل کر دیں۔ غیر مسلموں کیلئے مسلمان کا عقیدہ بھی ایک رسم ہے اور مومن با صفا کیلئے بت پرستی بھی ایک رسم ہے۔اہلیانِ نوا کیلئے انکی صدا بھی ایک رسم ہے، مرغانِ چمن کیلئے با دِ صبا بھی ایک رسم ہے۔ عاشقانِ با وفا کیلئے وفا بھی ایک رسم ہے اور رسمِ جہاں ہو یا رسمِ فغاں ۔ یہ زمین ہو یا کون و مکاں ، ویرانہءِ دشت ہو یا نخلستاں۔ رسم ایک ابر ہے جو ہر کلی اور کانٹے پر بر ابر برستا ہے۔ تو کہنا پڑتا ہے رسم غزنوی کی قسم!
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بند ہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
صاحبِ صدر!
رسم ایک خوشی کا نام ہے جو ہر گھر میں سورج کی روشنی کیطرح برابر اترتی ہے۔بیٹا غریب کے ہاں پیدا ہو یا امیر کے ہاں، کہیں صفِ ماتم نہیں بچھتی بلکہ محبت ہی بانٹی جاتی ہے۔بیٹی چاہے کسی کی بھی ہو، رخصتی کے دن آئیں تو سبھی کے ننھیال اُس معصوم روح کی رخصتی کیلئے سامان بہم پہنچاتے ہیں۔اور جب کسی کی خمیدہ کمر شادی کے اخراجات بر داشت کرنے کی متحمل نہ ہو، تو نیوندرے جیسی خوبصورت رسم اس کیلئے خوشیاں بکھیرتی ہے۔اور جب اپنے گھر کو خود پر حرام کر کے رانجھا تخت ہزارے کو چھوڑ تا ہے تو اس کی بانسری یہی دھن الاپتی ہے۔
رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھن ہوئی
ہر کوئی آکھے رانجھن مینوں ہیر نہ آکھے کوئی
اورجب کسی لیلیٰ کی چاہ میں مجنوں صحرائے نجد میں خاک چھا نتا ہے اور ہر قدم پر لیلیٰ لیلیٰ پکارتا ہے تو دشت کا ذرہ ذرہ چلا تا ہے کہ رسمِ الفت کی قسم
جن کی آنکھوں میں شبِ گنج اڑی ہوتی ہے
ان کے پاؤں میں بیڑی محبت کی پڑی ہو تی ہے
اور جب چناب کا پانی اپنی بپھری لہروں کیساتھ ہر ذی روح کو خس و خاشاک کی طرح بہانے کا عزم کرتا ہے تو رسمِ الفت ایک کچے گھڑے پر تیر کر کہتی ہے۔
طوفاں ہے تو کیا غم مجھے آواز تو دیجئے
کیا بھول گئے آپ میرے کچے گھڑے وہ
صاحبِ صدر!
میری رسمیں تو بجھتی سانسوں کیلئے زندگی کا پیغام ہیں۔ میری رسمیں تو محبت کا دوام ہیں۔ میری رسمیں تاریک راہوں پہ روشنی کا نام ہیں میری رسمیں دعاہیں میری رسمیں سلام ہیں۔میری رسمیں حسن ہیں، میری رسمیں حسین ہیں۔ میری رسمیں امن ہیں میری رسمیں امین ہیں، میری رسمیں حقیقت ہیں میری رسمیں یقین ہیں، میری رسمیں شاہد ہیں میری رسمیں شاہین ہیں۔
جنابِ صدر!
رسمیں محبت کی داعی ہیں۔ یہ سلسلہءِ روزو شب گواہ ہیں کہ گر کبھی محبت کو قر بانی کی ضرورت پڑی ، تو شوریدہ سروں نے رسم دلبری نبھائی ،اور اپنے لہو سے تاریخ سجائی ۔کیونکہ جب ایک بیٹی کی پکار پر ایک بن قاسم، حجاج بن یوسف کی صورت اپنے آباء کی رسموں کی پاسداری کرتا ہے تو میرا دل یہ کہتا ہے کہ رسمیں محبت بانٹتی ہیں۔اور جب سلطان فتح ٹیپو
بر صغیر کے مظلوم عوام کی مظلمو میت کا بدلہ چکا نے کا عزم کرتا ہے، تو میرے دل سے صدا آتی ہے، رسمیں محبتیں بانٹتیں ہیں۔ اور جب میرا قائد رسمِ چاہ اور وفا نبھا تے ہوئے بستر مرگ پہ بھی کا م کام اور بس کام کا پیغام دیتا ہے تو میرے دل سے صدا آتی ہے میری رسمیں محبت بانٹتی ہیں۔
صاحبِ صدر!
میں کسی پہ انگلی نہیں اٹھاؤں ہو گا اور نہ ہی کسی کیلئے نفرت کا پیغام دوں گا کیونکہ میری رسمِ محبت اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔ اور آج
دیکھنا یہ ہے کہ اس با طل و حق کے رن میں
رات مرتی ہے کہ زنجیرِ سحر ہو تی ہے
آخری فتح میری ہے میرا ایمان ہے یہ
جس طرح ڈوبتے سورج کو خبر ہوتی ہے

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج

کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج
جناب صدر! آہ ۔۔اِک آواز ہے ،جو خانہ ءِ دِل سے اُس وقت نکلتی ہے ،جب دل غموں سے معمور ہو جائے۔ روح تڑپنے کو مجبور ہو جائے۔ آہ اِک سوچ ہے، جو کسی ہارے ہوئے فاتح کی آخری ہچکی بھی ہو سکتی ہے اور چیخ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ اِک انداز ہے کہ انسان اپنے دکھوں پر خود ہی ہاتھ ملتا رہے۔ آہ کم ہمتی کے خواب کی تعبیر ہے، جس کے مقدر میں ازل سے ہی نالہ وشیون لکھے ہوئے ہیں۔اور۔۔۔ آہ کو تو چاہیے ،اِک عمر اثر ہو نے تک۔۔۔پھر کون کہتا ہے کہ آہیں ہیں مصائب کا علاج۔
جنابِ صدر! تاریخ گواہ ہے کہ دل والوں کی یلغاروں میں آہیں ہمیشہ دبتی چلی آئی ہیں۔ اِس کائناتِ ہست و بود نے وہ گھڑیاں بھی دیکھیں، جب 313نے آہوں کی زرہیں اتار پھینکیں، اور بدر کو اپنے خون سے لالہ زار کیا۔ جب اندلس کے ساحل پر، ہر ملک کہ’’ ملکِ خدائے ما است ‘‘کا نعرہ بلند ہوا۔ جب عرب کے تپتے ریگزاروں میں اَحد احد کی صدائیں ابھریں، جب عبدالمطلب کے مقابل ابرہہ کے ہاتھی میدان میں آئے۔ جب راڈرک نے میدان جنگ چھوڑا۔ جب احد میں 70مسلمان شہید کر دیئے گئے ۔جب چونڈا اور سیالکوٹ کے محاذوں پر ،دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں سے لڑی جانے والی جنگ شروع ہوئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی نازک وقت میں سور ما، آہوں کی بانہیں نہیں تھا متے بلکہ سینے پر بم باند ھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
جنابِ صدر! اگر آہیں مصائب کا علاج ہوا کرتیں، تو آج سارے کشمیری اپنی بندوقوں سے بے نیاز سر با ندھے آہ و بکا میں مشغول ہو تے۔ اگر آہیں مصائب کا علاج ہوا کر تیں ،تو آج فلسطینی بچے اپنے ہاتھوں میں غلیلوں کی بجائے اشکوں کے کشکول لئے ہوتے۔ اگر آہیں مصائب کا علاج ہو ا کرتیں تیشہءِ فر ہاد سے جوئے شیر کی نہریں نہ پھوٹتیں۔ آہیں مصائب کا علاج ہو ا کرتیں، تو کچے گھڑے چناب کی طغیانیوں کے مقابل کبھی نہ آتے۔ آہیں مصائب کا علاج ہوا کرتیں، تو ساحلوں پر کشتیاں جلانے والے کبھی ملک فتح نہ کرتے۔ اگر آہیں مصائب کا علاج ہوا کرتیں، تو ایک ہی پکار پر سمندر ٹاپنے والے گھروں میں مقید ہو کر رہ جاتے ،راتوں کو گلیوں کا گشت کر نے والے خلفاء ، انا ج کو بوریوں کی بجائے آہوں کا ایندھن بانٹتے پھرتے۔ الکا سِب حبیب اللہ کی صدائیں کبھی نہ ابھرتیں ۔اور میرا نبیؐ عادتاً مانگنے والوں کے ہاتھوں میں کلہاڑا کبھی نہ تھماتا۔ میرا خدا لیس الا نسان اِلا ما سعیٰ میں ساری دنیا کو کبھی نہ سموتا ۔ کیونکہ آہیں تو کم ہمتی کا درس دیتی ہیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرنے کا درس دیتی ہیں۔ روز جینے اور روز مر نے کا درس دیتی ہیں۔
اور وہ مرد نہیں جو ڈر جائے، حالات کے خونی منظر سے
اُس دور میں جینا لازم ہے، جس دور میں جینا مشکل ہو
جنابِ صدر!آہیں مصائب کا علاج نہیں ہیں ۔کیونکہ نانِ شبینہ کمانے کیلئے رات اور دن کا پسینہ لہو کر تا پڑتا ہے۔ آہیں مصائب کا علاج نہیں ہیں، کیونکہ کار زارِ ہستی کے پر پیچ راستوں میں انسان کو اپنی راہیں بلند حوصلگی سے تراشنی پڑتی ہیں۔ آہیں مصائب کا علاج نہیں ہیں ،کیونکہ مصائب کے قفل تومحنت کی کنجیوں سے کھلتے ہیں۔ آہیں مصائب کا علاج نہیں ہیں، کہ طوفانوں میں گِھر ی کشتیاں با دبانوں کے تھپیڑے کھا کر، اپنے زور بازو سے مصائب کا حل کیا کرتی ہیں۔ پھولوں سے لدی ٹہنیاں، کسی مصیبت میں منہ نہیں بسور تیں ،بلکہ کانٹے چبھو یا کرتی ہیں ۔ میدانِ جنگ میں زخم خوردہ لٹکتے بازوؤں پر آہیں نہیں بھر ی جاتیں، بلکہ پاؤں کے نیچے رکھ کر تن سے جدا کر دیئے جاتے ہیں۔ دشمن کی مکاری پر دِلِ مومن سے نالے نہیں نکلتے ،بلکہ کم سن اپنے طیارے زمین میں گھسا دیا کرتے ہیں۔ کشتیوں کے جلنے پر دل آزادی کی نہیں بلکہ نگاہِ مسلمان کی بیداری کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ دشمن کے پرتھویوں کے مقابلے میں غوری بنا نے پڑتے ہیں۔ اگنیوں کا جواب شاہینوں سے دینا پڑتا ہے۔ ترشولوں کو حتف اور بدر ما ت کر تے ہیں۔ ایک دھماکے کے جواب میں پانچ دھماکے کر نا پڑ تے ہیں ،اور دل والے تو ہر مشکل گھڑی میں یہی یقین رکھتے ہیں۔
جب کچھ بن نہ پڑا تو ڈبو دیں گے سفینہ
ساحل کی قسم منت طو فان نہ کریں گے

کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں

کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں
ْ ؂ اُڑی ہے راکھ زمانے بدلنے والے ہیں
سمے یہ سارے سہانے بدلنے والے ہیں
زمیں پہ پھر کہیں طوفاں کی سر سراہٹ ہے
پرندے اپنے ٹھکا نے بدلنے والے ہیں
جی ہاں جناب صدر!
کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں،کہ آج کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو کا نعرہ لگا کر، بازو بھی بہت ہیں اور سر بھی بہت کی تلقین کر نے والی زبانیں خاموش ہو گئیں ہیں۔ آج کوئی بازو نہیں جو آگے بڑھے ، آج کوئی سر نہیں جو اُوپر اٹھے۔کہ آج
؂ کٹے پھٹے ہوئے جسموں پہ دُھول کی چادر
اُڑا رہی ہے سرِ عام زندگی کا مذاق
ہر گزرتا دن ہر جھکتی کمر کے جھکاؤ میں ایک انچ کا مزید اضافہ کر ے۔اور
؂ بجھی بجھی ہوئی آنکھوں میں کانپتے آنسو
لہو میں تیرتے چہروں کے بد نصیب گلاب
تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں
جی ہاں جنابِ صدر!
ہیر و شیما اور ناگا سا کی کی بانجھ دھرتی سے اُگنے والے لنگڑے لُولے بچوں کی نسل وجود میں آنے کو ہے۔ویت نام کے تو پخانوں سے بچا کھچا بارود تو رہ بورہ پر گرنے والے کروز مزائلوں کی شکل اختیار کر گیا ہے۔فلسطین میں آزادی کی بانسری بجاتے بجاتے یا سر عرفات کی داڑھی میں چاندی اُتر آئی ہے۔ آبِ زم زم کے کنو ئیں کے آس پا س امریکی فوجیوں کے بوٹوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔بھارت کے پرتھوی پاکستان کی سرحد پر آ گئے۔پاکستان کے غوری ہندوؤں کی یلغار کے منتظر ۔افغانستان کی حکومت ہمیشہ کی طرح چل رہی ہے خدا کے سہارے ۔عراق تباہ حال ہے ایران یا لیبیا کی باری ہے۔فلسطین و کشمیر جل رہے ہیں اسرائیل کی تباہ کاری ہے۔روس مٹ چکا ہے امریکہ کی باری ہے۔ کہ آج نام نہاد ترقی یافتہ، مذہب کو بنیاد پرستی کے نعروں میں گم کرنے والے خود صلاح الدین کی قبر کو ٹھو کر یں مار مار کر غیرتِ مسلمان کو للکارتے ہیں، اور مسلمان کرے تو کیا کرے، ہاتھ پرہاتھ دھرے آسمان کی وسعتوں سے ابابیلوں کا منتظر ہے۔تو کوئی طوفاں ہی آیا کر تا ہے کہ جب ہر ملک دوسرے ملک کو یہ تلقین کر تا ہے۔
؂ کہ تُم سے ممکن ہو تو سب روشنیاں گُل کر دو
وہ اندھیر ا ہو کہ ہر رنگ پر یشاں ٹھہرے
آنکھ پلکوں کی رفاقت سے گُریزاں ٹھہرے
شاخ در شاخ اُترنے لگے وحشت کا عذاب
شورشِ موجِ ہوا، صُورِ سرافیل لگے
رقص کرتے ہوئے بے خواب بگولوں کے بدن
رہ گزاروں کی تھکن اَوڑھ کے شَل ہو جائیں
ماند پڑ جائیں ستاروں کے قبیلوں کی رسوم
جاگتے شہر تہہِ خاکِ زمیں ہو جائیں
شہ رگِ وقت میں سیاّل سیاہی بھر دو
تم سے ممکن ہو تو سب روشنیاں گُل کر دو
تو کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں
جنابِ صدر!
آج اقوام عالم کا جائزہ لیکر دیکھئے۔کہیں بھوک کی حکمرانی ہے اور کہیں جنگ مسلط ہے۔ اور جہاں کہیں نام نہاد امن ہے تو موت کا سکوت طاری ہے۔پوری دنیا بُش ڈاکٹرا ئن سے لرزہ بر اندام۔۔۔جانے اب کیا ہو گا۔۔۔جی ہاں ! جب انسان اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں تو انہیں اپنی فنا بھو لنا پڑتی ہے۔اور ڈر ہے کسی ایسے ہی لمحے میں، جب نیست و نابود ہو نے کا خوف کسی میں وہ انجانی قوت بھر دے کہ وہ اپنی تمام طاقتوں سمیت دنیا بھر کو اُلٹنے کا تہیہ کر لے۔تو پھر کوئی طوفاں آہی جا یا کر تا ہے۔آج پھر شہروں پر موت کے فرشتے منڈ لاتے نظر آتے ہیں کہ ایمل کانسی کو بچانے والا کوئی اُسامہ نہیں رہا۔آج پھر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ملبے سے صدا آتی ہے کہ ٹھہرو مجھے دو بارہ تعمیر کر نے سے پہلے ذرا سو چ لو، تمھارے پا لتو ؤں کی گر دنوں کے زخم انہیں کسی لمحے بھی بغاوت پر مجبور کر سکتے ہیں۔ دھرتی کے سینے میں وہ بے چینی ہے الا ماں الاماں۔کوئی مسیحیت کا سہارا لیکر صلیب کی جے کا نعرہ بلند کر تا ہے اور کوئی لا الہ کو مقصدِ حیات کہہ کر الجہاد کا پروانہ ہو گیا ہے۔میں تو کہتا ہوں کوئی دیوار گر نے کو ہے۔۔۔کوئی نشاں ن بننے کو ہے۔۔۔کوئی مکان جلنے کو ہے۔۔۔کوئی طوفان آنے کو ہے ۔۔۔ کہ
اب تو بارُود کا اِک ڈھیر بنی ہے دنیا
اب تو باقی ہے فقط ایک دھماکہ ہو نا
اب کسی طوفاں کی آمد ہے یہی آثار کہتے ہیں

جغرافیائی سرحدیں تاریخی سرحدوں سے زیادہ اہم ہیں(قرارداد)

جغرافیائی سرحدیں تاریخی سرحدوں سے زیادہ اہم ہیں(قرارداد)

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میرا قائد ’’محمد علی‘‘ کا نام اوڑھے پاک لوگوں کے رہنے کو ایک گھر تشکیل دینا چاہتا تھا۔اور جب علیؓ کے گھر انے کی شجاعت لئے ’’فاطمہ‘‘ خیبر سے راس کماری تک گھروں کے دروازے کھٹکھٹا تی ہے کہ بہنو! اٹھو، کہ یہ آ گ بھائیوں کے خون سے نہیں بجھے گی۔پھر گوہر اور جوہر تراشنے والی مائیں اپنے دودھ کی قسموں کو بیڑیاں بنا کر بیٹوں کی جوانیوں کو پابند کرتی ہیں۔ بیٹو ! آگے بڑھو! ماں کی قسم! دھرتی تمہاری ماں کی بھی ماں ہے!اُدھر ہر ماں نے اپنا بیٹا ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ہر بہن نے اپنا بھائی پیش کر دیا۔ ہر سہاگن اپنے سہاگ کو تھالی میں سجا لائی کہ ’محمد علی‘‘ آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ عین اسی لمحے مولو یانِ ہند کو بھی یہی شوشہ سو جھا تھا کہ جغرافیائی سرحدیں کچھ نہیں ہوتیں۔ سن 1900کے لکھے، نیل کے ساحل سے تا بخاک کاشغر کی ڈھال لیکر، کعبتہ اللہ سے سرحدِ پاکستان کا عندیہ سنا کر، عنایت اللہ مشرقی کے احراروں نے میرے قائد کے جسم پر چھرا گھونپا تھا۔ پھر عاشقِ رسولؐ کی صدا، الہ آباد کے ایوانوں سے گونجتی ہے ،کہ شمال سرحدی صوبہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور دیگرعلاقوں کو ملا کر ایک علیحدہ مملکت تشکیل دی جائے۔ پھر میری قوم کی صغرائیں، سیکرٹریٹ کی عمارتوں پر چڑھ دوڑ تی ہیں۔ میری کبرائیں، فاطمہ بنت عبد اللہ کا روپ دھار لیتی ہیں۔ میرے جیالے ویول، اور ولنگٹن وفد کو ناکام و نا مراد لوٹا دیتے ہیں۔ ارے تم ایک دلیل کی بات کر تے ہو۔6لاکھ دلیلیں اپنے لہو کا قطرہ قطرہ نا موسِ وطن پربہا کر اعلان کرتی ہیں۔ کہ جغرافیا ئی سرحدیں تاریخی سرحدوں سے زیادہ اہم ہیں۔
جنابِ صدر! جغرافیہ اسلام کی چادر اور چار دیواری کا عملی مظہر ہے، اور اپنے اور پرائے کے گھر میں ایک حد فاصل مقرر کر تا ہے۔ میرے مجاہدوں کے ایمانی جذبات کو ورغلا کر ایک بار پہلے بھی ان لوگوں نے جنگِ جمل چھیڑی تھی ،اور آج بھی نشاطِ ثانیہ کے نشے میں اپنی خواہشات کا زہر ملا کر، واہگہ بار ڈر توڑ نے کی بات کر تے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کو پھر سے پر کھیے، میرا طارق بن زیاد جہاں بھی گیا اس نے ملکوں کے نقشے نہیں بدلے۔ بن قاسم کی تلوار نے سندھ کو حجاز نہیں کہا ،یوسف بن تاشفین نے ظلال السیوف کی پناہ میں جنت تو ڈھونڈی، مگر جغرافیہ سے منکر نہیں ہوا۔ محمود غزنوی تاریخ میں بت شکن تو کہلا یا مگر اس نے جغرافیائی سرحدوں کے نام نہیں بدلے۔
جنابِ صدر! جغرافیائی سرحدیں تو کسی قوم کا وہ آ ہنی قلعہ ہو ا کر تی ہیں، جو اس کی بقا کا آخری حصار ہوتا ہے۔ جس طرح بے نام شخص کی کوئی شناخت نہیں، اس طرح بے یارو مدد گار قوم کی کوئی عزت نہیں۔ جس طرح چار دیواری کے بغیر مکان کا تصور نہیں، اسی طرح کسی جغرافیائی حد کے بغیر کسی قوم کا تصور نہیں۔ جس طرح کسی لا وارث کا کوئی وارث نہیں، اسی طرح کسی بھٹکتی قوم کا کوئی وارث نہیں۔
ارے تم کہتے ہو، تاریخی سرحدیں بہت اہم ہیں۔ تاریخی سرحدیں اگر اہم ہوتیں تو تمھارے سامنے عراقی
بھا ئیوں کی آزادی کو یوں تاراج نہ کیا جاتا۔ تاریخی سرحدیں اگر اہم ہوتیں تو افغانستان پر اٹھنے والی ہر آنکھ نوچ لی جاتی۔ تاریخی سرحدیں اگر اہم ہوتیں تو فلسطین میں لٹتی پھٹتی انسانیت کا یوں مذاق نہ اڑایا جاتا۔ تاریخی سرحدیں اگر اتنی اہم ہوتیں تو کشمیر کی سلگتی وادی کے اٹھنے والے غبار سے بے بسی کے آنسوؤں کی بارش نہ ہوتی۔ ارے تاریخ کے دھندلکے میں الجھے آدمی:
سن اے غافل صدا میری یہ ایسی چیز ہے جس کو
وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے،ہو نے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستا نوں میں
اُجاڑا ہے تمیزِ ملت و آئین نے قوموں کو
میرے اہل وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے
وطن کی فکر کر نا داں مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

جمہوریت ایک ناکام طرزِ حکومت ہے(مخالفت)

جمہوریت ایک ناکام طرزِ حکومت ہے(مخالفت)
اخوت و مساوات کی چوٹیوں سے ابھرا سورج جس نے جمہوریت نام پایا۔ظلم و جور، نا انصافی اور معاشرتی اونچ نیچ کے گھُپ اندھیروں میں جلی ایک روشن قندیل جس نے جاگیر دارانہ اور سفاکانہ نظامِ حکومت کے خلاف اعلانِ بغاوت کر دیا۔
’’اِنّ الباطِلَ کان زھو قا‘‘ کے پس منظر سے پھوٹا یہ اُجالا ، جس نے اُمرا کے محلوں سے روشنی چُرا کر غریبوں کی جھونپڑیوں میں پہنچائی۔ جمہوریت جس نے سلطانہ ڈاکو، رضیہ سلطانہ اور پھولن دیوی کا روپ دھار کر امیروں کی تجوریوں سے غریبوں کے آنگن میں خوشیوں کے پھول کھلائے۔جمہوریت جس نے کبھی مسندِ شاہی پہ راج کیا اور کبھی سولی پہ لٹک آئی۔ جمہوریت جس نے لکڑہا رے کے بیٹے کو ابراہیم لِنکن کا نام دیا اور کبھی اخبار بیچنے والوں سے قوموں کی نگہبا نی کرائی جمہوریت جس نے خاندانی رئیسوں کے مقابلے میں غریبوں کی آواز کو ایوانِ بالا تک پہنچنے کی سکت دی۔ جمہوریت جس نے غریب کو نوید دی کہ
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غُنچہ سے شاخیں ہیں نکلنے والی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی اُفق تابی ہے
جنابِ صدر! میں جمہوریت کو نظامِ حکومت نہیں بلکہ نظامتِ عوام سمجھتا ہوں کیونکہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی وہ قوم جس کو بر صغیر میں شودر و براہمن کے فر قوں میں بانٹ دیا گیا تھا۔ وہ عوام جس کو صدیوں تک بادشاہوں نے دیواروں میں چُنوایا تھا۔ جسے زرداروں نے اپنے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندا تھا۔ جسے مہاراجوں نے اپنے ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلوایا تھا۔وہ عوام جس کی کھوپڑیوں سے ہر جنگ کے آخر میں مینار بنتے تھے۔ وہ بھوک سے سسکتی عوام جس کی قبروں پر تاج محل کھڑے کئے گئے۔ وہ عوام جو اس لئے بیٹیاں جنم دیتی کہ بادشاہوں کی محفلوں میں انار کلیاں اور دل آرائیں بنادی جائیں۔ وہ عوام جو صرف اس لئے زندہ تھی کہ حاکمِ وقت کو اپنے لہوکی آخری بوند بھی لگان میں دے دے۔
اُسی مجبور و بے بس اور لاچار عوام کے لئے جمہوریت کا سورج بقاء کا ضامن بن کے آیا۔ ایک ایسا اُجالا بن کے آیا جس نے محکوم کو حاکم کے برابر کر دیا۔ اور آج میرے مخا لفین، وطنِ عزیز کی چند تاریک ساعتوں کا حوالہ دے کر اُسی جمہوریت کو بقا ٰ ء کا قاتل ثابت کر نا چاہتے ہیں۔جنابِ صدر میں پوچھنا چاہوں گا کہ میرے مخالفینِ جمہوریت کو کیوں قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ میرے ملک کی فضاؤں میں تو جمہوریت کا پھول کبھی کھلا ہی نہیں، اور اگر کھِلا بھی تو اُس کی خوشبو مزدور کے
آ نگن تک پہنچی ہی کب تھی۔ ہاں مگر جمہوریت کا ایک قصور ضرور ہے ، میں بھی مانتا ہوں کہ اس میں امیر ہو یا غریب ، کالا ہو کہ گورا، سر مایہ دار ہو یا مز دور، جاگیر دار ہو کہ ہاری، ان سب کا ووٹ طاقت بن کر ظالموں کے گلے کا پھندا بن جاتا ہے۔ اگر اس قصور کو کوئی جُرم تصور کر تا ہے تو اس کی سزا بھگتنے کو سب سے پہلے میں تیار ہوں ۔ آؤ اپنی آمریت کا سب سے پہلے مجھے نشانہ بناؤ کہ میرا توایمان ہے کہ
جتنے تاریک گھر ہیں اُجالوں سے دور دور
اتنی ہی روشنی میں ستاروں سے چھین لوں
جتنے ہیں تن برہنہ، لباسوں سے بے نیاز
اتنی ہی چادریں میں، مزاروں سے چھین لوں
صدرِ محترم!
جمہوریت اجالا ہے، روشنی ہے، پیغام ہے، محبت و آشتی کا۔۔۔۔ انسانی بقاء کا وہ نظریہ ہے جس نے آقا و غلام کے فرق کو خس و خا شاک کی طرح بہا دیا۔جمہوریت وہ نظامِ حکومت ہے جس نے جاگیر دارانہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔جمہوریت بقاء ہے کہ اس نے مزدورکو اُس کے حق سے روشناس کر ایا۔ جمہوریت بقاء ہے کہ اس نے برِ صغیر کے مسلمانوں کو سُکھ کا سانس دلایا۔ جموریت بقا ء ہے کہ یہ توہینِ عدالت کر نے والے حاکمِ وقت کو عدالت میں گھسیٹ لاتی ہے۔ جمہوریت بقا ء ہے کہ یہ بد عنوانی کے مرتکب نر سیما راؤ کو جیل کی کال کوٹھریوں میں دھکیل دیتی ہے۔جمہوریت بقا ء ہے کہ ایک معمولی سیکریڑی ،پوری دنیا پر حکمرانی کرنے والے کلنٹن کو ندامت سے سر جُھکانے پر مجبور کر دیتی ہے۔جمہوریت بقاء ہے کہ یہ غریب ہاری کو ایک سر مایہ دار حکمران سے اُس کا حق دلاتی ہے۔ جمہوریت بقا ء ہے کہ یہ بنجرزمینوں سے سونا اُگلوا تی ہے۔
جنابِ صدر! میرے مخالفین اسلام او ر اقبال کا حوالہ دے کر جمہوریت کو ناکا م طرزِ حکومت ثابت کر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ بقول ان کے جمہوریت اور اسلام کا تو کوئی ساتھ ہی نہیں ہے۔میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے ۔ اگر میں نے 1973کے جمہوری آئین میں اسلامی دفعات کو مجتمع ہو تے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔ میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے اگر اس نے زکوٰۃ کے نظام کو لاگو نہ کیا ہوتا۔میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے ، اگر اس کے آرٹیکل 31نے ملک میں لا گو ہو نے والے ہر قانون کو قر آن و سنت کے تابع نہ کیا ہوتا۔ میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے اگر اس وطنِ عزیز کے صدر اور وزیرِ اعظم کے لئے مسلمان ہو نے کی شرط کو لاگو نہ کیا ہوتا۔میں مان لیتا کہ جمہوریت ناکام طرزِ حکومت ہے اگر میں نے پاکستانی پارلیمنٹ کو
قادیا نیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا۔ ارے کون کافرمغربی مادر پدر آزاد جمہوریت کی بات کر تا ہے۔ ہم تو کہتے ہیں کہ اسلام کی روشنی میں وہ جمہوریت آئے جو کسی اکبر کو دینِ الٰہی نافذ کر نے کا موقع نہ دے۔ ہم تو اس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو خلیفہءِ وقت کے چناؤ کے لئے مدینہ کی گلیوں میں جمع ہونے والے جمِ غفیر سے پوچھتی ہے کہ ان 6اصحاب میں سے تمھارا خلیفہ کون ہو گا۔ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو دیوارِ برلن کو گراتی ہے۔ ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو احساس دلا تی ہے کہ
میں اگر سو ختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خوددکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
ہم تواُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں،جو شاہ کے ہر کاروں کو خبر دار کر تی ہے۔
اب دیوار میں کوئی چنوا یا نہ جائے گا
اب دار پہ کوئی بدن سجایا نہ جائے گا
ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو اپنا منشور دیتی ہے کہ
امیرِ شہر سے سارا حساب لیں گے
غریبِ شہر کے بچے جوان ہو نے دو
ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو یہ عزم پیدا کر تی ہے کہ
مہرِ تاباں سے جا کے کہہ دو کہ اپنی کرنیں سنبھال رکھے
میں اپنے صحرا کے ذر ے ذرے کو خود چمکنا سکھا رہا ہوں۔
ہم تواُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو اعلان کرتی ہے کہ
اگلے برس ہم گلشن والے اپنا حصہ پورا لیں گے
پھولوں کو تقسیم کر یں گے کا نٹوں کو تقسیم کریں گے
ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جو میرے مخالفین میں اتنا حوصلہ پیدا کرتی ہے۔ کہ وہ آج ایک جمہوری ملک میں سرِ عام اُسی جمہوریت کے خلاف زہر اُگلیں ہم تو اُس جمہوریت کی بات کر تے ہیں جس میں میری بقاء ہے، آپ کی بقا ہے ، پاکستان کی بقا ء ہے۔

جغرافیائی سرحدیں تاریخی سرحدوں سے زیادہ اہم ہیں (مخالفت)

جغرافیائی سرحدیں تاریخی سرحدوں سے زیادہ اہم ہیں (مخالفت)
جغرافیہ خونِ انسانی سے کھینچی وہ لکیر ہے، جو دلوں میں تقسیم کی دراڑیں ڈالتی ہے۔ جغرافیہ کبھی کسی دیوار برلن کو جنم دیتا ہے اور کبھی خوف دشمناں سے کسی دیوارِ چین کو بنانے کی سعی کر تا ہے۔ جہاں کہیں اتنی فراغت نہیں ملتی وہاں لوہے کی خار دار تاروں کے آرپار اپنے اپنے مطلب کے جھنڈے گاڑ لئے جا تے ہیں۔
تاریخ ’’و اعتصمو بحبل اللہ جمیعاً ولا تفر قُوا‘‘ کے بادلوں سے نکلا چاند ہے ،جو مکہ کے مہا جرین کو انصارِ مدینہ کو سگا بھا ئی بنا تا ہے، جو قبیلوں کے ازلی تعصب کو سمیٹ کر سبھی مسلمانوں کو ’’المسلم ا خو المسلم‘‘ کی لڑی میں پرو تا ہے۔ پھر خدا گواہ ہے کہ نیل کے ساحل سے تا بخاکِ کاشغر وہ صرف ’’اللہ اکبر ‘‘ کی صدا پر سر جھکا تے ہیں۔ جغرافیہ شخصی خیالات سے متاثرہ سوچ ہے جو افراد کو اس طرح مقید کرتی ہے کہ وہ کسی آزاد ملک میں رہ کر بھی غیر کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ اورتاریخ وہ جذبہءِ صادق ہے جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بلا ل حبشیؓ کے منہ میں احد احد بن کر چلاتا ہے۔جغرافیہ ایک جنون ہے جو تسلط اور بد امنی کے تا ثرات جنم دیتا ہے۔ تاریخ ایک حوصلہ ہے جو محکوم لوگوں میں اتنی سکت پیدا کر تاہے کہ وہ سؤر کی چربی میں ڈھلے کارتوس چلانے سے انکار کر دیں۔جغرافیہ وہ دنیاوی جاہ و حشم ہے جس کیلئے کھو پڑیوں کے مینار بھی بنتے ہیں اور نا گا ساکی اور ہیرو شیما کی تاریخیں بھی رقم ہوتی ہیں اور تاریخ وہ اخروی زندگی ہے جو زندہ ہو تو غازی اور مر جائے تو شہید کا ابدی فلسفہ پیش کر تی ہے۔غرضیکہ جغرافیہ کے جسم میں تاریخ دل بن کے دھڑکتی ہے۔ اس دل کی ہر ایک دھڑکن سے جغرافیہ کی دیوار یں متز لزل رہتی ہیں۔ تاریخ جغرافیہ کو جنم دیتی ہے۔ لیکن جغرافیہ تاریخ کو سنبھالنے کا متحمل نہیں ۔
جب کبھی میں دیکھتا ہو ں کہ میرا طارق بن زیاد جبرا لٹر کے ساحلوں پرہر ملک کہ ملک ما است کہ ملک خدا ئے ما است کا نعرہ بلند کر تا ہے تو میرا دل کہتا ہے کہ جغرافیائی سر حدیں مٹی کی دیواروں کے سوا کچھ بھی نہیں جب کبھی میرا مسلمان بھائی چھری کی زد میں کٹتا ہے تو اس کے لبوں پر جغرافیہ نہیں تاریخ ہوتی ہے۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔جب کبھی میرا مجاہد ٹینکوں کی باڑ کے آگے اپنے جسم سے بم باندھ کر لیٹ جائے تو مقصد بقائے تاریخ اسلام ہوا کرتا ہے۔جب کبھی میرے دیوانے ایماں کی حرارت والے، شب بھر میں مندر کی بجائے مسجد تعمیر کر دیں تو ان کی رگوں میں جغرافیہءِ مسجد نہیں، سر بلندی ءِ دین کا لہو رقص کر تا ہے۔جب ما ئیں اپنے بیٹوں کو اپنے ہاتھوں سے جنگوں میں شہید ہو نے کیلئے بھیج دیں ،تو لہو کا ہر ذرہ عشق رسولؐ کی راہ میں بہتا ہے۔جب معوذؓ اپنے بازو کو خود کاٹ کر میدان جنگ میں پھینک دیں ۔ جب ابودجانہؓ سر پر سرخ پٹی باندھ لیں ،اور میرے نبی مکرمؐ اسے تلوار سو نپ دیں، جب سعد بن ابی وقاصؓ تلوار چلائیں تو حضورؐ کہیں تلوار چلاؤ میرے ماں باپ تم پرقر بان ،جب آپؐ علیؓ سے کہیں کہ علیؓ یہ مرحب ہے تو علیؓ کہیں میں جانتا ہوں جب خالد بن ولیدؓ غم محرومیءِِ شہادت میں بسترِ مرگ پر رو پڑیں۔جب میرا معصبؓ بن عمیر، اپنے کٹے بازوؤں سے علمِ مسلمانا ں اپنے سینے سے لگا تا ہے، جب کوئی مومن نقش توحیدکا ہر دل پہ بٹھا تا ہے۔زیرِ خنجر بھی یہی پیغام سنا تا ہے، تو اس کو مطمعِ نظر زمین کا ٹکڑا نہیں ہوتا، سر بلندی ءِ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو ا کر تی ہے۔
جنابِ صدر! سب سے پہلے میں واضح کرتا جاؤں کہ جغرافیائی سر حدیں وہ حدیں جنہوں نے زمانہ ءِ قدیم میں دجلہ، فرات، نیل اور در یائے سندھ کی تہذیبوں کو جنم دیاتھا۔ بعد میں یہ سر حدیں کبھی ڈریورنڈ لائن کہلائیں، کبھی واہگہ بارڈر کے نام سے مشہور ہوئیں۔مگر تاریخی سرحدیں اس سے قطعی مختلف ہیں۔ یہ وہ سرحدیں ہیں جو کفر کو ’’امتِ واحدہ ‘‘ قرار دیتی ہیں۔ جو دنیا کے سبھی مسلمانوں کو ’’لا ا لہ الا للہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی بنیاد پر اکٹھا کرتی ہیں۔ جو کہتی ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندو ستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے۔ جو ’’ان الدین عند اللہ السلام‘‘ کی بنیاد پر اہلیانِ کفر اور اہلیانِ اسلام کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ جو اخوتِ مسلماناں کو وہ تقویت دیتی ہیں کہ 313بدر کے میدان میں ہزاروں پر پل پڑتے ہیں۔
جغرافیائی بر تری کا نعرہ لگانے والوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمہاری جغرافیائی دنیا کا مضبوط ترین بادشاہ، جب کبھی کسی صدام سے ٹکرایا ہے تو اس نے کہا کہ پھر صلیبی جنگوں کا آغاز ہو گیا۔اگر آج تمہاری جغرافیائی سرحدیں اہم ہوتیں تو کوئی بر طانوی فوجی تمہارے صلا ح الدین کی قبر پر ٹھو کر مار کر نہ کہتا کہ اٹھو! صلاح الدین ہم آگئے ہیں۔ اگر جغرافیائی سرحدیں اہم ہوتیں تو بابر ی مسجد کے میناروں پر بھنگڑے ڈالنے کون جاتا۔
جنابِ صدر!
تاریخی حدود جغرافیائی حدود سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ کیونکہ جغرافیائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے 269بھارتی مچھیروں کو تو خیر سگالی کے جذبے کے تحت چھوڑا جا سکتا ہے۔ مگر مجھے میرے غازی علم دین کی قسم! جب کوئی ہماری تاریخ کی توہین کر تا ہے تو ہم اسے نشانِ عبرت بنا دیتے ہیں۔کہ میرا حسین ابنِ علیؓ اسی بات کو ثابت کر نے کے لئے کر بلا میں 72اصحاب کی قر بانی دیا کر تا ہے۔
کیونکہ جب NO MUHAMMAD, NO MAKKA کے سانچوں کو ڈھال کر، کوک کی بوتلوں پر سجا یا جاتا ہے۔ اور جب تمھارے ہی کلمے کی تمھارے جوتوں کے تلو ؤں پر کھدائی کی جا تی ہے۔ تو نا موس محمدؐ کی قسم وہ تمھارے کسی جغرافیے کو نہیں بلکہ تمھاری تاریخ کو مسخ کر نے کی کوشش کر تے ہیں۔ ارے یہ جغرافیائی بر تری کا نعرہ تو اہلِ مغرب کی سازش ہے کہ خود تو Pepsiنامی مشروبات سے کروڑوں کما کر یہودیت کی بنیادیں مضبوط کر تے ہیں اور تمھیں سب سے پہلے پاکستان کا گمراہ کن نعرہ دیتے ہیں۔ اور خدا گواہ ہے کہ جب اقتدار کو بر قرار رکھنے کے لئے ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے، جیسے تاریخی فلسفے کو’’ سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی صداؤں میں ڈبو دیا گیا تو بادشاہی مسجد کے پہلو سے مجھے اس عظیم مفکر کی صدا سنائی دی کہ
؂ بازو تیرا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے

آزادی کے پچپن بر س

زادی کے پچپن برس
آزادی کے پچپن بر س کی داستان جو ٹکڑے ٹکڑے ہو تے جسموں سے نچڑتے لہو سے شروع ہو تی ہے، اور آنکھوں سے قطرہ قطرہ ٹپکتے لہو پہ ختم ہو تی ہے۔ سنگِ دشنام اور تیرِالزام کی بوچھاڑ میں صبحِ نا شاد اور روزِ ناکام کو شکست دینے والے آہنی ہاتھوں سے لیکر UNOاور UNICEFکے آگے جھولیاں پھیلا ئے ہوئے، کوڑھ زدہ مردہ دست وپا پر ختم ہو تی ہے۔ وہ داستان جس کو لکھنے کیلئے سیاہی ہندو ستان کے ہر مسلمان کے دل سے لی گئی۔ وہ داستان جس کا حرف حرف خونِ مسلمان سے تحریر ہے۔ جس کی سطر سطر حمیتِ ایماں کی تصویر ہے۔
چلئے اس داستا ن کو ہجرت کی ٹرین سے شروع کرتے ہیں۔اس باپ کی شجاعت سے شروع کرتے ہیں ، جس کے بیٹوں کو بٹوارے کی آڑ میں بانٹ دیا گیا۔ اس ماں کی برداشت سے شروع کرتے ہیں ، جس کی مامتا اس کی آنکھوں کے سا منے مسل دی گئی۔اس بہن کی پاکیزگی سے کرتے ہیں ، جس کو کسی اندھے کنویں میں چھلانگ لگانا پڑی۔ مگر یہ کیا ،
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
صبح آزادی کے متوالے، شمعِ آزادی لیکرآگے بڑھے، پہلے قائد بچھڑے ،پھر لیاقت کی باری آئی۔ جمہوریت اور آمریت کی وہ گرد اڑی کہ قائد کے پاکستان کا چہرہ دھند لا گیا۔پھرآپ کے رفقاءِ کا ر ایک ایک کر کے داعیِ اجل کو لبیک کہتے چلے گئے۔اور پھر تاریخِ پاکستان نے وہ ادوار بھی دیکھے۔ جب ایوان صدر میں کف بہتے منہ کے ساتھ گالیاں بر سائی گئی۔ جب امریکی اشاروں پر کھیم کرن اور رن کچھ سے فوجوں کی واپس بلا لیا گیا۔ ادھر ہم اور ادھر تم کے نعروں میں اپنی عزت رہن رکھ کر ایک لاکھ فو ج کو جنگی قیدی بنوا دیا گیا۔روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرہ لگانے والوں کو سولیوں پر لٹکا دیا گیا۔عشر زکوٰۃ کے نام پر اکٹھا ہو نے والا مال ھذا من فضل ربی کی صدا ؤں میں گم ہو گیا۔ملک سنوارو قرض اتارو کی مہموں میں کروڑوں سوئیٹرز لینڈ پہنچ گئے ۔غریبوں کو فاقہ کشی ملتی رہی اور زر داریوں کے گھوڑے مربے کھاتے رہے۔ یہاں
جھو نپڑیاں گرتی رہیں اور وہاں سرے محل تعمیر ہو تے رہے۔ خوش اخلاقی قومی سمبل ٹھہرا ،اور ملک کی قومی اسمبلی میں غلیظ گالیاں اور کرسیاں چلتی رہیں۔ ایک مل سے دس ملیں کرکے لوگ ملک سے باہر جا تے رہے اور غریب کے گھر کے دروازے اسی پہ بند ہو تے رہے۔آزادیءِ نسواں کے نام پر عا صمہ جہانگیرائیں قوم کی بیٹیوں کے منہ کالے کرتی رہیں۔جس خطہ کو خانہء خدا سمجھا گیا، اسی ارضِ پاک پر خانہءِ خدا غیر محفوظ ہو تے گئے۔حکمران ترقی کے نعرے لگاتے رہے لوگ بھوک سے بلبلاتے مینار پاکستان سے کودتے رہے۔عدالتیں انصاف بانٹتی رہیں اور جر گوں کے فیصلوں نے جتوئی کی عزتیں بانٹ ڈالیں۔ادارے تعلیم بانٹتے رہے اور پڑھے لکھے روٹی کیلئے اپنی ڈگریاں گروی رکھنے لگے۔حکومتیں خوشحالی کے گیت الاپتی رہیں اور جہیز کی قلت نے جوان بیٹیوں کو بڑھاپے تک پہنچا دیا۔ادھر بچوں کے حقوق پر عالمی دن منا ئے جاتے رہے اور ادھر ہر موٹر پر تیزاب کے ڈرم لئے جاوید اقبال آبیٹھا۔ملک میں زرعی انقلاب کے دعوے ہوتے رہے اور گندم کو باہر سے منگوایا جاتا رہا۔لیڈروں نے لیڈریاں چمکاتے ہوئے نو کروڑ باشندوں کو غربت کی لکیر سے بھی نیچے دھکیل دیا۔ پاکستان دنیا کے 174غریب ملکوں میں 38ویں نمبر پر آگیا اور حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی،
جہانِ کہنہ کے مفلوج فلسفہ دانو
نظامِ نو کے تقاضے سوال کرتے ہیں
یہ شاہرا ہیں اسی واسطے بنی تھیں کیا
کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا
کہ نسلِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے

آزادی بھیک میں نہیں ملتی

آزادی بھیک میں نہیں ملتی
ایک شکاری کسی سبزہ زار میں مکاری کا پھندا بچھاتا ہے اپنی چاپلوسی اور چال کے دانے پھینکتا ہے۔۔۔۔۔۔ کسی کی آزادی کو غلامی میں بدلنے کی تدبیر کر تا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ کبوتر آزاد فضاؤں سے قید و بند کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں۔ جال کے سبھی در کھلتے ہیں اور کبوتر اگلے ہی لمحے اپنی آزادی کو کھو کر غلامی کی پنہا ئیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ لیکن آفرین ہے ان ننھی جانوں پر جنہوں نے شکاری کے جال کو اپنی قسمت کا لکھا نہیں گردانا۔اس پھندے کے سازشی دانوں کی طاقت کو آپس کی لڑائی میں صرف نہیں کیا،بلکہ اپنی رکتی اور تھمتی توانائیوں کو مجتمع کر لیا،اور شمع کی لو کے آخری بھڑکاوے کی طرح یوں بھڑ کے کہ جال کو لے اُڑے اور اسی لمحے آزادی کی فضاؤں میں پھڑ پھڑاتے پروں نے یہی سُرالاپاکہ آزادی بھیک میں نہیں ملتی ، آزادی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔
جنابِ صدر!
آزادی بھیک میں ملا کرتی تو آزادی مانگنے والے کسی پُر ہجوم سڑک کے کنارے، یا پر رونق بازاروں ، چوراہوں پر جھولیاں پھیلائے پھرتے ،لیکن کشمیر کے جلتے چناروں میں، افغانستان کی سلگتی پہاڑیوں پر ، کسووو کی اجتماعی قبروں کے ملبے تلے دبے ڈھانچوں کی راکھ تک یہی کہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ آزادی بھیک میں نہیں ملتی، آزادی بڑھ کے چھینی جاتی ہے۔ کہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ آزادی پانی کے دھاروں سے نہیں خون کے فوّاروں سے جنم لیتی ہے۔ لیلا ئے آزادی کے لئے دیوانہ وار صحراؤں کی خاک چھا ننا پڑتی ہے۔ تب وہ صبحِ نوید طلوع ہو ا کرتی ہے۔ جسے دنیا آزادی کہتی ہے۔
جنابِ صدر!
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب 313کسی بحری بیڑے کی آمد کا انتظار کئے بغیر ہزاروں سے الجھ جا ئیں۔
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب واپسی کے راستوں کو آگ لگا کر دشمن پر دھاوا بول دیا جائے!
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب جنرل ڈائر کی چلا ئی ہو ئی گو لیاں لو گوں کو اپنی ناکیں زمین پر رگڑنے پر مجبور کر دیں۔ آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب شعبِ ابی طالب کی گھا ٹیوں میں لوگ چمڑا اور پتے کھا کر گزارہ کرتے ہوں۔
آزادی تو تب ملا کرتی ہے، جب خالد بن ولید کسی لشکر جرّار کے سامنے صرف 60آدمی لیکر سارا دن لڑ تا رہے۔
آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب کوئی ماں اپنے بیٹے سے کہتی ہے خدا کی قسم تم کو اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی ،جاؤ خدا کی راہ میں لڑو۔آزادی تو تب ملا کرتی ہے ،جب کوئی جناح 14سال 14گھنٹے روزانہ کا م کرتا ہے۔
آزادی تو تب ملا کر تی ہے، جب کوئی فا طمہ ایک عورت کے نازک جذبات کو سُلا کر خیبر سے لیکر راس کماری تک مسلمان خواتین میں وہ تحریک پیدا کر تی کہ وہ سیکریڑیٹ کی عمارتوں پر چڑ ھ دوڑیں۔
آزادی تو تب ملا کر تی ہے۔،جب کوئی فر عون معصوم انسانیت پر زندگی کے در وازے بند کر تے ہو ئے بحرِ بیکراں میں غرق ہو جائے۔ آزادی تو تب ملا کرتی ہے، جب کوئی نمرود شرفِ آدمیت کو ظلمت کی چکی میں پیستے ہو ئے محض ایک مچھر کی راگنی سے مر جائے۔آزادی تو تب ملا کرتی ہے، جب موت کا سکون لینے والا ایمل کانسی اونگھتی انسانیت پر بیداری کا طمانچہ مارے۔ارے آزادی بھیک میں نہیں ملتی بلکہ بڑھ کہ چھینی جاتی ہے۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
زندگی ہے نشہ خیزو نشہ بیز و نشہ ریز اور آدمی ہے محوِ عشق محوِ تماشہ محوِ خواب۔ یہی زندگی ہے کہ صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے عمر یونہی تمام ہوتی ہے۔ زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل کیاخاک جیا کر تے ہیں۔ زندگی کیا ہے دکھ کا دریا ہے۔ زندگی ماہ و سال کی تلخیوں کا نام ہے۔ زندگی گردشِ ایام کا نام ہے۔ زندگی صبح و شام کا نام ہے ۔ زندگی سنگ و دشنام کا نام ہے۔ زندگی مجمع عام کا نام ہے۔ زندگی آرائشِ درو بام کا نام ہے۔ زندگی جم و جام کا نام ہے۔ زندگی بڑے نام کا نام ہے۔ زندگی انعام و کرام کا نام ہے۔ زندگی گل و گلفام کا نام ہے۔ زندگی بس اہتمام کا نام ہے۔ زندگی اک اختتام کا نام ہے۔ زندگی کا م کام اور بس کام کا نام ہے اور زندگی تو اسی کانام ہے کہ
؂ آتے ہو ئے اذاں ہو ئی جاتے ہو ئے نماز
اس مختصر سی زندگی میں کیا کر ے کوئی
زندگی کیا ہے کوئی نہ سمجھ سکا۔ایک ماں کیلئے اس کی اولاد زندگی ہے۔ایک محبوب کیلئے اس کی محبوبہ زندگی ہے۔ایک بچے کیلئے اس کا کھلونا زندگی ہے۔ایک فوجی کیلئے اس کا ہتھیار زندگی ہے۔ایک زر دار کیلئے اس کی دولت زندگی ہے۔ایک سر دار کیلئے اس کی عزت زندگی ہے۔ایک بیمار کیلئے اس کی دوا زندگی ہے۔ایک نواب کیلئے اس کی جائیداد زندگی ہے۔ایک استاد کیلئے اس کا علم زندگی ہے۔ایک فاتح کیلئے اس کی تلوار زندگی ہے۔ایک جنگجو کیلئے اس کا حوصلہ زندگی ہے۔
ایک مداری کیلئے اس کا کرتب زندگی ہے۔ایک مقرر کیلئے اس کی تقریر زندگی ہے۔ایک بھکاری کیلئے بھیک زندگی ہے۔
ایک شاعر کے لیے اس کی شاعری زندگی ہے۔یہ زندگی کیا ہے زندگی کہ۔
؂زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔
زندگی کا مفہوم ہر شخص کیلئے جدا ہے۔ کسی کیلئے یہ اجا لا ہے تو کسی کیلئے اندھیرا ہے۔کسی کیلئے نوید مسرت تو کسی کیلئے غم کی خبر۔ زندگی کو کوئی سمجھ نہ پایا۔
کیا زندگی وہ ہے جو سارا دن کوڑے کر کٹ کے ڈرموں سے اپنا رزق چنتی ہے۔کیا زندگی وہ ہے کہ جن کو چائے سونے کے چمچ سے پلائی جا تی ہے۔کیا زندگی وہ ہے جو ساری عمر دربدری میں اپنی جھونپڑی اپنا بستر اٹھا کر گزر جاتی ہے۔کیا زندگی وہ ہے جو محلوں سے شروع ہو تی ہے اور کسی زنداں میں ختم ہو جاتی ہے۔کیا زندگی وہ ہے کہ بنت حوا جسم کے بازار میں سج جائے ا ور نسل آدم خریدار و قصائی کا روپ دھار لے۔کیا زندگی وہ ہے کہ روٹی کے نوالوں کو ترس کر باپ اپنے ہاتھوں اپنی اولاد کو ختم کر ڈالے۔کیا زندگی وہ ہے کہ بھوک کے ڈر سے ماں اپنے بچوں کو نہر میں ڈبو دے۔کیا زندگی وہ ہے جو بیڈ ٹی سے شروع ہو تی ہے اور نائٹ کلب پہ اختتام کر تی ہے۔
میں تو کہتا ہوں زندگی ایک انداز نظر ہے۔ زندگی ایک مسکراہٹ ہے۔ زندگی ایک قہقہہ ہے۔ زندگی ایک خوبصورت لفظ ہے اس کو بانٹ دیجئے۔ زندگی خوبصورت ہے ۔زندگی سے پیارکیجئے۔زندگی وہی ہے جو وقت کے شاعر کو بتاتی ہے کہ
؂اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
زندگی وہی ہے جو معصوم بچوں کے ہاتھوں میں کاغذ و قلم کی بجائے پالش ، پانے اور برش تھما دیتی ہے۔ زند گی وہی ہے جو امیر کے گھر میں قمقمہ اور غریب کی کٹیا کا دیا ہے۔زندگی وہی ہے جو کہتی ہے ہمیں کیا برا تھا مر نا اگر ایک بار ہو تا ۔زندگی وہی ہے جو کہہ دے
؂بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
زندگی وہی ہے
؂جب چلی ٹھنڈی ہو ا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
زندگی وہی ہے
گلی میں کوئی چھلکا نظر نہیں آتا
شاید کسی غریب کے بچے گزر گئے ہوں گے
زندگی وہی ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔زندگی یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فی البد یہہ بات کرن

’فی البد یہہ بات کرنا؟‘‘
مباحثے کے مروجہ طریقوں میں سے مقرر کی اہلیت کو جانچنے کا ایک موثر طریقہ۔۔۔۔ کہ اسے ڈیڑھ سے دو منٹ کا وقت دیکر بولنے کیلئے کہا جاتا ہے۔ ان تقاریر میں زیادہ تر ’’مقرر‘‘ ٹوٹے پیمائی‘‘ کر تے ہیں ۔ ’’ٹوٹے پیمائی‘‘ وہ حربہ ہے جس کے ذریعے مقرر اپنی یادداشت کے بل بوتے پر یا گذشتہ ’’یادشدہ میٹریل‘‘ کو توڑ پھوڑ کر ’’تقریر‘‘ یا مباحثے میں فٹ کر دیتا ہے۔ اس کی مثال اسی لطیفے کی طرح ہے کہ سکول کا ایک طالب علم اردو کے پرچے کیلئے ایک ہی مضمون یا د کر تا ہے ’’ہوائی جہاز کا سفر‘‘ لیکن ہو تا کیا ہے کہ پرچہ امتحان میں فٹ بال میچ کا آنکھوں دیکھا حال آ جاتا ہے۔ تو پھر وہ سارا ہوائی جہاز کا سفر بیان کر نے کے بعد آخر میں کہتا ہے کہ میں نے جہاز سے نیچے دیکھا تو فٹ بال کا میچ ہو رہاتھا۔ میچ بڑا سنسنی خیز تھا۔ دونوں ٹیمیں بڑا شاندار کھیل پیش کیا اور چند باتوں اور فقروں میں پورا مضمون مکمل کر دیتا ہے۔ بعینہٖ لوگ سابقہ یاد کردہ تقاریر کے ’’پیرا گراف‘‘ استعمال کر تے ہیں۔ ان پیرا گراف کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مثلاً ایک مشہور زمانہ پیرا کہ کارگل سے لاش آتی ہے۔ بوڑھا باپ بیٹے کی لاش وصول کرتا ہے۔ آنکھوں میں نمی ، دل میں غم کہ مرہم اشک ہیں زخم طلب کا چارہ۔۔۔بوڑھا باپ پکارتا ہے میرے بیٹے جن ہاتھوں سے تجھے کھلایا تھا اب کفن پہناؤں تو کیسے جس کان سے تیری میٹھی باتیں سنتے تھے اس سے تیرے مرنے کی خبر سنوں تو کیسے۔۔۔ تجھے نہلاؤں تو کیسے۔۔۔تجھے دفناؤں تو کیسے۔۔۔ وغیرہ وغیرہ، یعنی بیٹے کی لاش اور باپ کی بے بسی کی وہ منظر کشی کی جاتی ہے کہ الفاظ کی روح کانپ اٹھتی ہے سننے والا اس اندو ہناک سانحے میں ڈوبا ہوتا ہے کہ مقرر ہوائی جہاز سے فٹ بال میچ دکھا کر چلتا بنتا ہے۔
ایک اور ’’ٹوٹا‘‘ پاکستان اور حب الوطنی کے متعلق کسی بھی تقریر اور مباحثے میں بار ہا استعمال کیا گیا۔۔۔
بازار میں لوگوں کا ہجوم ، لوگ اپنے قائد پر بننے والی فلم جناح دیکھنے جاتے ہیں ۔ سینما سکرین پر ایک دھماکہ ہوتا ہے۔ روح قائد پکارتی ہے ۔ جنون سے اور عشق سے ملتی ہے آزادی۔ پھر روح قائد سوال کر تی ہے کیا اس لئے یہ دیس حاصل کیا تھا۔ کہ یہاں رشوت ستانی کے بازار گرم کر دئے جائیں۔ کیا اس لئے لاکھوں لوگوں نے قربانی دی تھی کہ بننے والے دیس میں کسی کی عزت محفوظ نہ رہے ، وغیرہ وغیرہ۔
میں سمجھتا ہوں کہ اپنے پرانے فقروں اور پیروں کا استعمال کوئی بہت برا فعل نہیں۔ اس کی ایک اور توجیہہ اس طرح سے ہے ہماری عمر میں تجربات، دلائل، مطالعہ کی کمی ایسے بہت سارے اسباب ہیں جو ہمیں بار بار ایک ہی بات کو تروڑنے مروڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مثلاً میری لکھی ہوئی تقریروں میں آپ کوئی پانچ چھ فقرے مختلف رنگوں میں استعمال ہو تے بار ہا نظر آئیں گے۔ مثلاً میدان بدر میں 313اصحاب کا لڑنا ، محمد بن قاسم کا ایک بیٹی کی آواز پر آنا، طارق بن زیاد کا کشتیاں جلانا۔ ایک بندے کا مینار پاکستان سے چھلانگ لگانا۔ وغیرہ وغیرہ۔ پہلے تو اپنی اس کم علمی پر آپ سے معذرت خواہ ہوں لیکن دوسری بات میں یہ کہتا ہوں کہ آپ ان فقروں کے دہرائے جانے سے ہٹ کر ان کو ان کی جگہ پر ملاحظہ کیجئے اگر یہ آپ کو اس جگہ پر مناسب محسوس نہ ہوں تو یہ میرے فن تقریر کا جھول ہے۔ یہ یقیناًاک کمی ہے لیکن بار بار استعمال ہونے کے باوجود اگر یہ فقرے ہر جگہ پر اپنے علیحدہ معانی دیتے ہوں تو اسے لکھاوٹ اور دلائل کا کمال کہا جا سکتا ہے۔
میں واضح کر تا چلوں کہ ملتے جلتے موضوع پر آپ ضرور ان فقروں، پیروں سے مدد لیں۔ لیکن یہ نہ ہو کہ موضوع ’’لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ذہین ہیں‘‘ ہو، اور ادھر کارگل سے لاش آتی ہے اور گھر میں صف ماتم بچھ جاتی ہے کی تعبیرشروع ہو جائے ۔ فی البد یع بولنے میں جو سب سے اہم بات ہے وہ ہم معنی الفاظ کا خوبصورت استعمال ہے۔ فی البد یع تقریر/مباحثے میں دلائل سے زیادہ لفاظی چلتی ہے کیونکہ محدود وقت میں محدود ذہن بڑی تھوڑی دلیلیں ڈھونڈ ھ پاتا ہے۔ تو ایسے وقت میں آپ کے پاس ایک مضبوط ذخیرہ الفاظ ہو نا چاہیے۔ جو آپ کے تھوڑے سے دلائل میں وہ معنویت بھردے جو ایک مباحثے یا تقریر کے سارے وقت پر محیط ہو جائے ۔ جیسے ’’علم لازوال دولت ہے‘‘ پربات کرتے ہوئے۔۔۔۔ ۔ جی ہاں جناب صدر! علم لازوال دولت ہے اور یہ دولت اس کائنات میں یوں بکھری ہوئی ہے کہ جہاں سے اٹھائیں علم جنم لیتا ہے۔ مٹی اور ریت کے ذروں کی تلاش علم ،صحرا کی جہتوں کو چھا نیں’’علم‘‘
دریاؤں کی روانی پر غور کریں ’’علم‘‘
سمندروں میں غوطہ زن ہوں ’’علم‘‘
پھو لوں کے کھلنے پر غور کریں ’’علم‘‘
کلیوں کے چٹکنے پر غور کریں ’’علم‘‘
ستاروں پر کمندیں ڈالیں ’’علم‘‘
سیاروں کی گردش دیکھیں ’’علم‘‘
سورج کو چراغ دکھائیں ’’علم‘‘
چراغ کو چراغ در چراغ جلائیں ’’علم‘‘
کتاب کو صفحہ در صفحہ الٹیں ’’علم‘‘
ارے علم جہان کی جہتوں میں یوں پھیلا ہے کہ۔۔۔’’خورشید کا جگر نکلے گرذرے کا دل چیریں‘‘
اب اس سارے پیرے پر غور کریں تو اس میں خیالات کے حوالے سے بہت ارفع خیالات نہیں ملیں گے۔ مگر فن تقریر کے حوالے سے ان میں اتنی جان ہے کہ سامعین کو مسحور کر سکیں۔ ٹھیک اسی طرح سے فی البدیہہ تقریر اور مباحثے کے پیرے چلتے ہیں۔ آپ وقت کی مناسبت سے دلائل مرتب کر لیں اور بعد میں ان دلائل پر اپنی مضبوط لفاظی کے جادو سے وہ رنگ دکھلائیں کہ سننے والے سمجھ جائیں کہ۔۔۔۔
؂ سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

’’اشعار کا انتخاب‘‘
اشعار کا انتخاب ،گفتگو کو مدلّل اور پر مغز بنا تا ہے جو بات ایک لمبی تمہید اور لمبی نششت کی متمنی ہو، بعض اوقات اشعار اس کو چند مصرعوں میں سمیٹ لیتے ہیں۔دوران مباحثہ اشعار کے استعمال کر نے اور نہ کر نے پر بہت سے نقطہءِ نظر ہیں ۔ کچھ کے ہاں اسے بہت مؤثر قرار دیا گیا ہے، اور کہیں انکو زبان کیلئے لاٹھی یعنی سہارے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ہم ان دونوں سے اتفاق کر تے ہوئے کہتے ہیں، کہ اشعار استعمال ہونے چاہئیں ،اس لاٹھی کیطرح جو سامعین کی سوئی ہو ئی سماعتوں میں ’’کھٹاک‘‘ سے بجتی ہے اور جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہے۔
بہت سے مباحثو ں سے کشید شدہ تجربہ یہی کہتا ہے کہ "Clapping Point" کیلئے سب سے موزوں انتخاب کوئی اچھا قطعہ، کوئی رباعی اور باہم مطابقت رکھنے والے دو اشعار ہو سکتے ہیں۔ اب مناسب اور موزوں قطعات اور اشعار کا ڈھونڈنا واقعتا وہ ریاضت ہے جو مقرر میں بولنے کے علاوہ پڑھنے کا رجحان بھی اجاگر کر تاہے۔
عمو ماً ہونا تو یونہی چاہیے کہ آپ کوئی پیرا لکھتے آ رہے ہیں، رفتہ رفتہ آپ اس کو اٹھا تے ہیں اور با لآخر "Clapping point"کی طرف لے آتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ذخیرہ اشعار ایسا ہو تا ہے کہ آپ ہلکے پھلکے الفاظ سے تمہید باندھتے ہوئے سامعین کو اس مقام تک لے آتے ہیں کہ جہاں عش عش اور واہ واہ ہی باقی بجتی ہے۔ ذخیرہءِ اشعار کی نوعیت سے بات کو موڑنا فی البدیہہ تقریر کا مؤخر ہتھیار ہے ،کیونکہ اشعار پہلے سے آپ کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ آپ چند ساعتوں کیلئے ان اشعار کا جائزہ لیتے ہیں۔ بہت سی باتیں انہی اشعار سے نکل آتی ہیں اور بہت سی ویسے ہی۔۔۔۔ لیکن جب آپ ان ویسی ہی باتوں کو اشعار کے ساتھ موڑ کر میدان میں لاتے ہیں تو وہ تا ثر جنم لیتا ہے جو فی البدیہہ گفتگو کی جان ہے۔

جذبے کہاں سے جنم لیتے ہیں

جذبے کہاں سے جنم لیتے ہیں

گفتگو کے اسالیب میں، جذبات کی آمیزش کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ یہ جذبات ہی ہوتے ہیں، جو دل سے نکلتے ہیں۔ جو دل میں جاتے ہیں، جو سنسنی بن کر رگ و پے میں سرایت کر تے ہیں، جو کپکپی بن کر بدن پر طاری ہوتے ہیں۔ جو لمس کی وہ کیفیت پیدا کر تے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر پاؤں سے لیکر سر تک ایک لہر اٹھتی ہے ،سبھی سننے والے ایک رو میں بہنے لگتے ہیں۔ پھر لوگوں کی تالیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ سانسیں تھمنے لگتیں ہیں۔ جی ہاں ’’جذبات ‘‘ میں وہ طاقت ہے ،کہ ایک مرغی اپنے نو زائیدہ بچوں کی حفاظت کیلئے ’’بلی‘‘ پر پل پڑتی ہے۔ ایک معمولی چڑیا اپنے انڈوں کی حفاظت کیلئے سانپ کے پھن پر چونچیں گاڑ نے لگتی ہے۔ اور جب مقرر، لوگوں کے دل کی بات کو الفاظ کے جامے سے سجا کر، دلیلوں کے ہار پہنا کر، سا معین کے سامنے پیش کر تا ہے، تو پھر کوئی دل ، دل نہیں رہتا۔ وہ آواز بن جاتا ہے، جو بولنے والے کی آواز ہوتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ جذبوں کو کہاں سے ڈھونڈا جائے، کیسے تراشا جائے، کیسے پیش کیا جائے کہ سیدھے دل میں اتر جائیں۔ اس کیلئے سب سے موثر ذریعہ"Observation"ہے۔ کہ دل کو دیکھا جائے، پر کھا جائے، جانچا جائے، سنا جائے، سمجھا جائے۔ اس کو بھی دیکھا جائے جس کو سبھی دیکھتے ہیں۔ اس کو بھی سنا جائے جس کو کوئی نہیں سنتا۔ اس کو بھی سمجھا جائے جو سمجھ نہیں آتا، پھر آپ وہ سنیں گے جو لوگ سن نہیں پاتے، وہ سمجھ جائیں گے جو لوگوں کو سمجھ نہیں آتا۔ وہ دیکھ لیں گے جو کسی کو نظر نہیں آتا۔
کبھی آپ بوڑھی ماں کے معصوم چہرے کی کٹی پھٹی جھریوں میں جذب ہو تے آنسو ؤں کو دیکھئے۔ کبھی کھلونوں سے بہلتے ہو ئے بچوں کی کلکاریاں سنئیں۔ کبھی آپ ورکشاپوں کی بھٹی میں جلنے والے کم سنوں کی آنکھوں میں حسرتیں دیکھیں۔ کسی’’چھوٹے‘‘ کے ہاتھ میں تھامے پالش بر ش، پانے یا جوٹھے برتنوں کی کالک کی تہہ میں اتریں ۔ کوچوانوں کے چابک سے لیکر ان کے منہ سے ادا ہو نے والے بے سروپا فقروں تک، شفا یاب ہو نے والے مریض سے لیکر مر جانے والے چہرے کی مردنی تک، مسافر بسوں کی حالت زار سے لیکر ا ن میں کھڑے ہو کر عورتوں کیلئے جگہیں خالی کر نے والو ں تک۔محبت کر نے والی دو آنکھوں سے لیکر کسی خالی کشکول بھکاری کی آنکھوں تک۔ مل جانے کی دولت سے مالا مال دل سے لیکر کھو دینے والے دل کی مسلسل اذیت تک، صبح سکول کا بستہ اٹھانے سے لیکر اسے شام کو واپس اپنی جگہ پٹکانے تک، صبح سے لیکر شام تک اور شام سے لیکر رات تک، آپ دیکھیں اور غور کریں۔ لیکن دماغ سے زیادہ دل کا استعمال کریں۔ کیونکہ دماغ مطمئن کر تا ہے، دل خلش پیدا کر تا ہے اور جذبے اطمینان کی بجائے خلش اور خواہش کے پیدا کر دہ ہو تے ہیں۔

سعد کی قربانی

سعد ان دنوں اوکاڑہ کے ایک اچھے تعلیمی ادارے کا طالب علم تھا۔ کلاس ہفتم اے کے چند گنے چنے بچوں میں اسکا نام شامل نہ کرنا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ صاف ستھرے کپڑے پہننا، ہر کسی کو مسکرا کے ملنا، بڑوں کا ادب کر نا، استادوں کا احترام کر نا ، ہم سبقوں کے کا م آنا، اپنی چیزیں دوسروں کے ساتھ بانٹنا یہ سب باتیں اسے سکھائے بغیرہی آگئیں تھیں۔ شاید اس لئے کہ اس کا نام ہی ’’سعد‘‘ تھا یعنی وہ سعادت والا تھا یا پھر اس لئیے کہ اس کے والد صاحب ایک اچھے زمیندار تھے اور روپے پیسے کی کبھی کمی نہ رہی تھی اس لئے چیزیں بانٹ لینے سے اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیو ں کہ جہاں
چار بچے ہیں ایک ٹافی ہے
اب مساوات اضافی ہے۔
کا سلسلہ آجائے ۔ جہاں تنگ دستی تندرستی کے رستے میں حائل ہوتی ہو۔ جہاں خوبصورت بستہ خرید لیا جائے تو کتابوں کے پیسے پورے نہ ہو تے ہوں ۔ جہاں بانٹ لینے سے خود کو خالی ہاتھ رہنے کا خدشہ ہو۔ وہاں انسان لالچی ہو جاتا ہے۔ وہاں وہ ساچتا ہے کہ پہلے میں خود اپنا پیٹ تو بھروں پھر دوسروں کے متعلق سوچوں گا۔ شاید امیر باپ کا بیٹا ہو نا سعد کے اچھا ہو نے کی وجہ تھی مگر یہاں ایسا نہیں تھا وہ اچھا اس لئے بھی تھا کہ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘‘ کا سبق اس کے د ل میں اتر گیا تھا۔ اس یہ بہت اچھا لگتا تھا کہ اس کے ڈھیر سارے بھائی ہو۔ اس کے ہر خوشی اور غم میں شریک ہوں۔ اور ایسا تھا بھی وہ اپنی کلاس میں سب بھائیوں کیطرح ہی رہتے تھے۔ایک دوسرے کا خیال رکھتے ، پنسل ، ربر، شارپنر جیسی معمولی چیزوں کیلئے ایک دوسرے سے جھگڑا نہیں کرتے تھے۔ پہلے پہل ان میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہو جاتی وہ کئی کئی دن تک ایک دوسرے سے بات نہ کرتے شاید وہ اپنی اس بری عادت پر قائم رہتے کہ اسلا میات کی کتاب ان کیلئے ’’ایثار‘‘ کا سبق لے آئی۔ یہ نام ان کیلئے نیا نہیں تھا۔ کلاس کے آخری بیچ پر بیٹھنے والے، ایک سانولے رنگ والے لڑکے کو وہ اکثر ’’ایثار علی‘‘ کے نام پر ’’لبیک‘‘ اور ’’یس سر‘‘ کہنے سنتے آئے تھے۔ مگر وہ اس نام کے چکر کو کبھی نہ سمجھتے اگر استاد صاحب انہیں جنگ قادسیہ میں پیاس کے ہاتھوں شہید ہو جانے والے صحابہ کا واقعہ نہ سناتے ہوایوں تھا کہ جنگ میں بہت سے مسلمان سپاہی زخمی ہو گئے۔ وہ زخمی سپاہی درد کی وجہ سے کراہ رہے تھے اور پانی کی پیاس سب کے لبوں پر تھی۔ اتنے میں ایک صحابی پانی کا مشکیزہ لے کر آ پہنچتے ہیں۔ وہ ایک زخمی کو پانی پلانے لگتے ہیں تو اچانک قریب لیٹے دوسرے صحابی کی آواز سنائی دیتی ہیش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آواز سنتے ہی زخمی سپاہی پانی پلانے والے سے کہتا ہے کہ ٹھہرو! پہلے میرے دوسرے بھائی کو پانی پلادو اسے مجھ سے زیادہ ضرورت ہے۔ پانی پلانے والا اگلے شخص تک جاتا ہے اور ابھی پانی پلانے والا، پانی پلانے ہی لگا ہوتا ہے کہ کہیں اور سے صدا بلند ہو تی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا زخمی پانی پلانے والے سے درخواست کر تا ہے کہ میرے اس بھائی کو پانی کی زیادہ ضرورت ہے اور جب وہ وہاں پہنچتا ہے تو آخری پانی پینے والا جان، جانِ آفریں کے سپرد کر چکا ہو تا ہے۔
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا عَلَیْہِ رَاجِعُوْن‘‘
یہ واقعہ سعد کی زندگی میں ایک انقلاب لے آیا تھا۔ وہ جب بھی موقع ملتا اس واقعہ کو سوچتا اور جتنا سوچتا اتنا ہی حیران ہو تا جاتا ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی کی آخری سانسوں کا آخری پانی کا گھونٹ دوسرے کے نام کر دے۔ اپنی تکلیف کو بھلا کر دوسروں کی تکلیف کا خیال رکھے۔ پھر زندگی ’’سعد‘‘ کیلئے بہت آسان ہو گئی۔ اسے ایثار کا مطلب سمجھ میں آ گیا۔ اسے ایثار علی کے آخری بنچ پر بیٹھنے کا مطلب سمجھ میں آگیا۔ اسے اپنی چیزیں دوسروں کیساتھ بانٹنا آ گیا۔ جب اتنی ساری چیزیں آئیں تو کچھ چیز یں خود بخود زندگی سے غائب ہو گئیں۔ دوستوں سے لڑ نا، گھر والوں سے جھگڑنا خود بخود کم ہو تارہا۔ وہ دوستوں میں ایک اچھا دوست بنتا گیا اور گھر والوں کا فر ماں بیٹا، غرضیکہ ہر شخص اس سے خوش تھا۔ مگر اچانک اس سکھ بھری زندگی میں ایک بہت بڑی آزمائش نے اس کو آ گھیرا۔ آج وہ کارٹون دیکھنے بیٹھا تو ٹیلی ویژن اسے مظفر آباد، بالا کوٹ ، باغ اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں زلزلوں کی خبر دے رہا تھا۔ اس نے زندگی میں کسی مرتے ہو ئے آدمی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے ابھی مرنے کا مطلب واضح نہیں تھا۔ اسے یاد تھا کہ ایک دفعہ وہ گاؤں کسی رشتہ دار کے فوت ہو نے پر گیا تو وہاں موجود لوگوں نے بچوں کو پرے پرے ہٹا دیا تھا۔ اس سے اسے لگا تھا کہ شاید یہ بچوں کے سمجھنے کی چیزنہیں ۔ لیکن وہ دو سال پہلے کی بات تھی۔ اب اسے پہلے سے زیادہ بچوں کی سمجھ تھی۔ ٹی وی چلا چلا کر کہہ رہا تھا کہ ’’ مرنا‘‘ کسے کہتے ہیں۔ ’’سکول گراؤنڈ‘‘ کے کنارے پر کھڑے اسے بھی چند لمحوں کیلئے زمین کے ہلنے کا احساس ہو ا تھا مگر اسے یہ ہر گز خبر نہ تھی کہ زمین کا ہی ہلنا لا کھوں چہروں سے مسکرا ہٹیں چھین لے گا۔ اسے سب کچھ بے رونق لگ تھا۔ ٹیلی ویژن ، ٹیبل ٹینس، چیونگم، کھانا، سب کچھ بے معنی محسوس ہو رہا تھا ۔ کوئی بار بار اس کے کانوں میں کہہ رہا تھا ’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہو تا ہے‘‘ ۔ وہ بار بار اس خیال کو سمجھنے کی کوشش کر تا کہ اس کا کوئی بھائی اس سے کٹ گیا ہے۔ لیکن وہ اس خیال کو پورا نہیں کر پارہا تھا۔ یہ بات اس کی سمجھ سے بالا تر تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی ادھیڑ بُن میں وہ ڈرائینگ روم کے شو کیس میں سجی کتابوں تک جا پہنچاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتابوں کی ترتیب سے دل بہلا تے ہوئے اسے ’’احادیث رسول اکرمؐ‘‘ کا اردو ترجمہ مل گیا۔ ایک ہی صفحہ پلٹا تھا کہ ایک بات نے اس کی سوچ کو رستہ دے دیا اس کے خیال کو پورا کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر ہی اندر اسے بہت اطمینان کا احساس ہوا ۔ ایک انجانی خوشی کا احساس جو آج اس کی زندگی میں پہلی بار داخل ہو ئی تھی۔ کچھ پا لینے کی خوشی ۔ کچھ کر نے کی خوشی، اب وہ شدت سے صبح سکول جانے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ اسے ایک کام کر نا تھا۔ شاید اس کی زندگی کا سب سے بڑا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ یہ کام کر نے کے بعد بہت بڑا آدمی بن جائے۔ اسے اپنی زندگی کو کوئی مقصد نظر آ نے لگا تھا۔ اسے محسوس ہو نے لگا تھا وہ سعد شاید بنایا ہی اس لئے گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسب سابق کلاس شروع ہو ئی مگر زلزلے کے خوف سے ہر بچہ اندر ہی اندر سہمہ ہو ا تھا ۔ گو کہ وہ ایک پرائیویٹ سکول کی عمارت میں بیٹھے تھے۔ جس کی عمارت سرکاری سکول سے خاصی مضبوط لگتی تھی مگر کیا خبر یہ عمارت بھی اس سرکاری ٹھیکیدار کی بنائی ہو ئی ہو۔ جس نے باغ کے سکول تعمیر کئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں اپنے سکول کی دیواروں سے اعتماد اٹھتا محسوس ہو رہا تھا۔ سعد چپکے سے اٹھا اور استاد محرتم سے اجازت طلب کر نے کے بعد ایک چاک تھا ما اور بلیک بورڈ پر لکھ دیا۔
آنحضرت ؐ نے فر مایا جو کوئی اچھے عمل کی بنیاد ڈالتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اس کے پیچھے ہیں تو اسے اپنے عمل کا اجر بھی ملتا ہے اور لوگوں کے اعمال کا بھی ۔ اور جو کوئی بری راہ نکالتا ہے اور لوگ اس کا اتباع کر تے ہیں تو اس پر اپنا بھی وبال ہو گا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کی پیر وی کی۔
یہ لکھنے کے بعد ’’سعد‘‘ بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے دوستو ۔۔۔۔۔۔ میرے بھائیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آج ایک اچھے عمل کی بنیاد ڈالنے والا ہوں مں چاہتا ہوں اس سارے سکول کیلئے اس سارے شہر کیلئے آپ بھی اچھے عمل کی بنیاد رکھنے والے بنیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہو ئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اپنی ساری پاکٹ منی اور ساری عیدی‘‘ زلزلہ زدگان کے نام کر تا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کلا س کے آخری بنچ سے ایثار علی کی آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔! درمیان سے عثمان بولا میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! پھر یہ آواز ساری کلاس کی آواز بنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے استاد صاحب کی اجازت سے مختلف کلاسوں میں جا کر دوسرے دوستوں سے ’’چندہ برائے زلزلہ زدگان‘‘ کی اپیل کیلئے اجازت چاہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہر شخص نیک کا م کا حسہ دار بنتا چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نیک کام کی طرح ڈالنے والا آج بہت شاداں و فرحاں تھا کہ اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا کام کر لیا ہے۔

تقریر شروع کرنے کے انداز

آغازکی اہمیت 
تقریر کا آغاز آپ کا سامعین سے تعارف ہوتا ہے، ایک اچھا مقرر آغاز کے چند لمحوں میں ہی اپنے ہونے کا پتا دے دیتا ہے، سامعین جو پچھلے مقرر کے سحر سے نکل کر عام دنیا میں آچکے ہوتے ہیں اور اپنی توجہ عمومی طور پر سٹیج سے ہٹا چکے ہوتے ہیں۔ آپ کا ابتدائیہ سامعین سے توجہ لینے کا آغاز ہوتا ہے۔ اور ان ابتدائی پانچ دس سیکنڈز میں لوگ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس مقرر کو کتنا سنا جائے گا۔ 

تقریر شروع کرنے کے انداز


تقریر کے آغاز کے بہت سے طریقے مروجہ  ہیں ۔ان سبھی طریقوں میں سب سے پہلا کام اپنے موضوع کا تعارف کرانا ہوتاہے۔آپ جس طریقے سے بھی چاہیں موضوع گفتگو کو متعارف کروائیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ؟ آپ موضوع کی کس جہت پر بات کرنا چاہتے ہیں۔یہ تعارف کسی بھی طریقے سے ہو سکتا ہے۔مثلاً 

جناب صدر اور معزز سامعین

آج کی تقریب کا موضوع سخن ہے ’’آزادی‘‘!آزادی وہ اجالا ہے ۔۔۔۔۔ انسانی لہو کو  منعکس کرتا ہے۔آزادی وہ گیت ہے جو رگِ جاں سے سر چاہتا ہے وغیرہ۔
یعنی آپ موضوع بتا کر فوراً اس کو بیان کرنے لگیں۔ کسی قسم کی تمہید کو خاطر میں لائے بغیر 


دوسرا طریقہ بیانیہ ہے، جس میں آپ موضوع پر آنے سے پہلے کچھ تمہیدی کلمات کہتے ہیں جیسے 

صدر واجب الاحترام و حاضرین عالی مقا م!
آج کی اس تقریب میں میری سوچ کے اجالے جس موضوع کے حوالے سے اپنی تابانیاں بکھیرنے کے لیے بیتاب ہیں وہ ہے۔۔۔۔۔۔آزادی ۔۔۔۔آزادی ۔۔کسی قوم کی تاریخ کا سنگ میل ہوا کرتی ہے۔ ایک ایسی سوچ جو ممولے کو شاہباز سے لڑاتی ہے۔ایک ایسا جذبہ جو انسانی کھوپڑیوں کے کوہ ہمالیا ؤ ں کی پرواہ لیے بغیر جان و دل ہتھیلی پہ لا رکھتا ہے۔ایک ایسی امنگ جو ذوق یقیں میں وہ پختگی پیدا کرے کہ غلامی کی زنجیریں خود بخود ٹوٹنے لگیں۔جی ہاں وہی ہے آزادی۔

اسی موضوع کو کچھ یوں بھی آغاز کیا جا سکتا ہے۔ 
جناب صدر آج کا موضوع ہے آزادی میں بھی بساط بھر اس موضوع کے احاطے کی کوشش کروں گا۔گو کہ اس موضوع پر بات کرتے میری زبان لڑکھڑاتی ہے کہ شائد کسی موڑ پرر دل میرے جذبات کے ساتھ چل نہ پائے ۔ یہ وہ موضوع ہے جسے بخت آورانگریزی بندوق کی گولی کھانے کے بعد اپنے لہو سے تحریر کرتی 
ہے۔۔۔۔


تیسرا طریقہ کسی شعر سے آغاز کرنے کا ہے جیسے 
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
جناب صدر و معزز سامعین آج میں آزادی کے موضوع پر کچھ کہنے کی جسارت کروں گاآزادی وہ گلاب ہے جو لہو کی وادیوں میں اگتا ہے۔آزادی وہ لیلی ہے جس کے لیے مجنوں دیوانہ وار ظلم کی دیوارں سے ٹکرا جاتے ہیں۔یعنی آپ بات کا آغاز کسی موثر شعر سے کریں اور اپنے موضوع کی نقاب کشائی بھی ساتھ ہی کردیں۔
موضوع کے تعارف میں یہ بات یاد رکھی جانی چاہیے کہ یہی تعارف آپ کی گفتگو کے اصل رنگ کی وضاحت کرتا ہے آغاز دراصل آپ کے مطمع نظر کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔اگر آپ اپنی گفتگو کو سنجیدہ اور بھر پور رکھنا چاہتے ہیں تو نہائت مدللانہ انداز میں بات شروع کریں۔گفتگو کے آغاز میں شعر لگانے سے پہلے سوچ لیں کہ آپ کے شعر میں اتنی جان ہو کہ وہ سامعین پر گرفت رکھتا ہو۔ اگر آپ کے خیال میں آپ شعر پڑھنے کے بعد اس کو اپنی گفتگو سے مطابق نہیں کر پائیں گے تو شعر سے آغاز نہ کریں بلکہ اپنی بات کو کسی بھی سادہ سے انداز میں شروع کر دیں ۔آپ کا ابتدائیہ سننے والوں کی ایک سمت متعین کرتا ہے کہ ساری گفتگو فلاں جہت میں ہو گی جیسے
اگر آزادی ہی کے موضوع کو کوئی مقرر اس شعر سے شروع کرے
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتطار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہا مل جائے گی کہیں نہ کہیں
تو بڑی آسانی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بولنے والا آزادی کے حوالے سے تنقیدی پہلو ؤ ں کو اجاگر کرے گا۔اور جس کاافتتاحیہ خون دل سے رنگا ہوا ہووہ یقیناً ناموس وطن کے لیے قربانیوں کی راہ و رسم کو اجاگر کرے گا۔
افتتاحیہ ہی کسی مقرر کا کمال ہوتا ہے، وہ کس انداز سے موضوع کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ سامعین کی سماعتوں کو گرفت میں لینا اور ان پر سحر طاری کردینا یہیں سے آغاز ہوتا ہے۔